ریاست پاکستان نہیں سعودی نواز ضیائی باقیات بمقابلہ ایران: عامر ہاشم خاکوانی اور دیگر دیوبندی سلفی دانشوروں کے پراپیگنڈے کا جواب – عامر حسینی
مجھے اپنے اس کالم کا یہ عنوان اس لئے رکھنا پڑا کہ دیوبندی –سلفی انتہاپسندوں کے امام اور پاکستان کے معاشرے کی سعودی وہابائزیشن و دیوبندائزیشن کے زمہ دار جنرل ضیاء الحق اور پاکستان کے اندر تکفیریت کے بیج بونے والی فصل کو مداخل فراہم کرنے والے سید ابو الاعلی مودودی کے ایک اور ممدوح ہاشم خاکوانی نے اپنے تازہ کالم کا عنوان ” ریاست پاکستان بمقابلہ ایران ” رکھا ہے اور انہوں نے ضیائ الحقی باقیات سے تعلق رکھنے والے سابق ایس ایس جی کمانڈو اور پاکستانی جاسوس ایجنسی میں بیٹھے ” دیوبندی – سلفی جہادی پراکسی ” کی حامی لابی کی مدد سے ایک روزنامے کے ادارتی صفحے پر سب سے اوپر جگہ پانے والے کالم نگار مکرم خان کی طرح ” ایران ” کو شیطان بناکر دکھانے کی کوشش کی ہے اور یہ کام ہاشم خاکوانی نے چالاکی سے کرنے کی کوشش کی ہے –
انہوں نے بنا کسی ثبوت کے سب سے پہلے تو یہ بات کی ہے کہ پاکستان نے باقاعدہ سرکاری طور پر ایران کی بندرگاہ بندر عباس چاہ بہار میں راء کے پاکستان مخالف نیٹ ورک کے قیام اور اس کے آپریشن پہ احتجاج کیا ہے اور اس حوالے سے پاکستانی وزرات خارجہ نے ایک احتجاجی مراسلہ ایرانی حکام کو جاری کیا ہے
یہاں ہاشم خاکوانی نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے لفظ ” احتجاجی ” کو خط کے ساتھ بڑھا دیا ہے جبکہ ہاشم خاکوانی نے اپنے اس کالم میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی عاصم باوجوہ کے دو متنازعہ ٹوئٹس کا حوالہ تو دیا لیکن آئی ایس پی آر و وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی مشترکہ پریس کانفرنس کا تذکرہ نہ کیا جس میں عاصم باوجوہ نے پہلے تو اس بات کی تردید کی کہ چاہ بہار میں جوہری کے روپ میں موجود کلبھوشن یادیو کے راء کے ایجنٹ ہونے کے بارے میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیز کو علم تھا یا یہ سارا کاروبار کلبھوشن ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد کے ساتھ کررہا تھا –
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی اس تفصیلی کاروائی میں کہیں یہ بات نہ کہی کہ وہ 2002ء سے کلبھوشن یادیو کی سرگرمیوں پہ نظر رکھے ہوئے تھے یا ان کو ایران کی حکومت کے چاہ بہار میں راء کے پاکستان مخالف نیٹ ورک کے قیام میں تعاون کا علم ہے یا وہ اس کا الزام ایرانی حکومت کو دیتے ہیں لیکن ہاشم خاکوانی نے اپنے طور پہ ایران کو ” ملزم ” بنانے کے لئے یہ سارے الزامات ایران کے سر تھونپ ڈالے –
پاکستانی وزرات خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے اپنے آفس میں جو پریس بریفینگ میڈیا کو دی اس میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ انھوں نے ایک خط ایرانی حکام کو لکھا ہے جس میں ان کو چاہ بہار میں راء کے آپریشن بارے معلومات اور ثبوت فراہم کئے ہیں جبکہ پاکستانی وزرات خارجہ کے ترجمان نے ایک بھی جگہ ” احتجاج یا ایران کو ملوث ” کرنے والی بات نہیں کہی ، اب ہاشم خاکوانی کو کیسے پتہ چلا کہ وہ خط احتجاجی ہے اور ایران راء کی سرگرمیوں کو علم ہونے کے باوجود ہونے دے رہا تھا ۔۔۔۔ اس کا ثبوت ہاشم خاکوانی کو فراہم کرنا چاہئیے تھا
ہاشم خاکوانی صاحب اپنے کالموں میں تاریخ اور معروضی حقائق کا بہت تذکرہ کرتے ہیں لیکن پاک- ایران تعلقات بارے بات کرتے ہوئے انہوں نے کسی ایک جگہ بھی یہ تذکرہ نہیں کیا کہ پاکستان اور ایران آغاز کار سے ہی اپنے اپنے “بلوچستان ” کے اندر وقفے وقفے سے اٹھنے والی بلوچ قوم پرست تحریک جو اکثر علیحدگی پسند تحریک کا روپ اختیار کرتی رہی فوجی آپریشن کرتے رہے اور اس سلسلے میں 70ء میں نیپ کی حکومت توڑے جانے کے بعد 74ء میں جو آپریشن شروع ہوا تھا اس میں ایران کی حکومت اور پاکستانی حکومت نے باہمی گہرا تعاون کیا تھا
جبکہ 80ء کی دہائی میں جب ایران میں انقلاب آگیا اور وہاں پہ ایک ایسی حکومت تشکیل پائی جس کا رویہ سعودی عرب سے انتہائی سخت تھا اور اس وقت خطے میں سعودی بلاک اور عالمی سطح پر امریکی بلاک نئے ایرانی رجیم کو ختم کرنے کے درپے تھا اس زمانے ميں سعودی عرب سمیت گلف ممالک اور خود ضیاء الحق کی حکومت نے بلوچستان کے اندر سے سلفی اور دیوبندی مولویوں کو ایرانی بلوچستان کے اندر پہلے سے پائی جانے والی قوم پرست تحریک کے ساتھ نتھی ہوکر علیحدگی کی تحریک کو تقویت دی ،
یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ضیاءالحق بلوچ قوم پرستوں کے اکثر لیڈروں کو رام کرچکے تھے اور وہ جنرل ضیاءالحق کے کیمپ میں بیٹھے تھے صرف میر غوث بخش بزنجو تھے جن کے ساتھی ایم آرڈی کا حصّہ بنے اور انہوں نے ضیاءالحق کی وہابائزیشن ، سعودی نواز پالیسی کو مسترد کردیا اور 80ء سے لیکر 90ء کی دہائی تک بلوچستان میں دیوبندی تکفیری مدارس ایرانی بلوچستان کے اندر جاری فرقہ پرست سعودی نواز عسکریت پسندی میں ملوث کیڈرز کی سرپرستی کرتے رہے اور اس زمانے میں ہی سپاہ صحابہ پاکستان ، جمعیت اہلحدیث کی قیادت ایران کے خلاف سعودی حمایت میں زھریلا پروپیگںڈا بھی کرتی رہی ،
علامہ احسان اللہی ظہیر تو عراق جاپہنچے اور صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے پہ مبارکباد تک پیش کی –میں ریکارڈ کی درستگی کے لئے بتاتا چلوں کہ جب ضیاءالحق طیارے حادثے میں پھٹ گئے اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پوری کوشش کے باوجود پی پی پی برسراقتدار آگئی تو بے نظیر بھٹو نے تزویراتی گہرائی پالیسی کو رول بیک کرنے کی کوشش کی ، بلوچستان کے اندر سے ایرانی بلوچستان میں شورش کی کوششوں کو رول بیک کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل حمید گل کو ان کے عہدے سے ہٹایا اور بے نظیر بھٹو نے سعودیزائشن کے پراسس پہ روک لگانے کی کوشش کی تو اس زمانے میں بے ںطیر بھٹو کے ” شیعہ ” ہونے کی خبریں تواتر سے شایع کی گئیں جبکہ ایک مرحلے پہ جب بے نظیر بھٹو نے اپنے ” سنّی بریلوی ” ہونے پہ اصرار کیا اور کہا کہ ان کے شوہر کا خاندان شیعہ ہے تو طارق اعظم نے ان کے نکاح کو باطل قرار دیا –جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنرل مشرف نے کوئٹہ میں دیوبندی تکفیری تنظیموں کے خلاف کاروائیاں کیں اور انہوں نے ایرانی بلوچستان میں تکفیری دیوبندی تںطیم جنداللہ کے پاکستان میں بنے نیٹ ورکس کے خاتمے کی کوششوں کا آغاز کیا تو اس وقت بھی خاصا شور بپا کیا گیا تھا –
ہاشم خاکوانی یا تو بے خبر ہیں یا وہ جان بوجھ کر تجاہل سے کام لے رہے ہیں جبکہ یہ راز اب کوئی راز نہیں ہے کہ جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی ایرانی سرزمین پہ طیارے سے اتار کر گرفتاری میں بھی پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فراہم کرداہ معلومات کا بڑا کردار تھا ، پھر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے پاکستانی فورسز نے بلوچستان کی ساحلی پٹی اور کیچ ، تربت وغیرہ کے علاقوں سے جو ایرانی باڈر کے قریب ہیں تنطیم الفرقان ، جیش رسول اللہ سمیت ایران مخالف دیوبندی تکفیری دہشت گرد تںطیموں کا صفایا کیا – ہاشم خاکوانی کو سوچنا چاہئیے تھا کہ ایران اگر ہندوستانی جاسوس ایجنسی راء کو پاکستانی بلوچستان میں علحیدگی پسندوں کے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے میں مدد دے گا اور آزاد بلوچستان کی راء ہموار کرے گا تو اس سے خودبخود ایرانی بلوچستان کے اندر علیحدگی پسند مضبوط ہوں گے ، کیا ایرانی حکومت علیحدگی پسند پاکستانی بلوچ رہنماؤں کے ” ایرانی بلوچستان ” بارے خیالات و نظریات سے بے خبر ہے ؟
میں نے دو سے تین مرتبہ ڈاکٹر اللہ نذر سے انٹرویو کئے ، اور ڈاکٹر اللہ نذر سے میں اس وقت بھی ملا تھا جب وہ تازہ تازہ بولان ریڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرکے نکلے تھے اور بی ایس او کی مرکزی صدارت انہوں نے ڈاکٹر امداد بلوچ کے سپرد کی تھی اس زمانے میں بھی ایرانی رجیم کے بارے میں ان کے خیالات وہی تھے جو اسلام آباد کے بارے میں تھے اور مہران بلوچ ، براہمداغ بگٹی سمیت جتنے علحیدگی پسند بلوچ رہنماء ہیں وہ نہ صرف پاکستانی بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں بلکہ و پڑوسی ملک ایرانکے صوبہ بلوچستان – سیستان کی آزادی اور ان دونوں پ مشتمل متحدہ آزاد بلوچستان کے قیام کے حامی ہیں –
بلکہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز کے پاس یہ بھی معلومات ہیں کہ بلوچ علحیدگی پسندوں کے ایرانی کردوں سے بھی روابط ہیں اور وہ ترکی کے خلاف برسر پیکار پی کے کے ، اور شام میں کوبانی کے کرد گوریلوں سے بھی بہتر روابط بناچکے ہیں ، ایسے میں کیا ایرانی قیادت بیوقوف ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں ایک جہنم کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق کرے گی ، پی پی پی کی سابق حکومت نے ایران- پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا اور یہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تھا اگڑ ایران بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا تو وہ ایسے معاہدوں کی طرف بڑھتا ، دو دن پہلے ایرانی سفارت خانے واقع اسلام آباد نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح طور پہ کہا کہ پاکستانی میڈیا کے بعض سیکشن پاک- ایران تعلقات کی خرابی کی پوری کوشش کررہے ہیں یہ بیان بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان اور ایران کے تعلقات کی خرابی کے درپے ہیں
ہاشم خاکوانی نے سعودی عرب کی ریاست کے بارے میں لکھا ہے کہ اسے ” سلفی آئیڈیالوجی ” سے الگ کرکے دیکھنا چاہئیے یہ ایک ایسی بات ہے جس کو انتہائی مضحکہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے ، امریکی صدر باراک حسین اوبامہ سے لیکر درجنوں یورپی حکام اور تجزیہ کار بھی اب تواتر سے یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے تکثریت پسند معاشروں کو سعودی فنڈڈ وہابیت سے سخت خطرات لاحق ہیں جبکہ ایرانی حکومت جو کہ غالب شیعی اظہار رکھنے والی ایک ریاست ضرور ہے اور اس کی نفی نہیں کی جاسکتی لیکن کیا مرے دوست ہاشم خاکوانی بتاسکتے ہیں کہ ایران نے کس ملک کے اندر تکثیری سماج کی مخالفت کی ہے بلکہ ایران عراق ، شام کے اندر جو جنگ لڑرہا ہے وہ تو ہے ہی ان تںطیموں کے خلاف جو سوائے تکفیری سلفیت کے کسی اور طرح کے اظہار کو برداشت کرنے کو تیار نہ ہیں اور ایران کی جانب سے شیعہ – سنّی اتحاد اور صلح کلیت کے ساتھ رہنے کی بات بار بار ہورہی ہے
جبکہ سعودی عرب کا حال سب کے سامنے ہے یہ ملک پاکستان کے اندر بھی صوفی سنّی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور شیعہ نسل کشی کی علمبردار تنظیموں کی سپورٹ میں ملوث ہے ، ہندوستان میں صوفیاء کے ماننے والوں نے اس کی فنڈنگ پہ پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور بنگلہ دیش میں صوفی سنّیوں کی سب سے بڑی تنطیم اہلسنت والجماعت بنگلہ دیش نے حفاظت اسلام نامی دیوبندی مدارس کی تنظیم ، جماعت اسلامی وغیرہ پہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ سعودی وہابی امداد کے بل بوتے پہ بنگلہ دیش جیسے تکثریت پسند معاشرے کو وہابیت زدہ کرنا چاہتے ہیں ،
باراک حسین اوبامہ نے انڈویشیا میں بنیادپرستی ، انتہا پسندی ، دہشت گردی کا زمہ دار سلفی جہاد ازم کو ٹھہراتے ہوئے اس کا سہرا سعودی عرب کی فنڈنگ ، سعودی عرب سے پڑھے آئمہ مساجد و استادوں کو ٹھہرایا ہے –پاکستان کے اندر اس وقت تکفیری دہشت گردی 80ء کی دہائی میں شروع ہونے والی دیوبندی-سلفی جہادی پراکسی اور سعودی فنڈنگ سے بننے والی مدارس ایمپائر ہے نہ کہ راء و ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مفروضہ جاتی باہمی تعاون ( بھارتی انٹیلی جنس راء نے بالکل اس جہادی نیٹ ورک کے اندر اپنی پاکٹس بنائی ہیں جن کو پراکسیز کے طور پہ بھارت کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اور بلوچ تحریک کے اندر بھی اس کی پاکٹس موجود ہیں ) –
ہاشم خاکوانی سمیت پاکستانی اردو پرنٹ میڈیا کے اندر ایسے کالم نگاروں کی کمی نہیں ہے جو ضیاءالحقی دیوبندی-سلفی – جماعتی بریڈنگ کا نتیجہ ہیں اور ایران کو شطان بنانے کے اسٹبلشمنٹ ( سیاسی ، عسکری و عدالتی ) میں ضیاء الحقی باقیات کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں