لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ساٹھ سے زائد افراد کی شہادت اور ہماری دو عملی – از عمار کاظمی
کل تبلیغی جنید جمشید کو دو تھپڑ پڑے اور سوشل میڈیا پر اس کے حمایتی سارا دن تھپڑ مارنے والوں کی فکری وابستگی اور تصویروں سے لے کر شجرہ نسب تک شئیر کرتے رہے۔ بے جنید جمشید کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا، بے شک ان کا عمل قابل مذمت تھا۔ مگر آج لاہور کے خود کش دھماکے میں ابھی تک 16 افراد مر چکے ہیں، دیکھتے ہیں کل کے واقعہ پر جہالت اور جنونیت کا شور مچانے والے اس خود کش حملہ آور کی کتنی تصوریریں، کتنا شجرہ اور کتنی فکری وابستگی بتاتے ہیں، خود کُش بمبار پیدا کرنے والوں کی مذمت کے لیے کتنی پوسٹس لگاتے ہیں۔ معروف سلیبرٹی کو دھکے دینے پر آںسو بہانے والے معصوم بچوں، خواتین اور عام شہریوں کے لیے کتنی انساانیت اور علمیت کا ثبوت دیتے ہیں۔
اگر اسی ہزار لوگوں کے قتل کرنے والے کی شناخت (تکفیری دیوبندی) کی بات کرو تو کہتے ہیں آپ فرقہ واریت کر رہے ہیں، خود ہمیشہ ہری پگڑی والوں کے (سنی بریلوی) عقیدے کا نام لے کر انھیں انتہا پسند، جاہل اور جنونی کہتے ہیں، تنقید کرتے ہیں۔ ایسا یکطرفہ رویہ کون قبول کرے گا؟ حالات کیسے بہتر ہونگے، مذہبی منافرت کیسے گھٹے گی؟ اپنی طرف کے لوگ خود کش حملے کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سب تو ایک جیسے نہیں اگر یہ سب ایک جیسے نہیں تو کیا وہ سب سنی، صوفی، بریلوی ایک جیسے ہیں جو آج بھی پاکستان کی اکثریت ہیں۔ ایک طرف تھپڑ مارے جاتے ہیں دوسری طرف اسی ہزار لوگوں کے قتل پر بھی یہود کی سازش بیان کر دی جاتی ہے جبکہ سارے خود کُش حملہ آوروں کی فکری وابستگی کو یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن وہاں اگر مگر اور ڈرون کا ردعمل بتایا جاتا ہے۔ ایسی منافقت سے ایسا کچھ ہی پیدا ہونا تھا جو آج ہو رہا ہے۔ ہم سب کو منافقت، خود پسندی اور اقربا پروری سے پاک اور بلند غیر جانبدااری پر مبنی انصاف اور حق پرست رویوں کی ضرورت ہے۔