دیوبندی صحافی کا اعتراف، دیوبندی اور سلفی جہادیوں نے اپنے مقاصد کے لئے امریکہ اور یورپ کو استعمال کیا
نوٹ: اپنے فیس بک پیج پر شائع کردہ اس نوٹ میں مشہور طالبان و لشکر جھنگوی پرست صحافی فیض الله خان دیوبندی نے اعتراف کیا ہے کہ دیوبندی اور سلفی وہابی جہادی دنیا بھر میں اپنے تکفیری خارجی ایجنڈے پر عملدر آمد کے لئے مخلتف اوقات میں مختلف ملکوں کو استعمال کرتے ہیں – فیض الله خان دیوبندی نے دبے لفظوں میں داعش، القاعدہ القاعدہ، طالبان اورسپاہ صحابہ کی دہشت گرد کاروائیوں کی تحسین کی اور دہشت گردوں کو مظلوم قرار دیا – پورا مضمون پیش خدمت ہے
جہادیوں کے جس جن کو یورپ امریکہ اور انکے اتحادی مسلم حکمرانوں نے تیس پینتیس برس قبل کابل قندھار جلال آباد میں آزاد کیا تھا اب وہ ان تمام کی جانب سے پوری قوت صرف کئِے جانے کے باوجود بوتل میں دوبارہ بند ہونے کوبالکل بھی آمادہ نہیں
ماضی میں جب یہ سب عالی دماغ سویت یوینین کیخلاف ” جہاد ” پہ یکسو تھے ، تب انکے سان گمان میں بھی نا تھا کہ ایک دن اسی کابل و جلال آباد سے واشنگٹن ، نیو یارک ، لندن اور میڈرڈ پہ حملے منظم کئیے جائیں گے ۔۔۔۔ بات یہاں تک بھی رھتی تو ٹھیک تھا لیکن خطرے کی سرحد تب عبور ہوئی جب حالیہ مہنیوں میں پیرس استنبول و برسلز نے ٹھیک خون کا وہی ذائقہ چکھا جس کی کڑواھٹ تیسری دنیا بالخصوص مسلم خطے گزشتہ کئی برس سے محسوس کرتے چلے آرھے ہیں
بلاشبہ بے گناہوں کے خون بہنے کی کوئی ذی ہوش تائید نہیں کرسکتا لیکن جو کچھ دنیا میں ہو رہا ھے اس پہ غیر جانبدار ہوکر جائزہ لینے میں قطعا حرج نہیں اور یورپی مفکرین و ادارے یہ کام نسبتا شفاف انداز میں کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ کیونکہ اسلامی دنیا ایسے تمام کام کرنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ھے
ہوتا یوں ھے کہ جب بھی عالمی یا علاقائی قوت جہادیوں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرکے احساس تفاخر میں مبتلا ہوتی ھے تو عین انہی لمحات میں جہادی اس قوت پہ خوب ھنس رھے ہوتے ہیں
ذرا ماضی کا رخ کرتے ہیں ۔۔۔ جب 1980 میں دنیا بھر سے جہادیوں کے افغانستان آنے کے سفر میں آسانیاں پیدا کردی گئیں تو جہادی ، امریکی اور مسلم حکمران تنیوں ہی اپنی اپنی جگہ خاصے خوش و پرجوش تھے ۔۔۔ امریکا کا کام یوں آسان ہوگیا تھا کہ سویت یونین کے خلاف جہاد کی صورت میں مذھبی جواز مل چکا ۔۔۔ مسلم حکمرانوں نے ایسے سکھ کا سانس لیا کہ تمام مخالفین کو جہاد کے نام پہ افغانستان روانہ کردیا تاکہ انکی ” شہادتیں ” ریاستوں کی مشکلات کم کردیں ۔۔۔ اس کھیل کا سب سے اہم گروہ جہادیوں کا تھا جنہیں جب پاکستان و افغانستان کی آزاد فضا میسر آئی اور عالمی جہادی ایک دوسرے کیساتھ مل بیٹھے تو کئی نئے مباحث کے دروازے ان پہ وا ہوئے ۔۔۔۔ یہ 80 کی دھائی کا نصف تھا جب جہادی جمہوریت ۔۔۔امریکا ۔۔۔۔اقوام متحدہ ۔۔۔طاغوت ۔۔۔۔ حاکمیت ۔۔۔ توحید اور نواقض اسلام کے مسائل پہ گفتگو کرنے لگے ایک دوسرے کے نظریات و تجربات سے سیکھنے لگے سمجھنے لگے ۔۔۔ یہی وہ دن تھے جب جہادیوں نے ماضی کی جہادی تحریکوں پر غور فکر کیا اور اپنے حلقوں میں اس فکر کا پرچار شروع کیا
انہی دنوں افغانستان میں موجود عرب پاکستانی نوجوانوں کو ایس کے ایس نامی بندوق تربیتی عمل کے دوران سب سے پہلے سکھاتے تھے انکے مطابق پاکستانی پولیس ایس کے ایس استعمال کرتی ھے اور جب ہم پاکستان میں منظم کاروائیوں کا آغاز کریں گے تو پولیس پہلی مزاحمتی لائن ہوگی ۔۔۔۔ بعد کے عرصے میں وہی ہوا جو سوچا گیا تھا ۔
دلچسپ بات یہ ھے کہ ان ارادوں اور باتوں سے واقف سب ہی تھے لیکن انہیں سنجیدہ کوئی نہیں لیتا تھا کیونکہ انکے مطابق سب کچھ آنکھ کے نیچے ہو رہا ھے ہمارے بچے ہمارے احکامات سے کیسے روگردانی کرسکتے ہیں ؟ لیکن اسامہ بن لادن نے عین آنکھ کے نیچے سے کام اتار دیا ۔۔۔ تب اندازہ ہوا کہ سب کے اندازے کتنے غلط تھے
اصل بات تو یہی تھی کہ جہادی اپنا الگ ہی ایجنڈا رکھتے تھے اور آج برسلز و پیرس حملوں کے بعد لگتا ھے عالمی طاقتوں نے نہیں بلکہ جہادیوں نے عالمی طاقتوں کو استعمال کیا
سنہ 1980 تا 2016 کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو دیوبندی اور سلفی جہادی عالمی و علاقائی طاقتوں کے واسطے خاصے سخت جان ثابت ہوئے ہیں ڈورن حملے ہوں نیٹو امریکہ روسی بمباری ہو یا اسلامی ممالک میں انکے خلاف شروع کی گئی جنگ ۔۔۔۔ ھر جگہ وہ مار کھانے کے باوجود زندہ نظر آتے ہیں اور کوئی نا کوئی خوفناک کاروائی کر گزرتے ہیں ۔
دنیا کو سکون امن اور سلامتی کی تلاش ھے اس ایک خواب کو دیکھتے دیکھتے نجانے کتنے معصوم ا نسان فنا کے گھاٹ اتر گئے مگر آگ و خون کا یہ کھیل بغیر وقفے کے جاری ھے ، دنیا جتنی مہذب اب ھے شاید پہلے کبھی نا تھی لیکن انسان جتنا غیر مہذب اب ھے شاید پہلے کبھِی نا تھا
حقیقت تو یہی ھے کہ جب تک عالمی ادارے انصاف کی فراھمی میں ناکام رہیں گے آتش و آھن کا یہ کھیل انسانیت کو یونہی ذبح کرتا رھے گا ۔۔۔۔ مرنے والے کا کیا ھے؟ آسمان سے گرے ڈیزی کٹر سے مرے یا کسی خود کش کی جیکٹ کھلنے سے