ترکی کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار زمان کے خلاف صدر رجب طیب اردوان کی ریاستی دہشت گردی – بی بی سی اردو
کچھ دیر پہلے میں نے صحافی مظہر عباس سے پوچھا کہ ترکی کے سب سے بڑے اخبار زمان پر دن دہاڑے سرکاری قبضے کو پاکستانی میڈیا اور صحافتی تنظیمیں کیسے دیکھتے ہیں۔
مظہر نے ہنستے ہوئے کہا کہ تمہیں اگر ردِعمل درکار ہے تو تمام میڈیا اداروں اور صحافتی تنظیموں کو کم ازکم اس خبر کی تفصیلات تو بتا دو۔
تو جناب اپنے حال اور کھال میں مست پاکستانی میڈیا کے لیے تین دن پرانی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اردوگان حکومت نے استبول کی ایک ذیلی عدالت سے مختصر حکمِ امتناعی حاصل کر کے جمعے کی رات ترکی کے ساڑھے چھ لاکھ اشاعت والے اخبار زمان کا انتظام سنبھال لیا۔ پولیس کمانڈوز نے عمارت میں گھس کر انٹرنیٹ کنکشن منقطع کر کے عملے کو باہر نکال دیا۔ زمان میڈیا گروپ کی عمارت کے باہر دو ہزار کے لگ بھگ مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس اور تیز دھار پانی سے منتشر کردیا گیا۔
زمان کے ایڈیٹر انچیف عبدالحامد بلخی اور کالم نگار بلند انیس کو فوری برطرف کردیا گیا۔ ٹیک اوور سے ذرا پہلے اخبار اپنی آخری مزاحمتی سرخی چھاپنے میں کامیاب ہوگیا: ’ترک صحافت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن‘ جبکہ اخبار کے انگریزی ایڈیشن کی سرخی تھی ’ترکی میں آزاد صحافت کے لیے شرمناک دن۔‘
سرکاری قبضے کے بعد آج زمان جب دوبارہ شائع ہوا تو 42 کے بجائے 12 صفحات پر مشتمل سنڈے ایڈیشن کی شہہ سرخی ہے: ’عزت مآب صدر رجب طیب اردوگان کی باسفورس پل کی تعمیراتی تقریب میں شرکت۔‘
زمان میڈیا گروپ کا جھکاؤ فتح اللہ گولن کی عزیمت تحریک کی جانب تھا۔ فتح اللہ گولن کو صدر اردوگان چند برس پہلے تک اپنا گرو مانتے تھے مگر سرکاری اداروں میں گولن کے افکار کی بڑھتی مقبولیت سے اردوگان بے چین بھی تھے۔
سنہ 2013 میں جب پولیس پراسکیوٹر نے رجب طیب اردوگان کے قریبی ساتھیوں پر چند مالی گھپلوں کی پوچھ تاچھ کے لیے ہاتھ ڈالا تو گولن اور اردوگان میں کھلی دشمنی ہوگئی اور حکومت نے گولن کو غدار اور دہشت گرد قرار دے کر ان کے حامیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔گذشتہ برس عزیمت تحریک کی جانب جھکاؤ کی سزا میں دو اخبارات اور دو نیوز چینلوں پر سرکار پہلے ہی قبضہ کر چکی ہے۔
مگر معاملہ صرف فتح اللہ گولن یا زمان اخبار کا نہیں۔
واحد غیر سرکاری نیوز ایجنسی جہان کا کنٹرول بھی حکومت نے سنبھال لیا ہے۔ حال ہی میں ایک اور سرکردہ اخبار جمہوریت کے دو صحافیوں کو قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے جرم میں عمر قید کے مقدمے کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے ایک تحقیقاتی اسٹوری لکھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترک انٹیلیجنس اہلکار شام میں اسد مخالف مذہبی باغیوں کو اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں۔
اس وقت مختلف الزامات کے تحت 30 سے زائد صحافی پابندِ سلاسل ہیں۔ان میں سے بیشتر صحافی کرد ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی انڈیکس میں شامل180 ممالک میں ترکی آزادیِ صحافت کے اعتبار سے خاصا نیچے یعنی ایک سو انچاسویں نمبر پر ہے۔
زمان میڈیا گروپ کو بالکل اسی طرح ٹیک اوور کیا گیا جس طرح آج سے 57 برس پہلے پاکستان میں ایوب خان نے نیشنل سیکورٹی ایکٹ کے تحت میاں افتخار الدین کے ترقی پسند اخبارات پر قبضہ کر کے احمد ندیم قاسمی، مظہر علی خان اور سبطِ حسن کو ادارت سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا تھا اور بعد ازاں پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور جریدہ لیل و نہار کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے حوالے کردیا تھا۔
لیکن انفوٹینمنٹ اور ریموٹ کنٹرول کی ایجاد کے بعد آج پاکستان میں صحافت کنٹرول کرنے کے لیے قرونِ وسطی کے خام فسطائی طریقے استعمال نہیں کیے جاتے۔اب تو ’دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ‘ والا معاملہ ہے ۔
برادر ترک اسٹیبلشمنٹ کو برادر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اس بارے میں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تم تو بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
( فہمیدہ ریاض )
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/03/160306_baat_se_baat_sq