ریاست کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے – عمار کاظمی
سانحہ چارسدہ کی روشنی میں نجی و سرکاری سکولوں کی انتظامیہ کی مینٹنگ بلائی گئی اور سکولز سکیورٹی کے لیے مندرجہ زیل پندرہ نکات پر اتفاق کے ساتھ عملدرامد کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا۔
سکیورٹی ایجنسیز نے ایک کال انٹر سیپٹ کی ہے جس کے مطابق تیرہ سے چودہ خود کش بمبار افغانستان سے پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں اور ممکنہ طور پر ان کا ٹارگٹ کوئی گرلز سکول ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے نشر کی گئی وڈیو میں کہا گیا کہ تمام تعلیمی ادارے اس نظام کی نسریز اور بنیاد ہیں جسے وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں لہذا ان سب کو نشانہ بنایا جائے گا۔
تمام سکیورٹی گارڈز کو ایسی جگہ تعینات کیا جائے جہاں سے سارے سکول کا منظر واضع ہو۔ گارڈز کو اعلی تربیت یافتہ ہونا چاہیے اور اس طرح کی تربیت میں ای ڈی او کو ایلیٹ فورس کے تعاون کی سہولت اور معاونت حاصل ہوگی۔
گرد و نواح کی آبادی کو معاملے کی حساسیت کے بارے میں آگاہی دی جائے گی اور لوگوں سے کسی بھی مشکوک سرگرمی کے حوالے سے اطلاع کرنے اور رابطے میں رہنے کے لیے کہا جائے گا۔
اندرونی لوگوں یعنی عملہ اور کینٹین والوں وغیرہ کی سکیورٹی کلیرنس کو یقینی بنایا جائے گا۔
سکیورٹی معاملات کی نچلی ترین سطح تک یقینی بنائی جائے گی۔
سکول کی تمام اہم جگہوں پر ایمرجینسی نمبر نمایاں طور پر آویزاں کیے جائیں گے۔
مہمانوں کی جانچ پڑتال/ تفتیش کو یقینی بنایا جائے گا۔
تمام دروازے سکیورٹی بیریر سے کور کیے جائیں گے۔
– ہاکرز/ یا چھابڑی فروشوں کو سکول کے احاطہ سے دور رکھا جائے گا۔
– تمام جماعتوں کے طلبہ کے سکول میں داخلے اور اخراج کا وقت مختلف رکھا جائے گا۔
– ہاسٹلز کی سکیورٹی کی بہتر دیکھ بھال کے لیے نی وژن کیمرہ کے استعمال اور اضافی چابق دستی اور ہوشیاری کو یقینی بنایا جائے گا۔
– ایمرجینسی نمبرز کی لسٹ اور ایمرجینسی الارم ۸۳۳۰ پر مہیا ہونگے۔
– پولیس کو لازم طور پر اے اور اے پلس قسم سکولز کی سکیورٹی کے لیے کی جانثار موبائل فورس مہیا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ سکول انتظامیہ اسمبلی، کھیلوں اور دیگر تقریبات، اندرونی اور بیرونی اجتماع وغیرہ کے لیے مقامی پولیس سٹیشنز سے رابطے میں رہے گی۔
– اسمبلی، اندرونی و بیرونی اجتماعات اور کھیلوں سمیت دیگر تقریبات لازم طور پر ملتوی کر دی جائیں گی۔
یعنی بے موسمی چھٹیوں کی وجہ سردی نہیں، لاہور، اسلام آباد اور پنڈی کے بعض نجی و سرکاری گرلز سکولوں میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ خیر اس کے علاوہ سکول انتظامیہ کو پولیس، رینجرز اور آرمی سمیت ایمرجینسی نمبرز بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی گلی گلی میں دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کرنے والی ریاست کے پاس میٹرو اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر کے لیے تو کروڑوں اربوں کا بجٹ ہے مگر عوام الناس کی آگاہی کی خاطر رینجرز اور آرمی کے ایمرجینسی نبمرز کی تشہیر کے لیے کچھ نہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنھیں کسی مشکوک شخص کی اطلاع دینے کے لیے ۱۵ اور ۱۱۵ کے علاوہ آرمی، اینٹی ٹیرر سکواڈ، آئی بی، آئی ایس ائی وغیرہ کے نمبرز معلوم ہیں؟ پھر یہ کہنا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں؟ اگر ہم واقعی حالت جنگ میں ہوتے تو ریاست پیمرا کے ذریعے نجی چینلز کو دہشت گردی کے خلاف اس نوعیت کے اشتہارات بار بار مفت چلانے پر مجبور کر چکی ہوتی۔ باقی پولیس پر عوام کا کتنا اعتماد ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
مندرجہ بالا پندرہ نکات کو آپ دلبرداشتہ قسم کی حفاظتی تدابیر کا نام تو دے سکتے ہیں مگر انھیں سکیورٹی پلان کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ یعنی جس ملک میں ایک نہیں دو نہیں درجنوں ہلا اور دل دھلا دینے والے دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہوں وہاں یہ روایتی قسم کی حفاظتی تدابیر کیا معنی رکھتی ہیں؟ واضع کرتا چلوں کہ ان نکات کی کمزوری کے باعث ہی انھیں مفادِ عامہ کی خاطر کالم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ نکات یقیناً اعلی سکیورٹی اور عسکری اداروں کے تجربہ کار افسران نے بنائے ہونگے مگر انھیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ پاکستان کو دشمن سے اتنی بار شکست کا سامنہ کیونکر کرنا پڑا۔ خود کش جیکٹس سے آراستہ، ہنڈ گرنیڈز اور اے کے ۴۷ سمیت جدید ترین اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ ڈنڈا نما، گنتی کے چار نمبر کارتوس والی پمپ ایکشن شارٹ گن سے؟ جو چار پانچ سکیورٹی گارڈز سامنے کھڑے ہوتے ہیں وہ تو اکثر بغیر کسی مزاحمت کے ہی مارے جاتے ہیں۔ نہ کوئی پوشیدہ سنائپرز نہ کوئی شارپ شوٹر۔ اور کہا جاتا ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔ ارے او بیکار دماغوں والے قابل نفرت اور کاہل افسران، کیا یہ حالت جنگ کی تیاری ہے؟ اور ذرا اس ملک کے تعلیم بیچنے والے سرمایہ دار کی ذہنیت پر بھی غور ہو کہ یہ سکولوں سے کروڑوں اربوں کمانے والے پچاس ساٹھ ہزار والے دو ریٹائرڈ ایس ایس جی کمانڈو بھی ہائر نہیں کر سکتے۔ یعنی ان سنگین حالات میں یہ اپنی اینڈ پراڈکٹ جس سے یہ کروڑوں کماتے ہیں اسکی حفاظت کے لیے دو معیاری گارڈز کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا پیکج بھی نہیں دے سکتے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سرمایہ دار دھرتی پر بد ترین مخلوق ہیں۔ ارے آپ کو تو چاہیے کہ اپنی ہر برانچ کے لیے ٹرینڈ سنائپرز ہائر کریں اور ان کی پوزیشن اتنی خفیہ رکھیں کہ سکول میں ان کی موجودگی اور پوزیشن کا ان کے علاوہ پرنسپل کو بھی علم نہ ہو۔
بہر حال سرکاری بیانیے کے مطابق سردی کے باعث سرکار نے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے ۳۱ جنوری تک بند کر دیے ہیں۔ یاد رہے کہ سردی کی یہ شدید لہر سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی آئی تھی۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض بڑے نجی سکولز کی میل فی میل ایڈمنسٹریشن کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ معمول کے مطابق سکول آتی رہیں۔ جناب وزیر اعظم و خادم اعلی صاحب اگر سکول سردی کی وجہ سے بند ہیں تو سردی سب کو لگتی ہے اور اگر یہ دہشت گردی کی خوف سے بند ہیں تو یقین کریں گولی سے پرنسپل، ہیڈ مسٹریس سمیت اکاونٹس والے بھی مر جاتے ہیں۔ جناب اپنے احکامات پر مکمل عمل درامد کو بھی یقینی بنایا کریں۔ سکیورٹی گارڈز اور خاکروبوں کے علاوہ عملہ سکولوں میں بغیر بچوں کے بیٹھ کر کونسا ایٹم بم ایجاد کر رہا ہوتا ہے جو انھیں سردی لگنے یعنی گولی لگنے کے لیے بلا لیا جاتا ہے؟ اگر کسی بڑے سکول کی پہلے چار نمبر کے سینیر لوگ اگر اپنے عملے سمیت دہشت گردی کے کسی حملے میں مارے جائیں تو اس کے اثرات کا اندازہ آپ خود بہتر کر سکتے ہیں۔
خیر آخری چند باتیں یہ ہیں کہ مٹھی میں ریت کی مانند ملک ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ریاست کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈھیلی اور دہشت گردوں کی مضبوط ہو رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اچھے برے طالبان اور تمام جہادی گروپ ایک ہی فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جنرل مشرف اور جنرل ضیا الدین بٹ جیسے جرنیل صاحبان برائے نام اچھے طالبان کو اعلانیہ اپنی پانچویں دفاعی لکیر بیان کرتے ہیں۔ اور ہم کیسی عسکری قوت اور ایٹمی طاقت ہیں کہ جہاں اُسامہ کو تو امریکن ایبٹ آباد سے اٹھا لے جاتے ہیں مگر ہم ہزاروں لوگوں کے قاتلوں پر جوابی حملہ کرنے کے لیے ایک مکمل طور پر منتشر ریاست افغانستان میں داخل نہیں ہو سکتے؟ آج شاید ہمیں کسی مرد مومن جرنیل سے زیادہ جنرل رنجیت سنگھ کی ضرورت ہے جو دہشت گردوں کو قابل تک مار کر آئے۔ دوسری طرف ہمارے اندرونی حالات یہ ہیں کہ آئین و قانون سے اعلانیہ انحراف کرنے والے مولوی عزیز کو کھلا چھوڑنے والا نا اہل وزیر داخلہ کہتا ہے کہ اپوزیشن مایوسی پھیلا رہی ہے۔ تو بھائی چوہدری نثار تو ہی بتا کہ تم سب کی مشترکہ نا اہلیوں اور بچوں کی موت پر ہم کس طرح کی خوشی منائیں؟