An (unofficial) ISI spokesperson writes on former CIA head in Islamabad


مفرور سی آئی اے چیف
احمد قریشی

پاکستان کو سی آئی اے کے ایجنٹوں سے پاک صاف کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہی حکومت میں موجود ایسے عناصر کی بھی چھانٹی کی جارہی ہے جنہوں نے سی آئی اے کی مدد کرتے ہوئے سیکڑوں انسانوں کی جانوں کے اتلاف میں نمایاں کردار ادا کیا۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ تعداد سیکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں کی تعداد میں ہے۔ معصوم پاکستانی مرد ، خواتین اور بچے ملک میں گزشتہ چار برس کے دوران ہونے والے ڈرون طیاروں کے حملوں میں مارے گئے۔ یہ تمام حملے غیرقانونی تھے کیونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے جو مینڈیٹ امریکا کو افغانستان پر قبضے کے حوالے سے دیا گیا ہے اس میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کا کوئی کردار نہیں کہ وہ پاکستان میں کسی خفیہ جنگ میں کوئی حصہ لے سکے۔ پاکستانی باشندوں کی جانوں کی اتلاف کی یہ ذمے داری سی آئی اے کے سر ہے جس کا دائرہ ان 60پاکستانیوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو کم از کم ان دو حملوں دوران ہلاک ہوگئے جو پاکستانی افواج نے اس سال سی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ جھوٹی اطلاعات کی بنا پر کیا تھا ۔

یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اب بھی پاکستانی حکومت میں بعض عناصر ایسے موجود ہیں جن کا یقین ہے کہ سی آئی اے کی تحقیقات قابل اعتماد ہیں حالاں کہ جہاں تک افغانستان اور عراق کے بارے میں فراہم کردہ سی آئی اے کی معلومات اور اطلاعات کا تعلق ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ اس نے سفید جھوٹ سے کام لیا تھا۔ افغانستان میں سی آئی اے تین ہزار افراد پر مشتمل ایک خفیہ فوج چلارہی ہے اور ایسے فوجی آپریشن کررہی ہے جن کے لئے وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہے۔

اوپر بیان کئے گئے سی آئی اے کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق کئے جانے والے حملوں کے حوالے سے ایک معاملے میں تو مہیا کردہ معلومات اس قدر ناقص اور غلط تھیں کہ پاکستان آرمی کے چیف کو ذاتی طور پر ان ہلاکتوں کے لئے نہ صرف معذرت طلب کرنا پڑی بلکہ مرنے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ بھی ادا کیا گیا۔ آرمی چیف کا یہ دلیرانہ اقدم اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان آرمی معصوم پاکستانیوں کی ہلاکت کے بارے میں کتنے گہرے اور شدید ہمدردی کے جذبات رکھتی ہے۔ پاکستان آرمی کا یہ رویہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف دور سے کس قدر مختلف ہے جن کی انتظامیہ نے سی آئی اے کو باقاعدہ ڈرون طیاروں کے حملوں کی اجازت دے رکھی تھی۔

اسلام آباد میں مقیم سی آئی اے چیف جو ناتھن بینکس گزشتہ ہفتے پاکستان سے اس وقت فرار ہوگئے کیونکہ انہیں معصوم پاکستانیوں کے قتل عام کے جرم میں ذمے دار قرار دیا جارہا تھا جنہیں ان کی ایجنسی نے غیرقانونی میزائل حملوں کے ذریعے ہلاک کردیا تھا۔

جوناتھن بینکس کے گلے میں قانون کی رسی اس وقت کس دی گئی،جب سی آئی اے کے ڈرون طیاروں کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایک پاکستانی باشندے کے اہل خانہ نے اسلام آباد پولیس سے درخواست کی وہ جوناتھن بینکس کے پاکستان چھوڑنے پر پابندی عائد کردیں۔ جوناتھن بینکس کو اس بات کا پیشگی علم ہوگیا جو پاکستان میں غالباً بزنس ویزا پر مقیم تھے۔ بہرحال ان میڈیا رپورٹس کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔ اس ہفتے کے شروع میں ایک ویب سائٹ پاک نیشنلسٹ ڈاٹ کام نے پاکستانیوں سے کہا کہ وہ جوناتھن بینکس کی تصویر کو عام کرنے میں اس کی مدد کریں۔ مسٹرخان نے سی آئی اے کے چیف لیون پینٹیا، اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے خلاف بھی مقدمہ قائم کرنے کے لئے ان دونوں کو بھی نامزد کردیا لیکن یہ ذمے داری صرف سی آئی اے کی دہلیز پر ہی ختم نہیں ہوتی اور وہ ان ہلاکتوں کی واحد ذمے دار نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستانی عناصر بھی برابر کے مجرم ہیں جن کو قانون کے کٹہرے میں گھسیٹنا ضروری ہے۔

اس حوالے سے کئی نکات پر غوروخوض ضروری ہے۔
ان نکات میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے منسوب وہ بیانات بھی شامل ہیں جن سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ وہ سی آئی اے کے حملوں میں پاکستانیوں کی ہلاکت کے برابر شریک ہیں اور یہ حملے ان کی مرضی اور منشا ہی سے کئے گئے تھے۔ امریکی صحافی باب وڈورڈز نے آصف زرداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سینئر امریکی حکام کو بتایا کہ انہیں ”پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر ذرّہ برابر بھی تشویش نہیں ہے۔“ پاکستان میں سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے واشنگٹن کو دیتے ہوئے ایک سفارتی مراسلے میں لکھا کہ یوسف رضا گیلانی نے ایک اجلاس کے دوران امریکی حکام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ڈرون حملوں کوجاری رکھنے کی حمایت کی اور یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ وہ شہریوں کی ہلاکت کا معاملہ خود سنبھال لیں گے۔ بہرکیف ان دونوں میں سے کسی نے بھی اب تک ان بیانات کی تردید نہیں کی لہٰذا یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ بالکل صحیح ہیں۔

درحقیقت یوسف رضا گیلانی کا بیان واشنگٹن کے ان پاکستانی معذرت خواہوں کے منہ پر ایک تھپڑ کی
طرح تھا جو اب تک پاکستان میں سی آئی اے کی تمام سرگرمیوں اور کارروائیوں کی نہ صرف بھرپور تائید وحمایت کرتے آرہے تھے بلکہ انہیں پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں سے بھی انکار تھا۔ یوسف رضا گیلانی کے بیان نے اس بات کی تصدیق کردی کہ امریکا نواز پاکستانی حکومت اور سی آئی اے دونوں کو پاکستانی باشندوں کی ہلاکت پر گہری تشویش لاحق ہے۔

امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی بھی اس ذمے داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے جن کی متواتر کوششوں کے نتیجے میں سی آئی اے ایجنٹس اور پرائیویٹ امریکی سیکورٹی کے اہل کاروں کو پاکستان لایا گیا ہے۔ ان کی خواہش اس وقت پوری ہوگئی جب صدر آصف زرداری نے انہیں یہ صوابدیدی اختیار دے دیا کہ وہ واشنگٹن سے بغیر کسی تصدیق کے ہی ویزا جاری کرسکتے ہیں۔ ایک موقع پر تو اس سال جاری کئے گئے ویزوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ تھی جو چوبیس گھنٹوں کے اندر جاری کئے گئے۔ ہر کوئی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ امریکی سیاح اور تاجر اتنی بڑی تعداد میں پاکستان نہیں آئے۔ دراصل حسین حقانی نے امریکی سیاحوں اور تاجروں کے پردے میں امریکی انٹیلی جنس اور فوجی اہل کاروں کو پاکستان کے لئے یہ ویزے جاری کئے اور بسا اوقات ان کا اپنے افسران بالا سے پاکستان کے فارن آفس میں اختلاف بھی رہا۔

گزشتہ برس انہوں نے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے نام تحریر کردہ اپنے ایک خط میں یہ شکایت بھی کی تھی کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے ”آئی ایس آئی“ کا سربراہ ویزا جاری کرنے کے عمل اور اس کی تصدیق کے طریقہ کار میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ حسین حقانی کا یہ خط کسی طرح ایک بھارتی نیوز چینل کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے اسے نشر کردیا۔جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ سوال پوچھے جانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے امریکی سی آئی اے کو جاسوسی کے لئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے میں کیا کردار ادا کیا تھا ، یہ کیسے ممکن ہے کہ سی آئی اے یک طرفہ طور پر ہی پہلے جاسوسی کی اجازت لے اور پھر اسے میزائل حملوں تک وسیع کردے اور حکومت پاکستان اسے روکنے کی بھی اہل نہ ہو۔

پاکستانی فوج اور پاکستان فضائیہ بھی اس سلسلے میں ذمہ دار ہیں۔ جب پاکستانی عوام سی آئی اے کے ڈرون حملوں پر بحث مباحثہ کررہے ہوں تو یہ سوال اکثر اوقات پوچھا جاتا ہے کہ اگر ان حملوں میں امریکا نواز زرداری حکومت پوری طرح ملوث ہے تو پاکستانی افواج آخر کیا کررہی ہیں؟؟ بہرنوع اس معاملے کا جواب سادہ نہیں ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ پاکستانی فوج محسوس کرتی ہے کہ اس کے ہاتھ دو چیزوں نے باندھ رکھے ہیں۔ ایک تو وہ ان تمام وعدوں کا پاس کرنے پر مجبور ہے جو سابق صدر پرویز مشرف نے امریکی حکومت سے کئے تھے۔ دوم۔ پاک آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی یہ خواہش ہے کہ وہ سویلین حکومت کی اس پالیسی کے خلاف نہیں جائیں گے جس کی رو سے اس نے سی آئی اے کو حملوں کی اجازت دے رکھی ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر لیا جاسکتا ہے کہ فوج ملک کے سیاسی امور میں بے جا مداخلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ فوج ایسا ہرگز نہیں چاہتی جو موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے درست معلوم ہوتا ہے۔

آخری تجزیے میں، اگر صورت حال بدتر ہوتی ہے تو سی آئی اے اس علاقے کو بالآخر چھوڑ دے گی اور فرار ہوجائے گی۔ لیکن ہم فرار نہیں ہوسکتے۔ ہمیں ایک طویل عرصے تک اپنے ہی شہریوں کی ہلاکتوں کے ورثے کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا یہی وجہ ہے کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کو جلد ازجلد تلاش کرکے ملک سے باہر نکال دیا جائے۔ذیل میں درج تبصرہ کسی نے امریکی ویب سائٹ پر یہ خبر سننے کے بعد کیا ہے کہ گزشتہ اختتام ہفتہ ڈرون طیاروں کے حملوں میں پچاس پاکستانی باشندے ہلاک ہوگئے۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کو بڑی مستعدی سے تعاون اور معاونت فراہم کررہا ہو اور دوسرا اس ملک کے خلاف جنگ کو جاری رکھے۔ واقعی اس قوم کو آفرین ہے۔

Source: Jang, 24 Dec 2010

Comments

comments