بسمہ مرگئی مگر بھٹو زندہ ہے – عثمان غازی
لیاری کے جیالے کی ایک 10ماہ کی بیٹی بلاول بھٹو کے پروٹوکول کی وجہ سے مرگئی، یہ واقعہ ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے، یہ معاشرتی المیہ ہے،وی آئی پی پروٹوکول کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور ہر دوسرا شخص مذمت کے اس فریضے کو انجام دے رہا ہے، اس لیے میں یہاں میں آپ کے سامنے واقعے کے ردعمل کے مختلف پہلو رکھنا چاہتا ہوں
بچی کی ہلاکت کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہوا کہ پاکستانی میڈیا کو اپنے ایک دشمن کی کوئی کمزوری ہاتھ آگئی ہو، یہ کمزوری ماڈل ایان، ڈاکٹر عاصم ، تنویرزمانی اور کرپشن کے کیسز سے زیادہ مضبوط تھی، اس میں باپ کے آنسو اور ایک بچی کی لاش تھی، دفاع کرنے کی ہر کوشش کو بھی بلاول بھٹو کے خلاف ایک ہتھیار بنایا جاسکتا تھا اور یہی ہوا
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے مگر بسمہ مرگئی ۔۔ بھٹو کو کوئی نہ مارسکا، بھٹو نے بسمہ ماردی۔۔۔بلاول بھٹو نے معصوم کلی کی جان لے لی۔۔یہ پاکستانی میڈیا کا لب ولہجہ تھا
کل لاہور کے چلڈرن اسپتال میں آٹھ نومولود بچے مرگئے، ردعمل میں وہ شدت نہیں تھی، جو بلاول بھٹو کے معاملے میں نظر آئی، ملتان میں اکتوبر 2014میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے میں بھگدڑ مچنے سے سات افراد جاں بحق ہوگئے، واویلا تو درکنار کسی بھی قسم کے منفی الفاظ کے استعمال سے بھی گریز کیا گیا، اب تو کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی کا کیا بنا مگر آج سے دس سال بعد بھی آپ کو بسمہ کے نام پر طعنے دیتے افراد ضرور مل جائیں گے، یہ رویہ بھی بسمہ کی ہلاکت کی طرح قابل مذمت ہے
بسمہ سیکیورٹی کلچر کا نشانہ بنی مگر یہ کلچر توممنون حسین، نوازشریف، عمران خان ، مولانا فضل الرحمان سمیت سب کا ہوتا ہے، دہشت گردی اور انتہاپسندانہ رویوں کے شکار کسی بھی ملک میں کیا کسی بھی لیڈر کو رکشے میں گھومنا زیب دیتا ہے؟
بلاول بھٹو کا معاملہ قدرے سیرئس ہے، اس کے نانا کو پھانسی چڑھادی گئی، ایک ماموں کو زہر دیدیا گیا، دوسرا ماموں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تو ماں کو پنڈی میں خون میں نہلادیا گیا ، باپ گیارہ برس کی جیل بھگتا کر ملک سے باہر رہنے پر مجبور ہے توپیپلزپارٹی سے وابستہ ہر دوسرا فرد کرپشن اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے
آصف زرداری بلاول کا باپ ضرور ہے مگر بلاول کو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت ملی ہے، اس وراثت کا یہ آخری امیدوار ہے ،اگر ذوالفقارعلی بھٹو کی یہ آخری علامت مٹ گئی تو جیالوں کے پاس کچھ نہیں بچے گا، وہ اس کوہتھیلی کا چھالابنا کررکھتے ہیں، بھٹو کی پھانسی کے بعد سے جیالے جس عتاب کا شکار ہیں، ان کے نزدیک بلاول ان کا نجات دہندہ ہے
ایک اینٹی اسٹبلشمنٹ پارٹی کو چلاتے ہوئے بلاول بھٹو کس سیکیورٹی رسک میں ہے، اس کا اندازہ کسی بھی سمجھدار انسان کو ہوسکتا ہے، بلاول بھٹو چاہے بھی تو جیالے اس کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے
بلاول بھٹو کے معاملے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر غیرجانب دارانہ رویئے کی ضرورت کو بہت سے لوگوں سے محسوس کیا، مثال کے طور پر سول اسپتال کے ایم ایس کاکہنا تھا کہ ایمرجنسی کا راستہ تو کھلا تھا اور خاص طور پر کھلا رکھا گیا تھا کہ مریضوں کو تکلیف نہ ہو، بلاول بھٹو جس ٹراما سینٹر کے افتتاح کے لیے آئے تھے، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ایمرجنسی میں مریضوں کو مشکلات نہ ہوں، کسی بھی ایسے مؤقف کی تصدیق کی بھی زحمت نہیں کی گئی
میڈیا نے وہ کردار ادا کیا جو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سمیت پیپلزپارٹی کی کسی بھی حریف جماعت کو ادا کرنا چاہیے تھا، میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ رویہ خود پاکستانی میڈیا کے مفاد میں نہیں ہے کہ عوام تودوسری جماعتوں کی طرح پیپلزپارٹی کے بھی ساتھ ہے، اس طرح کے رویوں سے عوام میں میڈیا کااعتماد ختم ہوتا ہے
میڈیا سے زیادہ ذمہ دار رویئے کا مظاہرہ بسمہ کے جیالے والد فیصل بلوچ نے اختیار کیا اور انتہائی دکھ کی کیفیت میں ہونے کے باوجود سب سے درخواست کی کہ معاملے کو سیاسی رخ نہ دیں
27برس کے نوجوان بلاول بھٹو جس نے ابھی سیاست میں چلنا شروع کیا ہے، اس طرح کے واقعات ان کے لیے ایک بڑاسبق ہیں، پشاور میں 143بچے مرجائیں اور ماں باپ سرکاری تقریبات میں گھس گھس کردہائیاں دیں، عمرا ن خان اور نوازشریف سے کوئی سوال نہیں پوچھے گا مگر بلاول بھٹو ۔۔ آپ کی ہرسانس اس عوام کے لیے گروی ہے، آپ جواب دہ ہیں، آپ لیاری کے اس جیالے کو جواب دہ ہیں، جس کی بیٹی آج مرگئی۔۔ اپنی غلطی کا حتی الامکان ازالہ کریں