طالبان اور لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے تکفیری خوارج سے جنگ میں زخمی اور معذور ہونے والے فوجی غازیوں کی جرات کو سلام
پاکستان کی فوج اپنی ہی سرحدوں میں چھپے دشمن کے خلاف جنگ کی جو قیمت ادا کر رہی ہے اس کی واضح تصویر آرمڈ فورسز انسیٹیٹوٹ فار ری ہیبیلٹیشن میڈیسن میں دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ ہپستال ملک میں مصنوعی اعضا کا سب سے بڑا اور جدید مرکز ہے جہاں خاص طور پر محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے فوجیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہسپتال میں سینکڑوں ایسے فوجیوں کا علاج ہو رہا ہے جو اس جنگ میں معذور ہو چکے ہیں اور ان میں قابلِ ذکر تعداد آپریشن ضربِ عضب میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی بھی ہے۔
یہ آپریشن گذشتہ برس جون میں شروع ہوا تاہم 16 دسمبر سنہ 2104 کو پشاور کے آرمی سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ملک میں موجود مسلح گروہوں اور شدت پسندوں کے خلاف اس آپریشن کو تیز کر دیا گیا۔
اس آپریشن میں اب تک 450 فوجی ہلاک جبکہ 1700 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں اور محمد یاسر بھی انھی میں سے ایک ہیں۔
یاسر پاکستان فوج میں لانس نائیک ہیں وہ ستمبر میں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں ایک پہاڑی دشمن سے خالی کرواتے ہوئے زخمی ہوئے۔
وہ ایک وارڈ میں اس حالت میں اپنی نئی مصنوعی ٹانگ سے چلنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے کہ انھیں دو مددگاروں نے تھام رکھا تھا۔
ان کی ٹانگ گھٹنے سے اوپر تک کاٹی جا چکی ہے اور سٹیل کی بنی ہوئی اس ٹانگ پر وہ بوجھ ڈالتے تو ہیں لیکن پوری طرح نہیں۔
اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دشمن نے آئی ای ڈی لگائی ہوئی تھی اور پہاڑی پر مورچے بنا رکھے تھے۔ جوں جوں ہم پیش قدمی کررہے تھے ان کی فائرنگ تیز ہو رہی تھی۔ آمنے سامنے مقابلہ ہو رہا تھا۔ میرا پاؤں آئی ای ڈی پر آیا اور دھماکہ ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں ’جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنی ٹانگ کی طرف دیکھا۔ میرے ساتھ نائب صوبیدار تھا اس نے مجھے بتایا کہ تمہاری ٹانگ کٹ چکی ہے۔‘
یہ کہہ کر یاسر اپنی نئی مصنوعی ٹانگ کی طرف غور سے دیکھنے لگے اور پھر مسکرا کر کہا ’شکر ہے اس مالک کا۔ کیا ہوا اگر ٹانگ کٹ گئی ہے۔ کٹی تو اللہ کی راہ میں ہی ہے۔‘
سنہ 2003 سے پاک افغان سرحد کے قریب شدت پسندوں سے لڑتے ہوئے جہاں ہزاروں پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے ہیں وہیں یاسر جیسے سینکڑوں ایسے ہیں جن کے اعضا ضائع ہو چکے ہیں۔
آرمڈ فورسز انسٹیوٹ آف ری ہیبیلٹیشن میڈیسن کے قریب ہی راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ پر کیپٹن جمیشد انور اپنی یونٹ کے جوانوں سے سلامی لیتے ہوئے ملے۔
ہشاش بشاش کپٹین کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔ جمشید انور جنوبی وزیرستان میں پاک افغان سرحد کے قریب انگور اڈہ کے علاقے میں پاکستانی طالبان کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوئے تھے۔
جمشید نے بتایا ’اس وقت میری منگنی ہوئی تھی۔ مجھے اپنی منگیتر کا خیال آیا کہ معلوم نہیں میں اب کھڑا ہو سکوں گا یا نہیں۔ مجھے اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن پھر ہسپتال میں اپنے اردگرد دیکھا۔ حوصلہ کیا۔ آج وہ سب کچھ کر رہا ہوں جو عام لوگ کرتے ہیں۔‘
بظاہر تو کیپٹن جمشید کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن اب وہ ایک عام فوجی کی طرح اگلے محاذ پر جنگ نہیں لڑ سکتے۔
’فوج کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اگلے محاذ پر لڑنا اہم ہے۔ اب میں لڑائی میں براہ راست تو شریک نہیں لیکن پیچھے بیٹھ کر ایک دوسرے رخ سے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔‘
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اتنے فوجی جنگوں میں ہلاک یا معذور نہیں ہوئے جتنے حالیہ برسوں میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ملک میں اس دشمن کو اتنے طویل عرصے تک کھلے عام پنپنے کا موقع کیسے ملا۔
تاہم ہسپتال کے کمانڈانٹ میجر جنرل طاہر مختار سید کا ماننا ہے کہ معذور ہونے کے باوجود ان فوجیوں میں سرحدوں کے اندر جاری اس لڑائی سے متعلق کوئی شکوک وشبہات موجود نہیں۔
’ان فوجیوں کو معلوم ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں ان کے اپنے ساتھی، اپنے بچے شہید ہوئے ہیں۔ وہ اسے اپنی جنگ سمجھتے ہیں انھیں کوئی شک نہیں کہ وہ کیوں لڑ رہے ہیں۔‘
آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے 18 ماہ ہو چکے ہیں۔ یہ کب تک جاری رہے گا اور مزید کتنے فوجی یہاں اپنے اعضا کاٹے جانے کے بعد علاج کے لیے لائے جائیں گے اس کا جواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151210_army_amputation_rehab_rwa