Birth of the Pakistan Judiciary Party – Guest Post by Qais Anwar

کیا پانچویں سیاسی پارٹی ۔۔۔ پاکستان عدالت پارٹی وجود میں آ چکی ہے؟

اعلی عدالتوں کا پا کستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سے ایک کردار رہا ہے ۔ لیکن میڈیا کی طرح یہ کردار ہمیشہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے ایک حمایتی سے زیادہ نہیں بڑھ سکا۔ اس حمایت کا عوضانہ تو ججوں کے انتخاب کی صورت میں پیشگی کے طور پر ہی ادا کر دیا جاتا تھا۔لیکن چھوٹی چھوٹی نوازشات اور بعد از ملازمت دیگر عہدوں پر تقرری ایک اضافی اداءیگی ہوتی تھی۔ کبھی ایسٹبلشمنٹ کو کوءی سیاسی فیصلہ کرانا ہوتا تھا توججوں کو بلا کر فیصلہ کے نکات بتا دءیے جاتے تھے یا ان کو پیغام بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ سارا سلسلہ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ جسٹس افتخا ر چوہدری چیف جسٹس بن گءے۔ افتخار چوہدری کو کچھ چیزیں اپنے پیش رووں سے ممتاز کرتی تھیں:

۔۔وہ اپنےذاتی کاموں کو کسی کی مہربانی کی بجاءے اپنا حق سمجھتے تھے اور کام نہ ہونے پر متعلقہ لوگوں سے اظہار ناراضگی کرتے تھے

۔۔خود نماءی کے شوقین تھے اور اپنے لیے طے شدہ سے زیادہ پروٹوکول کا تقاضا کرتے تھے

۔۔کبھی کبھی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ طے شدہ معاملات کے خلاف فیصلے دے دیتے تھے

۔۔طاقت حاصل کرنے کے عمل میں سینیر سرکاری افسروں کو عدالت میں بلا کر جھاڑ پلا دیتے تھے۔
کچھ طے شدہ معاملات میں مختلف فیصلے دینے پر ایسٹبلشمنٹ ناراض ہو گءی اور نو مارچ دو ہزار سات کو انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایسٹبلشمنٹ کی اہم کھلاڑی پاکستان آرمی مندرجہ ذیل عوامل کی بنا پر واحد کھلاڑی بن کر اپنے چھوٹے حصہ داروں کو پہلے ہی ان کے حصے سے محروم کر چکی تھی:

۱۰فغان جنگ اور جنگ کے بعد کے حالات کے نتیجے میں آرمی کے امریکہ کے ساتھ تعلقات جرنیلوں کی زیادہ تعداد تک پھیل چکے تھے۔

۰نیوکلیاءی اثاثوں پر سے سویلینز کا علامتی کنٹرول بھی ختم ہو چکا تھا۔

۰آرمی ایک اہم صنعتی ادارے کا روپ دھار چکی تھی اس کے نتنیجے میں اس کے بین الاقوامی جنگی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بین القوامی صنعتی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات استوار ہو چکے تھے

۰غلام اسحاق اور روءیداد خان جیسے لوگوں کا دور ختم ہو چکا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا آرمی کے قومی تحفظ کے نظرءیے کے ساتھ اتفاق تھا اور آرمی ان کے نکتہ نظر کو سنتی اور اس پر عمل درامد بھی کرتی تھی۔

ایک ایسے وقت میں جب آرمی بیو رو کریسی کو ملازم بنا چکی تھی اس کے لیے ایک نا فرمان چیف جسٹس کی موجودگی ناقابل برداشت تھی۔ جیسے ہی افتخا ر چوہدری کو ہٹایا گیا انہوں نے اپنی شخصیت کے عین مطابق مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جس کا اسٹبلشمنٹ کی پرانی دشمن بے نظیر بھٹو انتظار کر رہی تھیں ۔ انہوں نے فورآ افتخار چوہدری کی حمایت میں پیپلز پارٹی کے وکلاء کو میدان میں اتار دیا۔ اور پھر چند ہی دنوں میں افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کو دیگر سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کی حمایت حاصل ہو گءی۔اس کے بعد افتخار چوہدری کی بحالی ؛ دوبارہ برطرفی؛ ایمرجنسی کا نفاز اور دوبارہ بحالی وہ واقعات ہیں جن سے سب لوگ بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سارے عمل میں مندرجہ ذیل واقعات نے اعلی عدالتوں کی موجودہ ساخت اور سوچ میں بنیادی کردار ادا کیا:

۰افتخار چوہدری کیس کی سماعت کے دوران اعتزاز احسن نے عدالت کے سامنے جذباتی اپیلیں کیں اور انہیں اسی طرح متحد ہونے کی ترغیب دی جیسے آرمی متحد ہے

۰شخصیت کے پیچھے متحد ہونے والے عوام نے افتخار چوہدری کو ایک نجات دہندہ کے طور پر تسلیم کیا

۰وہ تمام پارٹیاں جو الیکشن جیت کر کبھی حکومت میں نہیں آسکتی تھیں انہوں نے محسوس کیا کہ افتخار چوہدری کی بحالی ان کے ایجنڈہ میں مدد کر سکتی ہے۔ انہوں نے افتخار چوہدری کی بھرپور حمایت کی۔

۰آرمی کے ان تمام سابقہ افسران نے جو آرمی کے ضیا ءالحق کے طے کردہ کردار سے ہٹنے کے حامی نہں تھے انہوں نے اس تحریک کو پرویز مشرف سے جان چھڑانے کے موقع کے طور پر لیا اور اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔

۰میڈیا نے افتخار چوہدری کی تحریک کو بہت زیادہ اہمیت دی اور برے دنوں میں بھی اس تحریک کو زندہ رکھا

۰پرویز مشرف اور کیانی نے بے نظیر بھٹو سے منوایا کہ نءے انتظام میں افتخار چوہدری کو بحال نہیں کیا جاءے گا۔ آصف زرداری نے اسی سمجھوتے کی پاسداری کی۔ لیکن موقع آنے پر آرمی نے افتخار چوہدری کی بحالی کو زرداری کی بے توقیری کے لیے استعمال کیا اور ان کی بحالی کا کریڈٹ لے لیا

اوپر بیان کردہ صورتحال کے بعد وجود میں آنے والی اعلی عدلیہ کی سوچ کے نمایا ں خدوخال درج ذیل ہیں:

۰یہ اعلی عدلیہ افتخار چوہدری کے نام پر وجود میں آءی ہے ۔ نءے جج صرف اور صرف افتخار چوہدری کی مرضی سے منتخب ہوءے ہیں ۔ لہذا افتخار چوہدری اس اعلی عدلیہ کے ’سربراہ کنبہ’ ہیں ۔ سربراہ کنبہ کے بنیادی خیالات اور اس کی بتاءی گءی اخلاقیات سے رو گردانی عدلیہ میں نامناسب بات سمجھی جاتی ہے

۰اعلی عدلیہ کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت کے بل پر اگر اعلی عدلیہ سمجھے کہ عوام مساءل کا شکار ہیں تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی چاہیے۔

۰عدالتیں ملک میں سماجی تبدیلی لا سکتی ہیں اور انہیں اس کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیں ۔

۰کچھ حلقوں نے وکیلوں کی تحریک کا ساتھ دیا ان اچھے لوگوں کو ان کے سیاسی مساءل کے حل میں ترجیحی طور پر مدد دینے میں کوءی حرج نہیں

۰میڈیانے سچاءی کی تحریک کا ساتھ دیا۔ میڈیا معاشرے کی سوچوں کا آءینہ ہے۔ ججوں کو میڈیا کی سچاءی سننی چاہیے اور اس پر یقین کرنا چاہیے ۔

ہمیں بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سوچ کے مضمرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی عدلیہ کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں بہت کم لوگ نظر آتے ہیں جو کہ جسٹس داراب پٹیل کی طرح قانون کے دانش ور ہوں یا جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی طرح قانون کے بے لچک ماننے والے۔ اوسط درجے کی دانش اور معاشرتی ساءینس کا سطحی علم رکھنے والے اس گروہ میں سے بہت کم لوگ ہمیں علمی سطح پر راہنما یانہ کردار میں نظر آتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد بہت سے ریٹاءرڈ ججوں کی دانش کے درجے ناظرین پر منکشف وءے ہیں ۔اس گروہ نے افتخار چوہدری کے کیس میں ایک بہت ہی خطرناک مثال قاءم کی ہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی سماعت کرنے والے بنچ نے افتخار چوہدری کو کام سے روکنے اور ان کے خلاف ریفرنس کو ایک دوسرے سے جوڑ کر سپریم جوڈیشل کونسل کے عمل کو روک دیا اور یوں افتخا ر چوہدری کو ناقابل محاسبہ بنا دیا ۔اسی طرح این آر او کے کیس میں وہ باتیں جنہیں میڈیا اچھال رہا تھا بڑے تواتر کے ساتھ عدالت میں دہراءی گءیں ۔ اس کی ایک مثال سوءٹزر لینڈ سے کیس کے کاغذات کی واپسی ہے۔

اب اگر ایک ایسے گروہ کو جو انتخاب کے عمل کے ذریعے عوام کو جواب دہ نہیں ہے لیکن خود کو عوام کا نماءیندہ سمجھتا ہو؛ اس کا احتساب پارلیمنٹ نہ کر سکتی ہو اور وہ اپنا احتساب بھی خود ہی کرے ؛ اس کے ارکان معا شرتی تغیرات خصوصآ صنعتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے تغیرات سے بے بہرہ ہوں ؛ اور اوسط درجے کی دانش رکھتے ہوں اگر ریاست کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاءے تو وہ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟

اب ہم اپنے اصل سوال کی طرف آتے ہیں کیا عدلیہ پانچویں سیاسی پارٹی بن رہی ہے؟ این آر او پر حالیہ فیصلے سے یہ بات بڑے واضح طور پر سامنے آءی ہے کہ اعلی عدلیہ اپنے طے شدہ کردار سے باہر نکل رہی ہے۔ یوں اداروں کے درمیان تعلقات میں اپنے طے شدہ کردار سے زیادہ حصہ مانگ رہی ہے۔ اس کا واضح مقصد ہے کہ عدلیہ پاکستان آرمی پارٹی کی طرح ایک سیاسی جماعت کا روپ دھارنا چاہتی ہے۔ اس وقت عدلیہ کے پاس وہ عناصر موجود ہیں جو اسے سیاسی پارٹی بنا سکتے ہیں ۔ اس کے پاس افتخا ر چوہدری کی صورت میں لیڈر موجود ہے جس کے عدلیہ سے باہر پیروکار موجود ہیں ۔ عدلیہ اپنے لیڈر کی قیادت میں متحد ہے۔اسے میڈیا کی بھر پور تاءید حاصل ہے۔پاکستان آرمی پارٹی اس کے فیصلوں پر عمل درامد کے لیے تیار ہے جس کی مثال احمد مختار کو چین کے دورے سے روکنا ہے۔ لیکن کیا یہ صورتحال مستقل ہے یا یہ کوءی عارضی انتظام ہے؟ کیا عدلیہ پا کستان آرمی پارٹی کی طرح ایک مستقل سیاسی پارٹی بن سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے میں ہمیں ایک نظر پہلی چار سیاسی پارٹیوں پر ڈالنا ہوگی۔

پاکستان آرمی پارٹی : یہ پارٹی پاکستان بننے کے بعد اس وقت ہی وجود میں آگءی تھی جب بریگیڈیر ایوب خان نے اپنے سیاسی عزاءم کا اظہار کیا تھا اوراس وقت کی سیاسی قیادت نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد اس سیاسی جماعت نے ملکی قیادت سنبھال لی؛سول سیاسی قیادت کو مختلف طریقوں سے کمزور کرکے اس پارٹی نے ان کو اپنا تابع کر لیا اور آج تک ملک پر حکمران ہے۔ یہ سیاسی جماعت اپنے فیصلے کور کمانڈرز کے اجلاس میں کرتی ہے اور ان فیصلوں پر سختی سے عمل درامد کراتی ہے۔ اس جماعت نے بندوق کے زور پر سیاسی قیادت حاصل کی اور سیاسی قیادت کے ذریعے بہت بڑے بڑے صنعتی گروہ تشکیل دءیے۔سرد جنگ کے زمانے سے ہی اس پارٹی نے امریکی جنگی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے جو آج تک قاءم ہیں ۔ اس پارٹی کے بہت سے ذیلی گروہ ہیں جو مزہبی ؛ لسانی اور دوسری بنیادوں پر اپنے پیروکاروں کا حلقہ تشکیل دیتے ہیں ۔سرد جنگ کے دنوں میں اس پارٹی کے قومی تحفظ کے نطریے میں بنیادی دشمن سوویت یونین اور بھارت تھا۔ اب صرف بھارت ہے۔پاکستان میں جب بھی کوءی اور سیاسی پارٹی مضبوط ہوتی ہے تو یہ سیاسی پارٹی اپنے ذیلی گروہوں کے ذریعے اس کو کمزور کر دیتی ہے۔جب بھی بین الاقوامی حالات ساتھ دیں یہ پارٹی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے۔ افغان جنگ کے دوران اس پارٹی کے ارکان نے ادارے سے ہٹ کر براہ راست بہت پیسہ کمایا۔ ناین الیون کے بعد یہ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گءی ۔ پہلا حصہ وہ تھا جو جنرل مشرف کی قیادت میں عملا طالبان کے خلاف کارواءی نہ کرتے ہوءے سیاسی طور پر امریکہ کا ساتھی بننا چاہتا تھا۔ اس حصے میں حاضر سروس اعلی قیادت شامل تھی۔ دوسرے حصے میں ریٹاءرڈ اعلی افسران اور نچلے درجے کے حاضر افسران پر مشتمل وہ طبقہ تھا جو طالبان کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔ حالیہ دنوں تک اس گروہ نے طالبان کی مدد جاری رکھی۔ اس طرح اب پاکستان آرمی پارٹی دو گروہوں میں تقسیم ہے ۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ اور پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ۔دو ہزار سات میں جو حا لات بنے وہ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے عدلیہ کا طلب کردہ مقام نہ دینے کی وجہ سے تھے ۔ پاکستان آرمی پارٹی کسی بھی ادارے کو برابر کے حصہ دار کے طور پر برداشت نہیں کر سکتی ۔ ایک آزاد عدلیہ کسی بھی وقت اس پارٹی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ؛ جاءیداد کے کاروبار میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر کوءی کارواءی کر سکتی ہے ۔ ایک آزاد عدلیہ کسی بھی طرح اس پارٹی کے لیے قابل برداشت نہیں ۔ پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق عدلیہ کی حمایت اس حد تک کرتی ہے کہ دہشت گرد رہا ہو جاءیں ۔ ایک آزاد عدلیہ جو دہشت گردوں سے نہ ڈرے اور انکے خلاف کارواءی کرے کسی بھی طرح اس پارٹی کو قبول نہیں ۔

پاکستان پیلپز پارٹی: سابقہ مغربی پاکستان اور اب پاکستان میں یہ وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے پہلی بار کامیابی کے ساتھ پاکستان آرمی پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو چیلنج کیا۔ اپنے قیام کے بعد اس پارٹی نے پاکستان آرمی پارٹی کی حکومت ختم کی۔ ملاوں؛ تھانے کے دلالوں ؛ بی ڈی ممبران؛ آڑھتیوں اور شہری متوسط طبقے پر مشتمل پاکستان آرمی پارٹی کے اتحادیوں کے مقابلے میں اس پارٹی نے ما و نواز باءیں بازو کے سٹڈی سرکلز سے سیاست سیکھنے والے طالب علموں اور سیاسی کارکنوں؛ روشن خیال شہری متوسط طبقے؛ مزدور راہنماءوں؛اقلیتوں؛ اور بے روزگار نوجوانوں پر مشتمل ایک کاڈر تشکیل دیا جو بعد میں ’جیالا’ کہلایا۔ اس کاڈر نے بہت تھوڑے عرصے میں سوشلزم کے نام اور قومی تحفظ کے ایک بظاہر جذباتی اور متبادل نعرے کے ذریعے پاکستان آرمی پارٹی کے قومی تحفط کے نطریے کے علم برداروں کو گلی گلی میں شکست دے دی۔اس کاڈر کی قیادت حکومت سے باہر جاگیردار؛ باءیں بازو کے چند لیڈر حتی کہ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ افرادپر مشتمل ایک وسیع الخیال گروہ کر رہا تھا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے باءیں بازو کو توڑ کر اور سوشلزم کا مبہم نعرہ لگا کر بظاہر انقلابی سوچ کو نقصان پہنچا یا اور پاکستان آرمی پارٹی کے عالمی اتحادیوں کے کام کو تقویت پہنچاءی لیکن پاکستان آرمی پارٹی کسی بھی آزاد گروہ کو اقتدار میں حصہ دینے کے حق میں نہیں تھی۔پہلی بار پیپلز پارٹی کو اقتدار میں اس وقت حصہ دیا گیا جب پاکستان آرمی پارٹی مشرقی پاکستان میں جنگ ہار کر اپنی ساکھ بری طرح کھو چکی تھی اور اسی پارٹی کے چند لوگوں نے پستول کی نالی پر یحیی خان سے استعفی لے لیا اور حکومت بھٹو کو سونپ دی۔دوسری بار پیپلز پارٹی کو اس وقت حکومت دی گءی جب ضیا ءالحق مارے گءے ؛ آءی جے آءی کی صورت میں پاکستان آرمی پارٹی کے پیسے نے پورا کام نہیں کیا اور مجبورآ حکومت دینی پڑی۔تیسری بار اپنے ہی ایک ذیلی گروہ سے معاملات اس حد تک بڑھ گءے کہ حکومت پیپلز پارٹی کو دینے کے علاوہ کوءی چارہ نہ تھا ۔ چوتھی بار بھر حکومت اس وقت دی گءی جب مشرف کے لیے اقتدار کو قاءم رکھنا ناممکن تھا۔چونکہ پیلپز پارٹی کو حکومت مجبورآ دی جاتی ہے ۔ اس لیے جیسے ہی پاکستان آرمی پارٹی اپنی ساکھ بحال کرتی ہے پیپلز پارٹی کو چلتا کرنے کی تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔ عدلیہ نے ہر بار اس عمل میں اہم کردار ادا کیا۔جتنی دیر عدلیہ نے پاکستان آرمی پارٹی کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کیا اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان پیپلز پارٹی نے اٹھا یا ۔ آزاد عدلیہ پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ تاہم پیپلز پارٹی کے عدلیہ کے ساتھ دونکات پر اختلافات ہیں ۔ موجودہ عدلیہ پیپلز پارٹی کو ماضی کے بھنور سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہے ایک مختلف روپ میں ماضی والا کردار ہی دہرا رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کی انتظامیہ کے امور میں مداخلت میں پیپلز پارٹی کے لیے مساءل پیدا کر رہی ہے جو کہ پیپلز پارٹی کو قبول نہیں ہو گا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز : پاکستان مسلم لیگ نواز مسلم لیگ کی صورت میں پاکستان آرمی پارٹی کا ذیلی گروہ تھی۔ اس گروہ کے لیڈروں کا تعلق ملک کے طاقت ور ترین صوبےسے تھا۔ جب پیپلز پارٹی سے نجات کے لیے اس گروہ کو دو تہاءی اکثریت دلاءی گءی تو یہ ذیلی گروہ ایک آزاد سیاسی پارٹی کی حیثیت اختیار کر گیا۔اس سیاسی پارٹی نے چیف آف آرمی سٹاف سے استعفی لے کر پہلی بار براہ راست پاکستان آرمی پارٹی کو چیلنج کیا۔ تاہم دوسری بار چیف آف آرمی سٹاف کو ہٹانے پر اس پارٹی کی حکومت ختم کر دی گءی۔ اس پارٹی کے حامی ابتداءی طور پر وہ لوگ تھے جو ہر اس پارٹی کے ساتھ ہوتے تھے جو پیپلز پارٹی کی دشمن ہوتی تھی ۔ لیکن اب یہ پارٹی ’متوالوں’ کا ایسا کاڈر تشکیل دے چکی ہے جو اب اس پارٹی کا کاڈر ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کا اس وقت عدلیہ کے ساتھ کوءی مسءلہ نہیں لیکن حکومت ملنے کے بعد لمبے عرصے میں مسلم لیگ نواز شریف کو عدلیہ کی انتظامیہ میں مداخلت کسی بھی صورت میں گوارا نہیں ہوگی۔

اس وقت عدلیہ کے سامنے تین راستے ہیں

۰دوبارہ پاکستان آرمی پارٹی کا زیلی گروہ بن جاءے

۰ایک آزاد عدلیہ کا روپ دھار لے ؛ ماضی کی باتوں کو چھوڑ دے اور انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے

۰پاکستان آرمی پارٹی کی طرح ایک سیاسی پارٹی کا روپ دھار لے

دیکھا جاءے تو ایک آزاد عدلیہ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف کے لیے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ لمبے عرصے میں آزاد عدلیہ پاکستان آرمی پارٹی کے دونوں گروہوں کے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ۔اب اگر عدلیہ ایک پانچویں سیاسی قوت بننے کی کوشش کرتی ہے تو وہ ملک کی چاربڑی سیاسی قوتوں کو کسی صورت میں قبول نہیں ہو گی۔ میڈیا اور پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی سے ناراض چھوٹی پارٹیاں اسے حمایت فراہم کر سکتے ہیں لیکن یہ حمایت اسے سیاسی قوت نہیں بنا سکتی۔ یہ واضح ہے کہ اس وقت آصف زرداری کو کمزور کرنا پاکستان آرمی پارٹی کے دونوں گروہوں کی ضرورت ہے۔ آصف زرداری کو الجھاءے رکھنا اور دباءو بڑھانا پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کے حالیہ فیصلے کی ان پارٹیوں کے نماءندوں اور ذیلی گروہوں کی طرف سے تحسین کی گءی ہے۔لیکن یہ حمایت اس وقت ختم ہو جاءے گی جب آصف زرداری پر دباو بڑھانا مقصد نہیں رہے گا۔ اس صورت میں عدلیہ اپنے ایک فطری اتحادی پیپلز پارٹی سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جب کہ عدلیہ کے ایک سیاسی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے خلاف دیگر چار پارٹیاں متحد ہوں گی۔ اس وقت عدلیہ کے مفاد میں ہے کہ سیاسی عزایم ختم کرکے ایک ادارے کے کردار میں واپس آجاءے۔ اگر عدلیہ کا مقصد ہو کہ وہ پاکستان آرمی پارٹی کے زیلی گروہ کا کام نہیں کرے گی اور ایک آزاد ادارے کے کردار کی طرف بڑھے گی۔ تاہم موجودہ صورتحال ہے کہ تین سیاسی پارٹیاں عدلیہ کو ہلہ شیری دے رہی ہیں کہ وہ ملک کی پانچویں سیاسی پارٹی ہے اور وہ پیپلز پارٹی سے ٹکرا جاءے ۔ اس ٹکراو کا پہلا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سندھی سیاسی قیادت اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدلیہ کو شدید تنقید کا نتنیجہ بنایا ہے۔ اب اگر عدلیہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان آرمی پارٹی کے خلاف اسی طرح کی خلاف کارواءی نہیں کرتی تو یہ تنقید بڑھے گی۔ اگر ان کے خلاف بھی کارواءی ہوتی ہے تو معاملات خرابی کی طرف بڑھیں گے۔ اس کا منطقی نتیجہ سجاد حسین شاہ کا انجام یا پاکستان آرمی پارٹی کا حالات کے سدھار کے لیے آگے آنا ہو گا۔ یہ دونوں انجام الم ناک ہیں۔ اس وقت اعلی عدلیہ کا موڈ بتاتا ہے کہ وہ زرداری حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ پاکستان آرمی پارٹی ان کو ہلہ شیری دیتی رہے گی۔

اور ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Nawaz
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. Sarah Khan
    -
  6. Abdul Nishapuri
    -
  7. akhtar
    -
  8. asif
    -
  9. Aliarqam
    -
  10. fareed
    -
  11. Aamir Mughal
    -
  12. faraz
    -
  13. Abdul Nishapuri
    -
  14. Abdul Nishapuri
    -
  15. Abdul Nishapuri
    -