کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کی ویب سائٹ انکشاف کے بانی رعایت اللہ فاروقی دیوبندی کے مضمون کی تضمین – ازعبد الباسط
اسامہ، میں اور جنگ کی حدت
(رعایت فاروغی)
آج انکشاف ٹی وی پر اپنی اسامہ بن لادن سے ملاقاتوں کے حوالے سے یہ چند الفاظ تحریر کیے
“لوگوں کے لئے اسامہ بن لادن ایک ایسا کردار ہے جس کی انہوں نے فقط تصویر یا ویڈیو دیکھ رکھی ہے۔ میرا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ہی ان کی خواہش پر ہوئیں۔”
بس ہر طرف سے فرمائشوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔
انہوں نے کیا خواہش کی؟کیوں کی؟کب کی؟کیسے کی؟ملاقات کیسے ہوئی؟وغیرہ وغیرہ۔
تو میں نے سوچا کہ آپکو سسپنس میں نہ رکھوں پورا واقعہ لکھ ہی دوں۔
تو واقعہ یوں ہے کہ
یہ 1996 کی بات ہے میں ان دنوں روزنامہ پاکستان میں کالم لکھا کرتا تھا۔ایک دن گھر کے دروازے پر دستک ہوئی،آکر کھولا تو وہاں کوئی نہ تھا،میں پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا کہ ایک مڑی تڑی کاغذ کی پرچی پر نظر پڑی۔اٹھا کر پڑھا تو حیرت کے سمندرمیں ڈوبتا چلا گیا۔
“السلام علیکم
فقیر سوڈان سے مسافت بعیدہ قطع کرکےملاقات اور رہنمائی حاصل کرنے کےلئےافغانستان حاضر ہوا ہے۔حق تو یہ تھا کہ پاکستان آتا اور خود ملاقات کیلئے دردولت پرحاضری دیتا لیکن حالات موافق نہیں اسلئے آپکو تکلیف دے رہا ہوں۔آپکی مصروفیات کا احساس ہے لیکن اخلاق کریمانہ سے امیدوار ہوں کہ مایوس نہ فرمائیں گے۔اگر نہ آسکتےہوں تو تین دن کے اندر مطلع فرمادیں تاکہ فقیر واپس سوڈان چلاجائے آپ نہ ملے تو یہاں رہنا بےسود ہے۔
والسلام
اسامہ بن لادن
جلال آباد افغانستان”۔۔
رات بھرسوچتارہاکہ کیاکروں؟۔دل ودماغ میں شدید کشمکش رہی۔جائوں یا نہ جائوں؟۔وہ میری بات سن تو لیں گے کیا عمل بھی کریں گے؟۔اسی ادھیڑ بن میں جانےکا فیصلہ کرلیا اور ایک پرچی پر لکھ مقررہ جگہ ڈال دیا۔
تین دن بعد میں اسامہ بن لادن کے پاس پہنچ گیا۔(سفر کی تفصیلات اس لئے افشاء نہیں کررہا کہ مجھ سے بہت سے بڑےلوگوں کو ایسے کام پڑتے رہتے ہیں۔کل کلاں کوئی اور بلائے اور میں سفر کا راز آپکے سامنے کھول کر پہنچنے کے قابل نہ رہوں۔)۔
اسامہ بہت محبت سے ملے۔بھرپور انداز میں شکریہ ادا کیا،پرتکلف ضیافت کھلائی۔میں “منی بیگم”کی غزلوں کی دس کیسٹیں احتیاطا ساتھ لےگیا کہ ممکن ہے وہ بھی میرے “استادوں”کی طرح انکے شوقین ہوں اور کیسٹیں نہ ہونے کی وجہ سے بات چیت سے انکار کردیں جیسے میرے اساتذہ کیسٹیں نہ ہونے کی صورت میں میری اس گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کردیتے تھے جو انکی شہادت تک میرے پاس تھی ہی نہیں۔لیکن انہوں نے معذرت کرلی کہ انہیں ایسا کوئی شوق نہیں۔مجھے بہت تعجب ہوا کہ جو آدمی منی بیگم کو نہیں سنتا اسے مجھ سے کام کیسے پڑگیا؟۔بہرحال میں نے اپنی حیرانی پر قابو پایا اور بات شروع کی۔
فرمائیے کیسے یاد کیا؟میں آپکی کیا مدد کرسکتا ہوں؟۔بات اختصار کےساتھ کیجئے گا وقت کم ہے۔
وہ بولے:
“میں دراصل امریکہ کے خلاف جنگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔اسباب،وسائل،افراد،پلاننگ سب موجود ہے بس ایک چیز کی کمی ہے جو صرف آپکے پاس دستیاب ہے۔وہ مل جائے تو سمجھئے کل سے کام شروع۔””
وہ کیا چیز ہے جو صرف میرے پاس ہے؟؟۔۔
مجھے دل ہی دل میں ہنسی توبہت آرہی تھی مگرکمال ضبط سے کام لیا اوربمشکل اسےنیچے روک کر سوال اوپر لایا۔
انہوں نے کہا:
“جنگ کی حدت ایک حدتک رہے تو مفیدنتائج حاصل ہوتے ہیں اگر اس سے بڑھ جائے تونقصان ہوتا ہے۔دنیا بھرکےعسکری ماہرین میرے پاس ہیں،کئی ممالک کے حاضرسروس فوجی آفیسرزاٹھالایا ہوں،کروڑوں ڈالرخرچ کردئے ہیں لیکن حدت ماپنے کا وہ پیمانہ ہاتھ نہیں آیا۔اب آپکو جاننے والے ایک دوست نے یہ راز افشاء کیا ہے کہ وہ آپکے پاس ہے۔خدارا وہ دے دیجئے تاکہ میں اپنا کام شروع کروں”
آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے انکا لہجہ لجاجت سے بھرپور ہو گیا۔
میں نے کہا:
اے شیخ باکمال!آپنے مجھ سے وہ مانگ لیا جو دینے کا قلب کو یارانہیں مگر آپکو انکار بھی گوارا نہیں۔جنرل حمیدگل کو آپ جانتے ہونگے دس سال ہوگئے ہرطرح کی کوشش کرکہ وہ مجھ سے یہ متاع بے بہا نہ لے سکے۔وہ ایک تھرمامیٹرتھا جو میں نےبڑی محنت سے بنایا تھا اور اسے راز رکھا۔مگر راز افشاء ہوا تو ہرطرف سے دنیا ٹوٹ پڑی۔ہر طرح کی ترغیب وترہیب بروئےکارلاکرچاہتے تھے کہ وہ تھرمامیٹرحاصل کریں۔اکیلی جان کس کس سے لڑتی۔کس طرح دنیا بھر سے بچاتی۔حفاظت کی کوئی اورصورت سمجھ نہ آئی تو اسے نگل لیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
اب وہ آلہ تو نہ رہا مگر اسے نگلنے کی وجہ سے میرے مزاج میں یہ خاصیت پیدا ہوگئی ہے کہ جنگ کی حدت محسوس کرکہ بتا دیتا ہوں کہ مفید حد میں ہے یا حدنقصان کو چھونے لگی ہے۔
اسامہ کی آنکھوں میں مایوسی کی لہر دوڑگئی اور بولے۔
کیا میں مایوس ہوجائوں؟۔
نہیں شیخ!آپ ہرگزمایوس نہ ہوں بلکہ جنگ شروع کردیجئے اور ہرکاروائی کے بعد میرا موڈ دیکھ لیا کیجئے۔اگر ٹھیک ہوتو سمجھئے حدت قابو میں ہے اور اگر رنگ سیاہ سے برائون ہونے لگے تو جان لیجئے حدت اوور ہوئی اسے قابو میں لائیے۔
شیخ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔انہوں نے میری پیشانی کو بوسہ دیا اور ایک بھاری سا لفافہ میری جیب میں ڈال دیا۔
میں پاکستان آگیا۔بعد میں اسامہ جتنے بھی لوگوں سے ملے میرے توسط سے ملے جو کہتا ہے کہ ذاتی تعلقات کی بناء پرملا وہ جھوٹا ہے میری زبان نہ کھلوائے۔ایک کمنٹ میں پائوں سے زمین کھینچ لونگا اور باز نہ آئے تو پوسٹ لگا کر سر سے آسمان بھی۔
بہرحال اس عہد وپیمان کے بعد اسامہ نے امریکہ کے خلاف جنگ شروع کردی۔آگے کا قصہ آج انکشاف ٹی وی پر لکھ چکا ہوں۔امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے تو میں خوش تھا وہ بہت کنٹرولڈ حدت میں تھے اور نائن الیون ہوا تو اسکی حدت جب میرے منہ پر ظاہر ہوئی اسی وقت شیخ اسامہ کو سمجھ آگیا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس بار حدت قابو کرلوں اور انہیں ایک چانس دوں لیکن میں نے معذرت کرلی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔اسامہ جنگلوں میں نکل گئے اور آگے جو کچھ ہوا وہ سب کو پتا ہے۔
فرانس پر ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد اب پھر وہی صورتحال ہے۔پہلے حدت کا اندازہ نہیں کیا گیا اب قابو سے باہر ہوئی تو مجھے کنٹرول کا کہا جا رہا ہے۔البغدادی ملنے کی خواہش ظاہرکررہا ہے لیکن اب کیا فائدہ۔اب تو وہی ہوگا جسکی پیشین گوئی میں نے آج کردی ہے۔۔
! ابھی زخم رسنے ہیں ! ابھی لاشیں گرنی ہیں
Posted by رعایت الله فاروقی Date: منگل, 17 نومبر, 20151543 Views
! ابھی زخم رسنے ہیں ! ابھی لاشیں گرنی ہیں
لوگوں کے لئے اسامہ بن لادن ایک ایسا کردار ہے جس کی انہوں نے فقط تصویر یا ویڈیو دیکھ رکھی ہے۔ میرا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ہی ان کی خواہش پر ہوئیں۔ پہلی ملاقات اکتوبر 1996ء میں ہوئی۔ تب میں روزنامہ پاکستان میں کالم نگار تھا۔ میں نے اس ملاقات کی روئیداد پر مشتمل دو کالم لکھے جن کے رد عمل میں امریکی سفارتخانے نے اخبار کے ایڈیٹر حامد میر کو احتجاجی خط لکھا جس میں تجویز دی گئی کہ یا تو رعایت اللہ فاروقی کو اخبار سے نکالا جائے یا پھر اسے دہشت گردوں کی حمایت سے روکا جائے۔ اس خط کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو رعایت اللہ فاروقی کو اخبار سے نکالا گیا اور نہ ہی امریکی دہشت گردی کے خلاف لکھنے سے منع کیا گیا بلکہ ہوا یہ کہ صرف تین ماہ بعد حامد میر میرے ساتھ جلال آباد پہنچے اور وہ مشہور زمانہ انٹرویو ہوا جس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن پاکستانی اخبارات کے اندرونی صفحات سے نکل کر صفحہ اول پر آگئے اور وہ بھی سنگل کالمی نہیں بلکہ لیڈ اور سپر لیڈ کی صورت۔ تب تک اسامہ بن لادن افغانستان میں بیٹھ کر سعودی سرزمین پر موجود امریکی اہداف کو نشانہ بنا رہے تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے پہلی بار سعودی سرزمین سے باہر افریقہ میں امریکی سفارتخانوں کو نشانہ بنایا اور پھر وہ وقت آیا کہ نائین الیون ہو گیا۔ مجھے یاد ہے افریقہ میں امریکی سفارتخانوں کو نشانہ بنانے پر میں خوش ہوا تھا لیکن نائین الیون نے مجھے پریشان کر ڈالا تھا کیونکہ جنگ میں “حدت کا توازن” بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر آپ ایک جھٹکے میں آنچ بڑھادیں تو اس کا نقصان دشمن سے زیادہ آپ کو ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے اسے بڑے پیمانے پر ہمدردی ہی میسر نہیں آجاتی بلکہ نہایت مہلک وار کا اخلاقی جواز بھی مل جاتا ہے۔ افغان جہاد اس کی بہترین مثال ہے جہاں آئی ایس آئی نے آنچ پر مکمل کنٹرول رکھا تھا اور اسے اس حد تک جانے نہیں دیا تھا کہ سوویت افواج کو پاکستان پر چڑھائی کا جواز مل سکے۔ یہ چھوٹے چھوٹے زخموں سے لاغر اور پھر پاگل کردینے والی جنگ تھی۔ جو کنٹرولڈ حدت کے ساتھ اس لئے لڑی جا سکی کہ اس کی اصل کمان ایسے پیشہ ور فوجی کمانڈروں کے پاس تھی جو جنگ اور بین الاقوامی سیاست دونوں کے رموز سے واقف تھے۔ اس کے برخلاف ایک پرائیویٹ عسکری تنظیم کو اس کا بالکل بھی شعور نہیں ہوتا۔ ان کے فیصلے جذبات اور معجزوں کے تصور کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ نائین الیون والی حماقت کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ لاکھوں مسلمان افغانستان اور عراق میں ملیامیٹ ہوگئے جن میں سے پچاس ہزار پاکستان میں بھی مارے گئے اور آج 2015ء میں ہم عراق اور افغانستان دونوں جگہ داعش جیسے بڑے فتنے کا سامنا کئے کھڑے ہیں جس نے نہ صرف القاعدہ کو بھی نشانے پر لیا بلکہ فرانس پر کئے گئے حملوں کی ذمہ داری بھی اسی نے قبول کی۔ جبکہ شام اور عراق میں وہ سفاکیت کا جو نیا عروج متعارف کرا رہی ہے وہ محتاج بیاں نہیں۔ میں دس برس کا عسکری پس منظر رکھنے والا کالم نگار آج یہ سوچ رہا ہوں کہ جب ملا عمر نے اپنے مہمان کو افغانستان سے نکالنے سے انکار کیا تھا تو وہ تو بلاشبہ افغان غیرت کا بھرپور مظاہرہ تھا، ملا عمر کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا لیکن جب اسامہ بن لادن نے افغانستان سے نہ نکل کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجوادی تھی وہ کیا تھا ؟ جب حملے کے بعد وہ افغانستان کا باڈر پار کرکے محفوظ پناہ گاہ تک چلے گئے تو حملے سے قبل بھی تو ایسا کیا جاسکتا تھا۔ اور اس کے لئے سینٹرل ایشیا میں کئی محفوظ روٹ دستیاب تھے جسے آج بھی سمگلر پوری کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اسامہ بن لادن کے نائین الیون کے نتیجے میں دو ممالک اور اس کے لاکھوں شہری تباہ کروا چکے اور اب داعش کے حملوں کے نتیجے میں ایک بار پھر مسلمانوں ہی کو لاکھوں کی تعداد میں خمیازہ بھگتنا ہے تو کیا یہ فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ نائین الیون یا پیرس حملے مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوئے یا نہایت تباہ کن ؟ مسلمانو ! تمہاری عقل کا تو اب ماتم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ تم بڑے فیصلہ کن سوالات کا سامنا کرنے کے بجائے اس سوال پر غور و فکر میں مصروف ہو کہ مارک زکربرگ کا متعارف کرایا ہوا فرانسیسی پرچم منہ پر ملنا درست ہوگا کہ نہیں ؟ تم آج بھی وہیں کھڑے ہو جہاں سقوط بغداد کے وقت کھڑے تھے کہ ہلاکو خان تمہاری تکہ بوٹی کرنے کے لئے تمہاری دہلیز پر آ کھڑا تھا اور تم اس سوال پر غور میں مصروف تھے کہ فرشتے مذکر ہوتے ہیں کہ مؤنث ؟ تم صلیبی پرچم اپنے چہروں پر ملو نہ ملو اس سے فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ صداقت یہ ہے کہ افق پر پھیلے رنگ پچھلے چھ سو سال سے اسی صلیب کے ہیں اور تمہارا چاند ستارہ اتنے ہی عرصے سے امتِ مسلمہ کے زوال کے ملبے پر پڑا سلگ رہا ہے۔ عروج علم سے ملتا ہے جو تمہارے پاس دین کا رہا اور نہ ہی دنیا کا تو پھر یہ غرور کس بات کا ؟ پدرمن سلطان بود کا ؟ ؟ ؟ تم سوچتے ہو کہ پیرس میں پھٹنے والے بم جو تباہی مچاسکتے تھے مچا چکے ؟ وہاں گرجنے والی گنیں جتنی جانیں لینا چاہتی تھیں لی چکیں ؟ اس حملے کے نتیجے میں بس فرانس کے 200 عیسائی مرنے تھے جو مرچکے ؟ نہیں ! ہرگز نہیں ! ابھی تباہی جاری ہے۔ تم بس گنتے جاؤ کیونکہ اسی حملے کے نتیجے میں ابھی زخم رسنے ہیں ! ابھی خون بہنا ہے ! ابھی لاشیں گرنی ہیں ! جو کسی اور کی نہیں تمہاری ہونگی ! !
http://inkishaf.tv/2015/11/17/1812/