امریکی خفیہ مراسلے : شام کیسے لہو رنگ ہوا – پہلا حصہ
ویکی لیکس نے 2010ء میں دو لاکھ اکیاون ہزار دو سو ستاسی کلاسی فائیڈ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تار کو ریلیز کرڈالا تھا اور اب ان کلاسی فائیڈ کیبلز کے بارے میں کئی ایک لکھاریوں کے تجزیاتی مضامین پر مشتمل ایک کتاب شایع ہوئی ہے اور اس کتاب کا دسواں باب کا عنوان ہے
WikiLeaks Revels How US Aggressively pursued regime change in Syria, igniting a bloodbath
اس کے مصنفوں میں ٹرتھ آؤٹ کے مستقل رپورٹر ڈھر جمیل ,مستقل لکھاری گیرتھ پورٹر ,رابرٹ نیمان , فلس بینز اور سٹیفن زیونز شامل ہیں امریکی صدر باراک اوبامہ نے 31 دسمبر , 2015ء میں اعلان کیا کہ وہ شامی حکومت کو اپنی عوام کے خلاف کیمائی ھتیاروں کے استعمال کرنے پر سزا دینے کے لیے فضائی حملے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ امریکی حملے حکومتی علاقوں تک محدود ہوں گے اور ان کا مقصد شامی حکومت کا تختہ الٹانا نہیں بلکہ شامی حکومت کو آئیندہ ایسے اقدامات سے روکنا ہے ,اوبامہ نے واضح کیا کہ اس اقدام کے زریعے سے وہ شام میں فرقہ وارانہ سول وار میں ملوث قوتوں کے درمیان توازن کو بدلنے کا خواہش مند نہیں ہے
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امریکی حکام اپنی خارجہ پالیسی کا چہرہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ اس چہرے سے مختلف ہوتا ہے جو ان کے پرائیوٹ خفیہ مراسلوں سے عیاں ہوتا ہے , وہ اپنی خارجہ پالیسی کے محرکات کو بہت مقدس بناکر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جبکہ ان کے خفیہ مراسلے تصویر کا الٹا ہی رخ ہوتے ہیں تو اگر عوام کے سامنے امریکی خفیہ سفارتی مراسلے آجائیں تو عوام کا امریکی خارجہ پالیسی بارے شعور بدل جائے گا اور اسی لئے ویکیلیکس نے امریکی خارجہ امور سے متعلق خفیہ تاروں کو عوام کے سامنے رکھ دیا امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے خفیہ مراسلے ایسی کھڑکی کھولتے ہیں جس کے اندر جھانک کر امریکی حکام کی خارجہ پالیسی کا وہ چہرہ دیکھا جاسکتا ہے جسے امریکی حکام عوام کے سامنے نہیں لاتے اور یہ چہرہ امریکی حکام کی حقیقی سٹریٹجی اور اس کے محرکات پر بھی روشنی ڈالتا ہے شام کے باب میں امریکی سفارتی مراسلے دکھاتے ہیں کہ شام کی حکومت تبدیلی کا ایجنڈا امریکی خارجہ پالیسی کا بہت عرصہ سے حصہ رہا ہے – امریکہ نے شامی حکومت کو بدلنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے شام میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے لیے کردار ادا کیا اور اس پالیسی نے شام میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سول وار کی بنیادیں استوار کیں اور اس نے آگے چل کر شام میں اس خون ریزی کی بنیاد رکھی جس کا مشاہدہ ساری دنیا کر رہی ہے, امریکہ میں بش انتظامیہ کے دور میں شامی حکومت کی تبدیلی اہم ترجیح تھی اور جب اوبامہ برسراقتدار آئے تو یہ پالیسی ان کے ایجنڈے میں سرفہرست رہی اور امریکہ کو شام میں انسانی حقوق سے زیادہ شام کے ایران کے ساتھ تعلقات کے سوال سے دلچسپی رہی ہے
تیرہ دسمبر 2006ء میں ایک امریکی سفارتی مراسلہ بعنوان ایس اے آر جی (شامی حکومت ) 2006ء کے آخر تک ملتا ہے جس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہار عرب شام کے تحت احتجاجات سے پانچ سال پہلے 2006ء ہی میں شامی حکومت کو غیر مستحکم کرنا امریکی پالیسی کا حصہ تھا , یہ مراسلہ دمشق میں امریکی سفارت خانے کا انچارج ولیم روئے بک نے ارسال کیا تھا اور یہ مراسلہ امریکہ کی جانب سے شام کی حکومت کو ھٹانے کے لئے اپنائی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے , روئے بک نے اپنے مراسلے کی سمری یوں لکھی
ہمیں بشار الاسد کے کمزور ہوتے چلے جانے کا پورا یقین ہے کیونکہ وہ حقیقی یا تصوراتی ایشوز پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دینے کا عادی ہے , بشار کو معاشی اصلاحات کے لیے دباؤ ہے تو دوسری طرف بدعنوان فورسز ہیں جو یہ نہیں چاہتے , پھر شام کے اندر دنیا بھر سے آنے والے اسلامی انتہاپسند شامی حکومت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں اور کرد تنازعہ بھی جڑ پکڑ رہا ہے ,ہمارا یہ مراسلہ شامی حکومت کو درپیش انہی خطرات کی وضاحت اور شامی حکومت کی کمزوریوں سے فائدے اٹھانے کے لیے اقدامات , بیانات وغیرہ کی تجاویز پر مشتمل ہیں
یہ مراسلہ بتاتا ہے کہ دسمبر 2006ء سے ہی امریکی حکام کسی بھی دستیاب زریعے سے شامی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے تھے اور اس حوالے وہ ہر وہ قدم اٹھانے کے حامی تھے جس سے شامی حکومت غیرمستحکم ہو اور ان کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ اس طرح کے اقدامات کے آگے چلکر کیا نتائج برآمد ہوں گے , عوام کے سامنے امریکی حکام یہ ظاہر کردہے تھے کہ وہ شام میں اقتصادی اصلاحات چاہتے تھے جبکہ سفارتی مراسلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقتصادی اصلاحات اور مخالفین کے درمیان تضاد سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور وہ اسے اپنے لیے ایک موقعہ خیال کررہے تھے , اسی طرح سے امریکہ عوام کے سامنے ہر جگہ اپنے آپ کو اسلامی انتہاپسندوں کامخالف ظاہر کرتا جبکہ شام میں وہ اسلامی انتہاپسندوں کے اجتماع کو اپنے لئے ایک موقعہ خیال کر رہا تھا کہ اسلامی انتہاپسندوں کی آمد سے شامی حکومت اور غیر مستحکم ہوگی اور امریکی مراسلہ امریکی حکومت کو اس اضافے کو اور بڑھانے کے لیے اقدام اٹھانے کا مشورہ بھی دیا گیا
روئے بک ایران اور شام کے باہمی تعلقات کو شامی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کے طور استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور تجویز کرتا ہے کہ ایرانی اثرات پر سنیوں میں جو خوف پایا جاتا ہے اس کو مزید بڑھانا چاہیے, شام میں سنی ایرانی مذھبی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہیں , ان میں یہ تاثر ہے کہ ایران ایک طرف تو شام کاروباری سرگرمیوں اور شیعہ مساجد کی تعمیر کررہا ہے تو وہ غریب سنیوں کو پیسے دیکر ان کا مذھب بھی بدل رہا ہے اور یہ شام میں سنی کمیونٹی کے اس خوف کا عکس ہے جو ان میں شام پر ایرانی اثرات کے بڑھنے سے سے پایا جارہا ہے اور وہ اس سے اپ سیٹ ہیں , یہاں پر سعودی عرب اور مصر کے مذھبی تبلیغی مشن موجود ہیں اور پھر شامی سنی مذھبی لیڈر بھی ہیں اور یہ اس ایشو کو بڑی توجہ دے رہے ہیں اور ہمیں ان کی حکومتوں سے کوآڑینشن کرنی چاہیے تاکہ اس ایشو کو زیادہ شہرت ملے اور علاقائی قوتیں اس پر زیادہ توجہ دیں
تو روئے بک کا مشورہ یہ ہے کہ امریکہ شامی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لیے مصر اور سعودی عرب سے زیادہ تعاون کرے تاکہ وہ سنی اور شیعہ میں تناؤ کو بڑھایا جاسکے اور سنیوں میں شیعہ کی تبلیغ کا خوف پیدا ہو ایران کے شام میں مذھبی اور معاشی سرگرمیوں کو مبالغہ آرائی سے بیان کیا جائے لیکن شام میں 2011ء میں خانہ جنگی کے سنی -شیعہ فرقہ وارانہ کردار کو ایک بدقسمت پیش رفت قرار بھی امریکہ نے دیا لیکن دسمبر 2006ء میں دمشق میں امریکی سفیر امریکی سیکرٹری سٹیٹ اور وائٹ ھاؤس کو خفیہ مراسلے میں امریکی حکومت کو شام میں شیعہ -سنی فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے لیے سعودی عرب اور مصر کی حکومتوں سے کوآڈینشن بڑھانے کا مشورہ دیتا ہے اور جب یہ مراسلہ لکھا گیا تو کیا کسی کو اس طرح کی پالیسی سے ممکنہ نتایج و عواقب کا ا ندزہ نہیں تھا ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب یہ مراسلہ لکھا گیا تو اس وقت عراق میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی عروج پر تھی اور امریکی افواج ناکامی کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کررہی تھیں
امریکی عوام عراق میں فرقہ واریت پر مبنی خانہ جنگی کو برداشت کررہے تھے جبکہ وہ عراق پر امریکی حملے سے ناراض ہوکر ریپبلکن کا کانگریس سے باہر کرچکے تھے اور 2006ء میں الیکشن میں شکست نے امریکی سیکرٹری سٹیٹ ڈونلڈ رمزفیلڈ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا تھا تو اس وقت جو بھی امریکہ کی خارجہ پالیسی پر کام کردہا تھا وہ شام میں سنّی ِشیعہ منافرت کو فروغ دینے کے نتائج و عواقب سے واقف ہوسکتا تھا اور بآسانی یہ اندازہ کیا جاسکتا لگایا جاسکتا تھا شام میں اس طرح کی پالیسی سے شامی حکومت ہی غیر مستحکم نہ ہوگی بلکہ اس سے شامی معاشرہ بھی تباہ ہوجائے گا یہ بھی زھن نشین رھنا چاہیے کہ روئے بک سینر امریکی سفارت کار تھا
اس نے بش انتظامیہ کے دور میں عراق اور لیبیا بھی خدمات سرانجام دی تھیں اور وہ امریکی محکمہ خارجہ میں دیگر اہم عہدوں پر بھی فائز رہا تھا اور پھر وہ اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے شام میں تعینات ہوا تھا اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ جب یہ مراسلہ امریکی حکام کو ملا تو کسی نے اس تجویز کے ممکنہ پیش آمدہ نتائج و عواقب پر بات کی ہو اور امریکی فارن پالیسی سے متعلقہ سرکاری حلقوں میں کوئی سیکنڈل بنا ہو تو آج جب مغرب کے اندر شام میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سول وار پر آہ و بکاء کی جارہی ہے تو یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ 2006ء میں امریکی وزرات خارجہ شام میں فرقہ وارایت کے پھیلاؤ کو ایک اچھا آئیڈیا خیال کرتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ اس سے شام میں شامی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے امریکی ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی
آج جب مغرب میں شام میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی پر ماتم کیا جارہا ہے تو اس پر یہ تبصرہ کرنا بالکل ٹھیک ہے کہ 2006ء میں امریکی حکومت کو یہ یقین تھا کہ شام میں ” فرقہ واریت کا پھیلاؤ ، سنّی آبادی میں شیعہ کا خوف بڑھانا اور کردوں کو عرب شامیوں سے لڑانا ایک اچھا آئیڈیا ہے اور اس سے شامی حکومت غیرمستحکم ہوگی اور اس سے امریکی مفاد بھی آگے بڑھے گا
Source:
بہت چشم کشا رپورٹ ہے