مفتی حمزہ علی عباسی کی فکری بدیانتی اور ہمارا قومی المیہ
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو پاکستان میں پائی جانے والی ایک عمومی نفسیاتی بیماری کی عکاسی کرتی ہے۔اِس بیماری کا شکار لوگ اپنے ضمیر کو نا گذیر وجوہات کی وجہ سے مظلوم اور مقتول کی بلا مشروط حمایت کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتے۔ ملاحظہ کیجے۔ موصوف کو جنداللہ نامی تکفیری دیوبندی تنظیم ایک شیعہ تنظیم نظر آتی ہے، جسے پاکستان میں داعش کی سب سے پہلے بیعت کرنے کا شرف حاصل ہے۔
اس بیماری کا شکار لوگ شیعوں پر ہونے والے ہر حملے کے بعد یا تو بوگس سعودی ایران پراکسی کا نعرہ لگاتے ہیں اور یا جھٹ سے لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے تقابل میں سپاہ محمد نامی ایک غیر فعال تنظیم کا بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ تاکہ معاملے کو دو طرفہ شیعہ سنی رنگ دے کر مقتول پر مزید ظلم کر سکیں۔ سب جانتے ہیں کہ سپاہِ محمد نامی تنظیم کو غیر فعال ہوئے ایک عرصہ ہو چکا اور نہ ہی اس تنظیم نے کبھی عام لوگوں، مساجد، مزارات وغیرہ پر حملے کیے، جو سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی، جنداللہ طالبان نامی تکفیری دیوبندی تنظیموں کا شعار ہے۔ یہ تنظیم سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے رد عمل میں بن تھی اور عرصہ دراز سے غیر فعال ہے۔
ہم مفتی حمزہ عباسی سے پوچھنا چاہیں گے کہ کس شیعہ یا شیعہ تنظیم نے کسی سنی کا کافر یا واجب القتل کہا؟ صرف سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی طالبان جنداللہ اور دیگر تکفیری دیوبندی جماعتیں وہ گروہ ہیں جو شیعوں کو کافر کہتی ہیں۔ نہ کوئی سنی شیعہ کو کافر کہتا ہے اور کوئی شیعہ کسی سنی کو۔ المیہ یہ ہے کہ ٹی وی فلم سے شہرت حاصل کرنے والے یہ غیر ذمہ دار لوگ سوشل میڈیا پر ایسے غیر ذمہ دارانہ تجزئے کر کے اپنے ہزاروں لاکھوں فالورز کو گمراہ کرتے ہیں۔
موصوف تو خیر سے تحریک انصاف نامی جماعت کی کارکن بھی ہیں، پھر بھی انصاف کی بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ موصوف کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جیکب آباد حملے میں شہید ہونے بچوں میں شیعہ اور سنی دونوں شامل ہیں جو جلوس عزاداری میں شریک تھے۔ اگر مفتی حمزہ عباسی اتنا ہی درد دل رکھتے ہیں تو ذرا سندھ بلوچستان میں لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے سرغناوں رمضان مینگل رفیق مینگل اور اُن کے سرپرست مفتی تقی عثمانی کے خلاف کچھ بول کر دکھائیں، جو اس قسم کے حملے کرتے ہیں۔ ورنہ اداکاری کریں، جو آپ کا کام ہے۔
مفتی حمزہ علی عباسی کو جونہی اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے اپنی پوسٹ کو ایڈٹ کر کے اُس میں سے جنداللہ نامی تکفیری تنظیم پر سے شیعوں کی حمایت الزام ہٹا دیا اور نوشیر وان عادل کو چیلنج کرتے ہوئے سپاہِ محمد کو ایک سُنی دشمن تنظیم قرار دے ڈالا۔ گمان ہے کہ ہماری اِس پوسٹ کے بعد شائد وہ سپاہِ محمد کے سنیوں پر کیئے گئے حملوں، مساجد، چرچ، مزار، بازار، سکول، دفاع تنصیبات پر حملوں، بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے اور کافر کافر سنی کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر کے نعروں کی تفصیلات ڈھونڈنے روانہ ہو جاینگے۔ ہمیں یقین ہے وہ انہیں کبھی نہیں ملیں گی۔
کیونکہ ہم نے پہلے ہی بتایا کہ ایک تو اس تنظیم کو غیر فعال ہوئے عرصہ ہوا اور نہ ہی اس نے کبھی اس قسم کی کاروائیاں کیں۔ یہ لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے رد عمل میں بنی اور اسے غیر فعال ہوئے عرصہ ہوا۔ دوسرا نہ کوئی شیعہ اور نہ کوئی سنی ایک دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ یہ صرف تکفیری دیوبندی تنظیموں کا کام ہے۔ ایک غیر فعال تنظیم کا نام لیکر تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے ہاتھوں معصوم شیعہ سنی عزاداروں کے قتل کو شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے مفتی حمزہ علی عباسی کو۔
مفتی ایک قابل احترام منصب ہے. ہر عیرے غیرے کے ساتھ نہ لگائیں.ان بدبختوں کو دین دنیا کا پتا نہیں اور کبھی ایک مسلک کو برا کہتے ہیں کبھی دوسرے کو. جب دین پہ بات کرنے کو نہ ملے تو نواز شریف کو گالیاں دے دیتے ہیں.