پپلز پارٹی پنجاب کے اُجڑنے کے بعد کا منظر – عمار کاظمی

ppp12079579_10203756192944912_5377321350518696958_n

کوئی سننے، سمجھنے والا ہوتا تو ہم اکیلے نہ ہوتےتحریک انصاف کی حقیقت محض اتنی سی ہے کہ اپر مڈل کلاس کی یوتھ نے لوور مڈل کلاس کی یوتھ کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سے نواز لیگ کی حیثیت بھی اتنی سی ہی ہے کہ سرمایہ دار نے دکاندار کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔ باقی جو بچی ہے وہ اب ویسے ہی حقیقت کا حصہ نہیں رہی۔ کُل ملا کر اگر پاکستان کے سیاسی کلچر اور حب الوطنی کی تعریف بیان کی جائے تو سیاسی جماعتوں نے غریب کو اور جرنیلوں نے سکیورٹی اسٹیٹ کے نام پر جونیر افسران اور جوانوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔ اگر آپ اس تعریف کو مزید مختصر کرنا چاہیں تو آپ مختصراً یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ “پاکستان کے ہر سیاسی اور سرکاری بڑے نے چھوٹے کو بے وقوف بنا رکھا ہے”۔

شہید محترمہ کا خواب تھا کہ پاکستان میں ٹو پارٹی سسٹم رائج ہو جائے۔ آج محترمہ کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے مگر افسوس اس میں پیپلز پارٹی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جو سوال وقت گزرنے کے ساتھ میرے ذہن میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا وہ یہ تھا کہ کیا پیپلز پارٹی واقعی کبھی لبرل سیکولر جماعت رہی ہے؟ اس سوال کے تناظر میں یہ بات بھی ہمیشہ بحث طلب ہی رہی کہ اسلامی سربراہ کانفرنس بلانے والی جماعت لبرل ازم کی دعویدار کیسے ہو سکتی ہے اور مذہب کو منشور کا حصہ بنانے والی جماعت لبرل کیسے ہو سکتی ہے؟
نوے پچانوے فیصد مسلم اکثریت کی ریاست میں “اسلام ہمارا دین ہے” لکھنے کی ضرورت بھی کیوں پیش آئی؟ کیا ہم اپنے اعمال اور ناموں کے لحاظ سے مسلم نہ تھے؟ کیا محض کلمہ گو ہونا مسلمان ہو نے کی بنیادی شرط نہ تھا؟ ہمارے ایک قابل دوست کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا کہ “اس وقت مقابلہ ” شوکت اسلام” سے تھا۔ اس وقت کے زہین منصوبہ ساز جنرل شیر علی نے عوامی لیگ اور بھٹو کو کافر قرار دلوانے کیلیۓ مذہبی جماعتوں، میڈیا اور فوجی دماغوں ۔ اختیارات کا اتحاد کرا کر انہیں کافر قرار دینے کی مہم چلا رکھی تھی”۔ تاہم میرے لیے یہ جواز اس لیے بھی ناکافی ہے کہ اس ایک جملے کی اضافت سے مذہب کو ریاستی امور میں مداخلت کے بیانیے میں ایک مقبول حیثیت ملی۔
مولوی یا اسٹیبلشمنٹ کے غیر ضروری سوالوں کے بھنور میں گھرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تاہم میں بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے دفاع میں اس تاویل کو قابل قبول سمجھتا ہوں کہ “جب آپ تاریخ سے جڑے واقعات کی تحقیق کرتے ہو تو اس زمانہ کے عمومی فہم کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ میں اور آپ بھٹو کا انجام اور مذہب کی ریاستی اداروں پر حاکمیت کا انجام دیکھ رہے ہیں۔ اس لیۓ اپنے نظریات میں بھٹو صاحب سے زیادہ واضح ہیں”۔
باقی کافر و مسلم کی بحث کو اسمبلی میں لا کر ریاست و سیاست میں مذہبی عمل دخل کو مضبوط بنانے والی جماعت سیکولر نظریات کی عکاس بھی کیسے کہلا سکتی تھی؟ ان تشنہ سوالوں کے علاوہ پیپلز پارٹی میں لے دے کے ایک سوشل ازم بچا جو بہر حال عام آدمی کے لیے پر کشش تھا۔ مگر وہ بھی پیپلز پارٹی سے بھٹو صاحب کی زندگی میں ہی بتدریج ختم ہوتا چلا گیا اور محترمہ کے وقت میں تو وہ محض دستور میں لکھے ایک نعرے تک ہی محدود رہا۔ تاہم محترمہ اپنے تدبر، شعور، وژن، سیاسی فہم، عوامی سیاست، غریب پروری اور پر کشش شخصیت کے حوالے سے واقعی بے نظیر ہی تھیں۔ سچ تو یہ ہے اُن کی اِن خوبیوں کی موجودگی میں سوچ کے پر اتنے پھیلے ہی نہیں تھے کہ کبھی پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات یا مندرجہ بالا حوالوں سے کمزور دانش دستور سے کہیں اختلاف کا سوچا بھی جا سکے۔ اور یہی کمزور دانش تہتر کے آئین میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔

بہر حال اب جب کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی مسلسل غلطیوں اور نا اہلیوں کے سبب پاکستان اور خاص طور پر پنجاب سے لیفٹ یا لبرل سیکولر کی برائے نام سیاست بھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی لوگ تحریک انصاف یا مسلم لیگ نواز جیسی رائٹ ونگ جماعتوں میں جانے پر مجبور ہیں کہ کوئی دوسرا آپشن نظر ہی نہیں آ رہا تو کیوں نہ کچھ ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک نئی بنیاد رکھی جائے اور ان جبری ہجرت پر مجبور بڑھتے قدموں کو روکا جائے؟
ہم جو ہمیشہ سے ایک پر امن ترقی، پسند روشن خیال معاشرے کا خواب دیکھتے آئے ہیں ان کے لیے پیپلز پارٹی پنجاب کی تباہی کے بعد ملکی سیاست میں دلچسپی کا کوئی سامان باقی نہیں رہا کہ پنجاب کی دونوں چوٹی کی جماعتیں دائیں بازو کے نظریات کی حامل ہیں۔ تو کیوں نہ بچے ہوئے، بکھرے ہوئے ہم خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے دائیں بازو کی جماعتوں کا ایندھن بننے سے بچا لیا جائے؟ ایسے حالات میں کہ جب پنجاب میں روشن خیال نظریات کا امن پسند شہری کوئی برائے نام سیکولر لبرل قیادت بھی آن گراونڈ نہیں دیکھ پا رھا تو کیوں نہ اکٹھے ہو کر معاشرے پر ان بنیاد پرست جماعتوں کے مضبوط ہوتے جبڑوں کی گرفت کو ڈھیلا کرنے کی کوشش کی جائے؟ اور ان سب باتوں سے بھی نسبتا زیادہ اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے ایسی لبرل سیکولر متبادل قیادت تلاش کریں جو سرمایہ دار یا جاگیر دار پس منظر کی بجائے ہم میں سے ہو، جو ہمارے بنیادی سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہو
۔
کل شام ماڈل پارک میں کافی سنجیدہ اور معقول نظر آنے والے حضرت ہماری نو مولود تنظیم کا بینر دیکھ کر میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ کیا آپ اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟ میں نے پیپلز پارٹی سے اپنی سابقہ وابستگی کے بارے میں بتایا کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کے بتدریج خاتمے کے بعد ہم جیسے لوگوں کے لیے باقیوں کی طرح یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں یا پھر مسلم لیگ نواز یا تحریک انصاف جوائن کر لیں۔
بولے میرا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہے اور شاید ہم دوبارہ کبھی مل بھی نہ پائیں مگر میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ پارٹی میں رہ کر ہی جدوجہد کریں کہ ہمیں بھی پیپلز پارٹی سے مقابلہ کر کے ہی مزا آتا تھا۔ میں نے جواباً کہا کہ آپ درست فرما رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی پیپلز پارٹی میں سننے سمجھنے والا زندہ ہوتا تو میں یوں ماڈل ٹاون پارک میں اکیلا نہ بیٹھا ہوتا۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں کو اپنی متوازن سماجی بنت کے لیے دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی ضرورت ہوتی ہے مگر افسوس اب پنجاب میں صرف دائیاں ہی بچا یا بچایا گیا ہے۔

بہر حال اپنے بیٹے شاہ جیون، سبط حسن، غضنفر علی اور زیدی صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ کل کی میٹنگ میں شریک ہوئے۔

 

Comments

comments