کچھ ہندوستانی ادیبوں سے سیکھ لیں – عامر حسینی
ہندوستان کے اندر نریندر مودی کی مرکزی حکومت اور کئی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا راج ہونے کے بعد ہندوستان کے اندر ” بلاسفیمی ” ایک آسان ہتھیار کے طور پر دانشوروں اور عام آدمی کے خلاف استعمال ہورہا ہے اور اس کا نشانہ اگر ایم ایم کلبرگی جیسے دانشور بنتے ہیں تو ایک مسلم آدمی اخلاق دادری میں گائے کے گوشت کھانے کے الزام میں مارا جاتا ہے اور اس کی معصوم بیٹی کی آبرو لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے – ہندؤتوا کا جنون ” غلام علی ” کو غزل گائیکی سے روک دیتا ہے
اور سچی بات ہے کہ میں ہندوستان سے آنے والی ان خبروں کو پڑھکر میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہندوستان میں کوئی ہوگا جو اس مذھبی جنونیت کے ساتھ مرکز اور ریاستوں میں بنی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو ” ادیبانہ دانش ” کے ساتھ چیلنج کرے گا /گی یا حسب سابق کیرالہ کی ایک دھان پان سے خاتون ادیبہ ، دانشور ارون دھتی رائے کا واویلا ہمیں سنائی دے گا ، لیکن مجھے ہندوستان کے کئی ایک ادیبوں نے حیران کرڈالا ہے اور میدان میں اگر کسی نے پہل کی تو وہ ہندی میں کہانیاں لکھنے والے اودے پرکاش تھے جنھوں نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ وہ دانشور ایم ایم کلبرگی کے قتل پر ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڑ واپس کررہے ہیں کیونکہ اکادمی نے اس قتل پر خاموشی اختیار کررکھی ہے اور مرکزی حکومت مذھبی جنونیت کی روک تھام کے لئے کوئی بھی اقدام نہیں کررہی
اودے پرکاش کے بعد تھانہ ممبئی مہاراشٹر میں رہنے والے اردو کے معروف ادیب رحمان عباس نے اپنے تیسرے ناول ” خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ” پر ملے ساہیتہ اکادمی ایوارڑ کو واپس کرنے کا اعلان کیا اور نرنیدر مودی حکومت کے ہندؤتوا کے پھیلاؤ اور شاعروں ، ادیبوں کو ڈرانے دھمکانے کے خلاف احتجاج کیا اور دیگر ادیبوں سے بھی اپیل کی کہ وہ ہندوستان کی سیکولر شناخت مٹانے کی کوششوں کے خلاف احتجاج میں سرکاری اعزازات واپس کریں اور سرکاری عہدوں سے مستعفی ہوجائیں
بھارتی اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ناری ادیبہ شوبھا ڈی نے بھی مجھے کافی حیران کیا ہے ،
اس نے مذھبی جنونیت کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نام نہاد ” ذھین وفطین ” وزیر اعظم نریندر مودی کے گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کی مذمت کی ہے وہ قابل تحسین ہے ، اس نے ہندوستان ٹآئمز ميں اپنے آرٹیکل ” کتنا بدل گیا سنسار ، مصیبت کے دنوں میں نئے گیت ” میں کوی پردیپ کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان بہت بدل گیا ہے اور اس کا انسان بھی اور یہ بدلا ہوا ہندوستان بہت بھدا اور بدصورت ہے اور انسان اپنی انسانیت سے محروم لگتا ہے اور ہمیں اسے بدلنے کی کوشش کرنا ہے ، اس نے کہا نیتا اس پر سیاست کررہے ہیں لیکن ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کو اپنے قلم کو آواز دینی چاہئیے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شوبھا ڈی نے مجھے کیوں حیران کیا ، جی اس لئے کہ پاکستان میں جو انگریجی بولنے والا اپر مڈل کلاس کا دانشور ہے اس کے بڑے حصّے نے پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ، احمدی ، ہندؤ برادریوں پر مذھبی فاشزم پر تنقید کرنے اور کھل کر اس کے خلاف سامنے آنے کی بجائے کبھی اس کو ” سعودی – ایران ” لڑائی کہہ کر اپنا دامن چھڑایا اور کبھی اس نے شیعہ نسل کشی کو ایک سادہ سی شیعہ – سنّی فرقہ وارانہ لڑائی قرار دیکر اپنی جان چھڑالی اور دائیں بازو کی بنیاد پرست ، مذھبی جنونی اور مسلم لیگ نواز جیسی نام نہاد سنٹر رائٹ پارٹی کی مذھبی فاشسٹوں سے ” یارانے ” کے خلاف کھل کر لڑائی نہ لڑی بلکہ ستم بالائے ستم پاکستانی اپر مڈل کلاس کی ایسوسی ایشنل – این جی اونائزڈ دانشور طبقہ تو نواز شریف کے اندر ” جمہوریت اور اینٹی اسٹبلشمنٹ جراثیم ” کی تلاش کرتا پایا گیا
ہندوستان میں ادیب ، دانشور ، شاعر ” مذھبی جنونیت ” کی روک تھام کرنے ميں حکومتی ناکامی پر سرکاری عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں اور خود نریندر مودی کی حکومت بھی کئی ایک اداروں میں سیکولر ادیبوں اور دانشوروں کو ہٹاکر ان کی جگہ ” ہندؤتوا ” پر یقین رکھنے والوں کو فائز کررہی ہے لیکن ہمارے ہاں تو گنگا الٹی بہتی آئی ہے – پی پی پی کے دور میں جب سندھ میں کراچی کے اندر شیعہ نسل کشی عروج پر تھی ، کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ بے دریغ مارے جارہے تھے ،خیبرپختون خوا میں بھی یہی حال تھا اور پنجاب میں شہباز شریف القائدہ کو خط لکھ رہا تھا
اور طالبان سے اپیل کررہا تھا تو ایسے میں اردو لغت بورڑ ، مقتدرہ قومی زبان ، سندھی ادبی بورڑ ، پنجابی ادبی بورڑ ، پشتو اکادمی ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، مجلس ترقی اردو ادب ، اکادمی ادبیات ، پاکستان نیشنل آرٹس کونسل ، لوک ورثہ ، ریڈیو پاکستان ، پاکستان براڈ کاسٹر کارپوریشن سمیت متعدد ادبی و ثقافتی سرکاری انسٹی ٹیوٹس میں ایسے لوگ سربراہ اور گورننگ باڈیز کے رکن تھے جو عرف عام میں ” بڑے ترقی پسند ” تھے یا پھر ان کے ہاں ” انسان دوستی ” کے بلند و بانگ دعوے پائے جاتے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کے ضمیر نے ان کو آواز نہیں دی کہ وہ ان عہدوں سے مستعفی ہوں ، اس دوران بڑے بڑے سانحے ہوئے ،
سب سے بڑا سانحہ تو سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کی شہادتیں تھیں اور اس پر مسلم لیگ نواز کی تو مجرمانہ روش اپنی جگہ پر لیکن خود ایک سیکولر ، لبرل پارٹی پی پی پی کی قیادت کا کیا حال تھا کہ جب لطیف کھوسہ نے گورنر پنجاب کا حلف گورنر ہآؤس لاہور میں اٹھایا تو سامنے ٹیبل پر یا دیوار پر سلمان تاثیر کی تصویر نہ تھی ، ان کی تقریر سے سلمان تاثیر کا تذکرہ غائب تھا اور پھر ان کے دور گورنری میں پہلے تاثیر کا چہلم اور پھر برسیاں آئیں لیکن تاثیر کی یاد میں گورنر ہاؤس میں کوئی بڑا اجتماع نہ ہوا اور نہ ہی اکادمی ادبیات ، مقتدرہ قومی زبان جیسے اداروں مين تقریب ہوئی ، اس زمانے میں ڈاکٹر انوار احمد اکادمی ادبیات کے چئیرمین تھے ، میں سمجھتا تھا کہ وہ استعفی دیکر باہر آئیں گے اور اپنی کاٹ دار باتوں سے عوام کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑیں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا
کوئٹہ علمدار روڑ پر کتنے جنازے پڑے رہے تھے اتنے دن لیکن کسی ایک ادیب نے نہ تو ایوارڑ واپس کیا ، نہ اعزاز اور نہ ہی کوئی عہدہ چھوڑا ، بہت شرمناک ٹریک ریکارڑ ہے پاکستان کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا اس معاملے میں
جیسے سلمان تاثیر ” آسیہ بی بی ” کے لئے آگے آیا تھا اور جس طرح سے راشد رحمان نے ” جنید حفیظ ” کا دفاع کیا تھا ایسے پاکستان کے بڑے قد کے حامل ادیب ، دانشور ، شاعر آگے بڑھتے تو شاید ” بلاسفیمی ” کے خلاف بولنا پاکستان میں اتنا مشکل نہ رہتا
جانتا ہوں کہ پاکستان کی انگریجی بولنے والی کمرشل لبرل مافیا کو مری اس تنقید سے بہت تکلیف ہوتی ہے ، اتنی تکلیف کہ ” رضا رومی ” جیسا معصوم سا بچّہ جو اپنے طبقاتی پس مںظر اور بزدل لبرل فلاسفی کے تقاضوں سے مجبور ہوکر مجھے
Crude guy
کا خطاب دیتے ہوئے یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اسے تو ” منٹو ” کا منہ پھٹ ہونا ، گستاخ ہونا اور گالیوں سے سواگت کرنا بہت بھلا لگتا ہے- کیا اس لئے کہ منٹو کا یہ سب کچھ اس کے زمانے سے پہلے کے لوگوں کے لئے تھا ، اور آج مرا منہ پھٹ ہونا اس لئے برا ہے کہ اس کا نشانہ آج کی ” کمرشل لبرل مافیا ” ہے – ميں نے کہا کیا تھا ، یہی نا کہ میاں فرائیڈے ٹائمز میں طاہر اشرفی کو ماڈریٹ ، لبرل مولانا بناکر پیش کرنا بند کردو ،
لدھیانوی کے قصیدے مت پڑھو اور نجم سیٹھی کی پیروی میں نواز شریف کے اندر ” سچا جمہوریت پسند اور اسٹبلشمنٹ مخالف ” تلاش کرنا بند کردو ، پاکستان میں کمرشل لبرل مافیا پاکستانی رفیق حریریوں میں جمہوریت پسند تلاشتے پھرتے ہیں جیسے ایک اور اسی لبرل دانش کا حلقہ جنرل راحیل شریف میں ” مذھبی تکفیری فاشسٹوں سے نجات دلانے والا سفاک مسیحا ” تلاش کرتا پھرتا ہے – اس حساب سے پاکستان کے اندر ” دانش ” اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے
رنکل کماری کے باب میں بہت احتجاج ہوا ، بیانات آئے ، شور مچا لیکن کسی سرکاری ادارے سے مستعفی ہونے یا سرکاری اعزاز واپس کرنے کا اعلان سننے کو نہیں ملاہمارے ہاں شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں نے مذھبی فاشزم کے سامنے ڈٹ جانے اور جم جانے کا ویسا مظاہرہ نہیں کیا جیسا اس وقت ہندوستان کے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں کے اندر نظر آرہا ہے
میں قاضی جاوید کے ” ادارہ ثقافت اسلامیہ ” میں جمے رہنے ، پروین ملک کے پنجابی ادبی بورڑ میں ٹکے رہنے کا کوئی جواز نہیں دیکھتا اور ایسے ہی ندیم اصغر کو سرکار کے حضور پیش رہنے کو ان کے فن کی توھین سمجھتا ہوں ، عطاء الحق قاسمی ، ڈاکٹر تحسین فراقی جیسوں کو میں اس لائق ہی نہیں سمجھتا کہ ان سے کہوں کہ وہ دربار کو چھوڑ دیں کیونکہ ” دربار ” ان کے لئے تالاب ہے اور وہ مانند مچھلی اس کے بن زندہ رہنا ان کے لئے مشکل ہے ، ابھی کوئی خواجہ علقمہ کو کہے کہ میاں اب بس تھوڑے دن رہ گئے ہیں وی سی شپ کے لعنت بھیجو اور سچ بول ڈالو
تو اس آدمی کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہے گا کہ بھئی جس کے آباء نے اپنی بنگالی قوم کے خون پر پاکستان کی بابوشاہی میں جگہ بنانے پر ترجیح دی ہو اور وہ خود بھی پاکستان کے اندر بابو شاہی اور سفارتوں پر مرتا رہا ہو اس سے یہ توقع فضول ہے
پاکستان میں ادب ، صحافت ، شوبز کے آئیکونز ” اعزاز ، ایوارڑ ، عہدوں ، مناصب ” پر لٹو ہوجاتے ہیں اور سارے آدرش بھول جاتے ہیں تو بیچارے قمر رضا ، رضی ، شاکر و عباس تابش و نوشی گیلانی جیسے ہما شما کس حساب میں آتے ہیں ، یہ بیچارے تو پھر بھی اپنی سی کرلیتے ہیں ، راشد و سلمان کے مرنے پر ماتم کناں ہوجاتے ہیں اور زرا چھپ کر ہی سہی ” ساجد رشید ” کے جانے کا ماتم کرتو لیتے ہیں اور ایک کونے ميں بیٹھ کر ” راشد رحمان ” کے قاتلوں کو کوسنے تو دے لیتے ہيں اور اپنے دل کا غبار نکال تو لیتے ہیں ،یہ ان ” بڑے قد کے ادیبوں مگر بونے آدمیوں ” سے پھر بھی قدرے بہتر ہیں
ایم ایم کلبرگی نے مرنے سے کئی سال پہلے اپنے نظریات سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرے خاندان کی زندگی تو بچ گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مری دانشورانہ زندگی کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے اور تامل ادیب پیرومل نے تو اپنے ناول ” نصف عورت ” کے خلاف مذھبی جنونیت کے بادل چھائے دیکھے تھے تو خود ہی بطور ادیب پیرومل کی ” وفات ” کا اعلان ہی کرڈالا تھامجھے لگتا ہے کلبرگی اور مسلمان اخلاق احمد کی مذھبی جنونيت کے ہاتھوں ہلاکتوں نے ہندوستان کے ادیبوں کو جھنجھوڑا اور ایک طرح سے وہ سب بیدار ہوگئے ہیں
کیرالہ کے شہر تھریسر سے تعلق رکھنے والی ملیالم میں لکھنے والی ادیبہ ” سارہ جوزف ” نے اپنے ملیالم ناول
آلا ہائیوڈ پینمکل
Aalahayude Penmakkal
Daughters of God , the Father
پر 2003ء میں ساہیتہ اکادمی کیرالہ کی جانب سے ملنے والے ایوارڑ کو واپس کردیا ہے اور ساہیتہ اکادمی کیرالہ کی ایک کمیٹی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہےسارہ جوزف جنھوں نے ” ڈاٹرز آف گاڈ ، دی فادر ” میں نچلی جاتی کے لوگوں کی زندگیوں میں اپنی دھرتی سے بے دخلی اور دربدری کے اس المیے کو ادبی بیانیہ دیا تھا جو سرمایہ داری کے نیولبرل ماڈل سے جنم لینے والی ” اربنائزیشن اور ترقی ” سے ابھرتا ہے
اور میں ایک مرتبہ پھر اپنے ہاں کے بڑے ، بڑے ادیبوں اور ادیباؤں کی فہرست پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ایک بھی پاکستان کے شہروں میں لبرل مارکیٹ کے جبر کے ساتھ ساتھ ویسی ہی اربنائزیشن اور ڈویلپمنٹ سے غریبوں کی بے دخلی کو ” اپنی کہانیوں ” کا موضوع بنانے والا نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی پیرومل جیسا ادیب ملا جو یہاں کی کھوکھلی مذھبییت کو بے نقاب کرتا پایا گیا ہو ، ہاں ایک مسعود اشعر ” کیا نام تھا اس کا ” اور محمد حنیف ” پھٹے آموں کی کہانی ” اور ” ایلس بھٹی ” کے ساتھ اور ایک افسانہ ہزارہ والوں کے نام کے ساتھ زرا تھوڑا سا الگ تھلگ نظر آیا لیکن محمد حنیف کے یہ ناول اور افسانے انگریزی میں ہونے کی وجہ سے ایک محدود طبقہ تک ہی پہنچ پائے اور شاید اسی وجہ سے ان کی یہ تخلیق اپنے ساتھ کسی قسم کے خطرات لیکر نہیں آئی ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کے ہاں ” طالبانائزیشن ” پر ” بے چینی ” اور غصّہ نہیں تھا مگر یہ بے چینی اس طرح کی مزاحمت کو جنم نہیں دے سکی جو ہم آج ہندوستان کے اندر دیکھ رہے ہیں
ملیالم زبان کے شاعر ، ادیب ، کالم نگار کے سچدانندن
K Satchidanandan
جو ساہیتہ اکادمی کیرالہ کے سیکرٹری بھی رہے اور اس کی ایک کیمٹی کے رکن بھی نے بھی اپنا ایوارڑ واپس کیا اور کیمٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کرڈالا ہے اور اس طرح اپنے ان شبدوں کی لاج رکھی ہے جس کا اظہار وہ اپنی ملیالم شاعری میں کرتے رہتے ہیں ، ان کی ایک نظم ” گاندھی اور شاعری ” مجھے یاد آرہی ہے جس میں نواکھلی کا زکر ہے اور یہ ان فسادات کی یاد دلاتی ہے جو نواکھلی شہر میں ایک دم سے مسلمانوں کے لئے مذبح خانے میں بدل جانے کا سبب بنے تھے اور گاندھی نے وہاں جاکر مرن بھرت رکھ لیا تھا
اور حسین شہید سہروردی بھی ان کے ساتھ ہولئے تھے اور حسین شہید سہروردی جب ” مسلمانوں ” کے سلاٹر ہاؤس نواکھلی سے واپس مشرقی بنگال آئے جو مشرقی پاکستان ہوچکا تھا تو ان کو ہندوستان کا ایجنٹ کہہ کر اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی ، احمد آباد گجرات بھی ایک مرتبہ ” دور جدید کا نواکھلی ” ثابت ہوا تھا اور اس عید پر دھلی کے نواح میں دادری ایک عام مسلمان اخلاق کے لئے ” نواکھلی ” بن گیا تھا مگر اس مرتبہ ہندوستان میں کوئی ” گاندھی ” نہیں بچا تھا تھا جو ” مرن بھرت ” رکھتا اور اخلاق احمد کو مرنے سے بچاپاتا جبکہ اس کی معصوم پھول جیسی بیٹی کی آبرو کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو روک پاتا ، کے ستچندن نے ایک مرتبہ کسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ہاں ” شاعری ” اداسی ، مرگ اور تشکیک کی فضا میں پنپتی ہی اس لئے ہے کہ سماج کے اندر اسی کی حکمرانی ہے
گاندھی اور شاعری
نواکھلی ميں بچ گیا تھا سورج
گاندھی اسی سورج کے نیچے چل رہا تھا
ایک چھتنار درخت نے اسے پکارا تھا
آؤ اور یہاں کچھ دیر سستا لو مرے مہاتما
تم ؟ ابھی سستانے کا وقت نہیں ہے
گاندھی نے برجستہ کہا تھا
اس دنیا کو جلدی بہت ہے
میں بوڑھا ہوچکا ہوں
چھتنار درخت شکوہ کناں تھا
نہ اب مجھ پر پھول کھلتے ہیں
اور کبھی میں ثمر آور نہیں ہوتا
پرندے بھی اب یہاں بسیرا نہیں کرتے
تم پریشان مت ہونا
ایک کلہاڑا تمہارا انتظار کرتا ہے
اک گولی مری راہ تکتی ہے
ایسا مت کہو
شجر حالت نزع میں آگیا تھا
کسی کو اس شیڈ کی ضرورت ہوگی
بہار کی یاد ” فرار ” ہوگئی تھی
شجر آہیں بھرتا تھا
دعا کرو
گاندھی نے کہا تھا
اگر تم نہیں رکتے
تو میں ساتھ چلوں گا
شجر گاندھی کے ساتھ ہولیا تھا
اک ہوا سی چل پڑی تھی
اک پرندہ شجر کی اور بڑھا تھا
دیکھو ! میں پھر پھولوں سے لد چکا ہوں
سفید پھولوں کی ہمراہی میں مسکرانے لگ گیا ہوں
تم نے چلنا شروع کردیا ؟
میں رک سکتا ہوں
گاندھی کا خون سرگوشی کرتا ہوا
پھوٹ پڑتا ہے
ہر ایک جاندار کے لئے دعا کی طرح
دیکھو ! یہ پھولوں کا رنگ سرخ ہوگیا ہے
نجات پاتا ہوا شجر چلانے لگا تھا
ثمر کے خواب دیکھنے والے پرندے
مشرق سے اڑتے
چلے آتے تھے
کے سچدانندن نے اپنی شاعری کی لاج رکھی تو ششی دیش پانڈے نے بھی اپنی ادیبانہ سچآئی برقرار رکھنے کے لئے ساہتیہ اکادمی کی جنرل کونسل سے استعفی دے ڈالا اور اپنے ناول ” وہ جو خامشی طویل تھی ” کی طرح دم گھونٹنے والی خاموشی میں استعفی کی چیخ سے ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے
معروف ادیبہ نین تارا ، للت کلا اکیڈیمی کے صدر نشین اشوک واجپائی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے
پاکستان کے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں کو ہندوستانی ادیبوں ، دانشوروں سے سیکھ لینا چاہئیے ، میں بڑھاپے کی سرزمین پر قدم دھرے ڈاکٹر انوار احمد ، فہیمدہ ریاض ، ابراہیم جویو ، زاہدہ حنا ، حمید شاہد سے یہ نہیں کہتا کہ ویسا کچھ کردکھائیں جیسا ضیاء کے دور میں کردکھایا تھا ،
یہ بھی نہين کہتا کہ نوجوانوں کی طرح ایکٹو ازم کریں لیکن سرکار اور دربار سے ملے اعزازات ، ایوارڑ اور عہدے (اگر ہیں ) تو سرکار کے منہ پر ماریں ، سرکاری تقریبات کا اس وقت تک بائیکاٹ کردیں جب تک آسیہ کو انصاف نہ ملے ، جنید کی جان نہ چھوٹ جائے ، راشد کے قاتلوں کا سراغ نہ لگ جائے اور یہ سماج سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قاتلوں کی تعظیم بند نہ کردے اور ماڈل ٹاؤن میں مارے جانے والے چودہ مرد و خواتین کے قاتل جیل کی سلاخوں کے پيچھے نہ چلے جائیں ، جوزف کالونی اور گوجرہ میں مسیحی کمیونٹی کے گھروں پر دھاوا بولنے والوں کے سرپرستوں کا گھیراؤ نہ ہو پاکستان کے حکمران ” مذھبی فاشسٹوں ” کے ساتھ فوٹو سیشن بند نہ کردیں
سارہ جوزف
اودے پرکاش
رحمان عباس