مشرق وسطی کی سیاست اور جنگیں دنیا بھی بدل سکتی ہے – شفیق طوری
آج روس نے شام میں فضائی حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ روس نے ایک ایسے جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں تقریباً دو لکھ افراد بچوں اور عورتوں سمیت لقمہ اجل بنے ہیں۔
باؤثوق ذرائع کیمطابق روسی جنرل نے بغداد میں امریکی سفارتخانہ جا کر اسےخبردار کیا کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر شامی فضائی حدود خالی کردیں اور روسکے باقاعدہ فضائی حملے شروع کرنے کے بارے میں آگاہ کیا۔
جبکہ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام میں موجود اپنے نام نہاد اپوزیشن اور فری سیرئین آرمی کی ساری امداد معطل کرتے ہوئے روسی حملوں میں حائل رکاوٹ بھی دور کر دی ہے۔
ایک پہلے فرانس کے صدر فرنسو اولون نے بھی عراق اور شام میں داعش کےخلاف فضائی حملوں کا اعلان کرتے ہوئے شام اور میں موجود داعش کے بھرتیکیمپ پر حملے کیئے ہیں جس میں درجنوں جہادی مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
یاد رہے ایران اور لبنان کا حزب اللہ ملیشیا پہلے ہی شامی صدر بشار الاسد کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ شام میں چار سال سے جاری خانہ جنگی اب مزید پیچیدہ اور مشرق وسطی کےحالات گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور عرب کولیشن کے تقریباًپچاس ممالک کے بعد اب روس میدان میں کود پڑا ہے
یاد رہے روس کو اسی کے دہائی میں جہادیوں نے افغانستان میں شکست اور پسپائی سے دوچار کیا تھا۔ اب اس جنگ کے بدلہ کا بھی موقع بھی روس کے ہاتھ میں ہے۔
چین کا ایک اور جدید ترین میزائلوں سے لیس اور جہاز بردار بیڑہ بھی مشرقوسطی کے پانیوں میں داخل ہوا چاہتا ہے۔تیل سے مالا مال مشرق وسطی اب بین الاقوامی جنگ و جدل کا میدان بن گیا ہے اورعرب ریاستوں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے کہ جنگیں اب ان دروازوں پر دستک دےرہے ہیں۔
چار سالہ خانہ جنگی میں اپنے آپ کو جس طرح بھی ہو شامی صدر بشار الاسد نےاپنے آپ کو بچایا ہے اور اب روسی، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے جوابیکارروائی شروع کردی ہے، اور حالات وقت کیساتھ ساتھ واضح ہونا شروع ہوجائیںگے
دوسری طرف یمن میں سعودی عرب کی قیادت دس ملکی فوج کی فضائی اورزمینی کارروائی جاری ہے اور سعودی لیڈ کولیشن کو بھاری نقصان کے دلبرداشتہ ہوکر پسپا نظر آتے ہیں لیکن سننے میں آیا ہے افریقی کرائے کے فوجی بھرتی کرناشروع کیا، جبکہ حوثی+صالح کے میلیشیا کی قوت مدافعت بڑھتی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ، یورپ اور عرب ملکوں نے مہینوں میںلیبیا کے معمر قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹ گھسیت کر جن جہادیوں سے مروایا وہشام میں بشار الاسد کو چار سال میں شکست نہیں دے سکے۔
امریکہ کے شام میں براہ راست لڑائی میں شامل نہ ہونے سے عرب ملک بہت نالاںنظر آئے اور ناراض عرب ملکوں نے پھر خود اربوں ڈالرز کے اسلحے خرید لیئےاور بذات خود میدان جنگ میں کود پڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران سابق یمنی صدرعلی عبداللہ صالح اور حوثی قبائیل جو کئی مہینوں سے صنعا میں حکومت کیخلافاحتجاج کررہے تھے تو حوثی قبائل اور علی عبداللہ صالح نے جلتے پر تیل کا کام کیاجب یمنی دارالحکومت صنعا کو دس دن میں فتح کرکے نام نہاد صدر عبدالربمنصور کو پہلے گرفتار اور بعد میں صنعا سے بھگانے میں کامیاب ہوئے اور اسیدوران عرب ملکوں کو یمن میں ایران کا ہاتھ نظر آیا اور ایران کو سبق سکھانےکیلئے عرب ملکوں نے دس ملکی اتحاد قائم کیا جس میں پہلے پاکستان کو بھی بغیرپوچھے شامل کر لیا گیا تھا اور نواز شریف کی عرب نواز حکومت بھی پوری طرحاور ہر قسم مدد کیلئے تیار نذیر آئے تھی لیکن بعد میں عوامی پریشر (شاید فوجیاسٹیبلشمنٹ کا بھی ارادہ نہیں تھا) پر پاکستانی حکومت اپنا فیصلہ واپس لینے پرمجبور ہوا۔ اور یوں عرب ملکوں کے اتحاد نے یمن پر دھاوا بول دیا جو عرب دنیا کاکمزور ترین ملک ہے۔ اور اب تک دس ہزار کے قریب انسانی جانوں کا ضیاء ہوا ہےجس میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے۔
ایک جنگ ہم بھول رہے ہیں اور وہ ہے بحرین جہاں سیاسی تنظیم جمیع الوفاق اوراسکے مقید رہنما علی سلمان اعصاب کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں آل خلیفہ حکومتکو کافی زک پہنچایا ہے اور بحرین کی صورتحال یمن اور شام سے جڑی ہوئی ہے،اگر تو یہاں ایران نواز حکومتیں اپنی طاقت بحال کرنے میں کامیاب ہوئیں تو بحرینکی صورتحال جمیع الوفاق کے حق میں ضرور جائے گی۔
آج حالات مختلف ہیں۔ روس کے شام جنگ میں کودنے کے بعد مشرق وسطی کانقشہ کیسے تبدیل ہوگا؟کیا روس اپنی اسی کی دہائی والی غلطی دہرائیگا؟ کیا ولادیمر پیوٹن روس کو اپنا کھویا ہوا مقام، طاقت اور تشخص واپس دلانے میںکامیاب ہوگا؟کیا سرمایہ دارانہ نظام اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے؟ کیا چائینا اب مزید انتظار نہیں کریگا اور اپنا لوہا منوا کر رہیگا؟ آنے والے وقت میں ان سوالات کے جوابات مشرق وسطی کی سیاست اور جنگوں سے جڑی نظر آ رہی ہیں۔
Source:
http://www.saach.tv/urdu/52921/