شام : اوبامہ اور پیوٹن کی پوکر گیم – عامر حسینی
posted by Guest Post | September 29, 2015 | In Original Articles, Urdu Articlesکل جب یو این کے 70 ویں جنرل اسمبلی سیشن میں امریکی صدر باراک اوبامہ اور ولادیمیرپیوٹن نے خاص طور پر مڈل ایسٹ اور شام پر اپنے اپنے موقف کے دفاع میں دلائل دئے تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے باراک اوبامہ کی بے بسی پر سچ مچ رحم سا آنے لگا کہ زمین پر سارےحقائق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے کیس کو مضبوط کررہے ہیں اور باراک اوبامہ کی کسی حد تک ” آرٹفیشل فاختائی رنگ لئے تقریر ” ان حقائق کے سامنے آنے پر پھیکی پڑگئی جس کے تذکرے سے اوبامہ جی اور ان کے اتحادی بہت گبھراتے ہیں امریکی صدر اوبامہ کی شام کے ایشو پر ساری تقریر کا مدعا یہ تھا کہ وہ شام میں روس کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور ایران کو بھی ایک فریق مانتے ہیں لیکن وہ اس بات پے بضد تھے کہ یہ دونوں ملک ” بشار الاسد کی رخصتی ” پر بھی اتفاق کرلیں اور ایک نئے سیاسی سیٹ اپ کی طرف آنے پر رضامند ہوجائیں
– یعنی وہی رجیم تبدیلی پروجیکٹ مگر ایک نئے نام سے جسے امریکی صدر اوبامہ نے ” ڈپلومیٹک ڈسکورس ” کہا ولادی میر پیوٹن جوکہ دس سالوں میں پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی سیشن میں ڈائس پر نمودار ہوئے نے امریکی صدر کے بچھائے دام میں آنے سے یکسر انکار کیا اور اس مرحلہ پر ان کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ ” داعش ” کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا – امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دونوں صدور کی اس نوک جھوک بارے کسی حد تک بہت ہی درست تجزیہ کیا ہے
Beyond the verbal jousting and steely looks over lunch after the morning speeches, however, the two leaders were still playing a subtle game of diplomatic poker, each trying to maneuver the other into shifting his position.
امریکی کیمپ میں شامل کئی ایک پاکستانی ” کمرشل لبرل ” اور شام ، عراق ، یمن کے معاملے پر بالخصوص اور مڈل ایسٹ پر بالعموم ان کے اتحادی بن جانے والے ” سعودی نواز ” دایاں بازو کے مہان جہادی تجزہ نگاروں ، کالمسٹوں ، اینکر پرسنز اور نام نہاد انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے ” شام ” کی صورت حال خاصی شرمندگی پیدا کرنے والی ہے لیکن وہ گبھرائیں نہیں ، مغرب کے اندر ایسے ” جادوگر تجزیہ کاروں ” کی کمی نہیں ہے جو ان کو ” بے بسی ” کی اس کیفیت سے جلد نکالنے کے لئے ایک اور ” فرضی خطرہ ” تلاشنے کی کوشش میں ہیں اور ایسا ہی ایک رائٹر برطانوی نژاد مصنف جان آر برادلی ہے جو کہ عمر کے پانچویں عشرے ( 45 سال ) میں ہیں مشرق وسطی کے امور پر ماہر خیال کئے جاتے ہیں اور انہوں نے ” بہار عرب ” میں چھپے ” سلفی جنونیت اور بنیاد پرستانہ رجحانات اور ان کے بہار عرب تحریک کو ہائی جیک ” کرنے کے امکانات پر جو پیشن گوئیاں کی تھیں وہ بہت حد تک درست ثابت ہوئیں – ان کی کتابوں
Inside EgyptSaudi Arabia ExposedArab Spring
نے کافی شہرت پائی مجھے جان آر برادلی اس لئے یاد آگئے کہ انہوں نے برطانوی ہفت روزہ رسالے
Spectator
میں حال ہی میں ایک آرٹیکل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر باراک حسین اوبامہ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خطابات کا باہمی موازانہ کرتے ہوئے لکھا ہے اور ان کے مضمون کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے
Bizarrely, Putin is talking more sense on Syria than anyone else
عجیب و غریب طور پر پیوٹن شام کے بارے میں کسی سے بھی زیادہ عقل مندی سے بات کررہا ہیں نوٹ : ویسے برادلی کے نزدیک پیوٹن کا زیادہ ہوش مندی کے ساتھ بات کرنے کو عجیب و غریب کہنا اس کے اپنے تعصبات کی عکاسی بھی کرتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں ہوش مندی کی باتیں تو یورپی اور امریکی حکومتوں کو زیب دیتی ہیں کیونکہ وہی عقل کے مدار المہام گردانے جاتے ہیں اور یہاں بھی اس پورے آرٹیکل میں برادلی نے امریکہ اور برطانیہ سمیت جملہ اتحادیوں کی مڈل ایسٹ بارے سٹریٹجی پر جو تنقید کی ہے اس میں بذات روس یا ایران کے لئے جذبہ خیر خواہی نہیں ہے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکیوں کی حماقتوں کی وجہ سے روسی صدر پیوٹن ” مدبر نظر آرہے ہیں ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ان میں اور وہ اسے روسی صدر پیوٹن کی ایک بلف گیم کہتے ہیں اور یورپ و امریکہ کو ” روس ” کے عزائم سے ڈراتے نظر آتے ہیں اسی لئے اس مضمون کی ایک ذیلی سرخی رسالے کی ویب سائٹ پر یہ نظر آتی ہے
Our Syria plans have been a total shambles – leaving a vacuum for Russia’s
شام بارے ہمارا منصوبہ مکمل طور پر باعث شرم بن چکا ہے – اس نے روس کے ہماری جگہ لینے کا خلا پیدا کیا ہے یعنی برادلی کو روس کے مغربی بلاک ( اگرچہ یہ اصطلاح اب خاصی گمراہ کن ہوچکی ہے مگر پھر بھی اس سے کام چلانا مجبوری ہے ) کی جگہ مڈل ایسٹ میں شام کے اندر لینے پرخاصا دکھ ہے جان برادلی اپنے آرٹیکل کے آغاز میں لکھتا ہے کہ
At the outset of Syria’s brutal four-year civil war, I was an almost unique voice in the British media deploring the push to depose the secular dictator President Bashar al-Assad, especially in the absence of a genuinely popular uprising against him. Here in The Spectator I tried to point out that such a short-term strategy would have devastating long-term consequences. Assad, I argued, would not fall, because the people of Damascus would not rise up against him. The so-called secular rebels were in fact vicious Islamists in disguise. Western interests in the region would be dramatically undermined by Saudi and Iranian militias, who would fight a devastating proxy war. Syria’s extraordinarily diverse population risked annihilation as a result.
شام کی چار سالہ خوفناک خانہ جنگی کے نمودار ہونے پر ہی میں برٹش میڈیا میں وہ منفرد آواز تھا جس نے خاص طور پر ایک حقیقی قسم کے پاپولر ، مقبول عوامی ابھار کی غیر موجودگی میں سیکولر آمر بشار الاسد کو ہٹانے کی کوششوں کی مذمت کی تھی – سپکٹیٹر رسالے ہی میں ، مين نے ایسی شارٹ ٹرم حکمت عملی کے تباہ کن نتائج و عواقب نکلنے کی نشاندہی کی تھی – نام نہاد سیکولر شامی باغی اصل میں ” اسلامسٹ ” ہیں اور میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ” مغربی مفاد ” سعودی اور ایرانی ملیشیاؤں کے مفادات کے باہمی ٹکراؤ میں گم ہوجائے گا ، جو کہ ایک تباہ کن پراکسی وار لڑیں گی – شام کی غیرمعمولی متنوع آبادی اس جنگ کے نتیجے میں مکمل طور پر فنا ہونے کے خطرے سے دوچار ہوگی جان آر برادلی مغرب اور امریکہ کی حکومتوں کی حماقتوں کے نتائج و عواقب کا آئینہ بھی ہمارے سامنے اس آرٹیکل میں رکھتا ہے ، وہ لکھتا ہے کہ
No one listened, and I tired of trying to convince them of their folly. Four years on, the suffering of the Syrian people — 250,000 slaughtered, half of the population internally displaced and millions more made refugees — is obvious. And last week, in the midst of Europe’s biggest refugee crisis since the second world war (brought about in no small part by fleeing Syrians), the extent of the West’s geopolitical miscalculations became painfully evident
کسی نے نہیں سنا ، اور میں ان کی حماقت بارے ان کو باور کرانے کی کوشش کرتا تھک گیا – چار سال کے دوران شام کے لوگوں کے مصائب اب سب پر ظاہر و باہر ہیں – ڈھائی لاکھ لوگ زبح کردئے گئے ، آدھی سے زیادہ آبادی داخلی طور پر مہاجر ہوگئی اور لاکھوں لوگ مہاجر بن گئے – گزشتہ ہفتے دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والے یورپ کے سب سے بڑے ” رفیوجی بحران ” کے دوران مغرب کی تکلیف دہ حد تک ” جیو پولیٹکل پیش بینی اور شماریت پسندی کے مغالطوں کی حد ” بہت واضح ہوگئی برادلی شام میں جاری کشاکش کی خوفناکی کی مزید پرتیں کھولتا ہوا لکھتا ہے مختلف وابستگیاں رکھنے والے جہادی ، جوکہ اب بلاشک واحد اپوزیشن ہیں علوی اکثریت کے علاقے اور ساحلی پٹی پر مشتمل شامی علاقے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور انچ بہ انچ دمشق کے قریب تر ہوتے جاتے ہیں –
تو لمبے عرصے سے چلے آرہے شام کے اتحادی روس نے جسے واشنگٹن کو دھوکہ دینے کے لئے کہا جائے گا شامی رجیم کے سب سے مضبوط گڑھ لٹکیا میں فوجی اڈے بنائے – اور چشم زدن میں اس کے ٹینک ، لڑاکا جیٹ طیارے ، فوجی مشیر ، جنگی طیارے اور یہاں تک کہ سب سے جدید ترین اینی کرافٹ مزائل سسٹم بھی وہاں پر موجود تھے –
اس کے انجئینروں نے راتوں رات ہوائی جہازوں کی لینڈنگ کے لئے پٹی بھی تعمیر کردی اور اس کی بحریہ نے شامی بندرگاہ ٹارٹس جوکہ لیز پر رشیا کے پاس ہے کے ںزدیک فوجی مشقیں بھی کیں برادلی کے مطابق ایک طرف تو روس تھا جس نے بشار الاسد کی حکومت اور اس کے دفاع کو مضبوط بنایا جبکہ دوسری طرف مغربی حکومتیں تھیں جو داعش کے خطرے سے اس وقت تک بے خبر رہیں جب تک یو ٹیوب پر اس کے خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی نے اپنے خلیفہ ہونے اور نام نہاد اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان نہ کرڈالا –
برادلی کہتا ہے کہ مغربی حکومتیں بشمول امریکہ نے داعش کا مقابل کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے کی بجائے روس اور ایران کی مدد سے مضبوط ہونے والے بشار الاسد کی حکومت کے طوالت اختیار کرنے کے ڈر کو اپنے اعصاب پر سوار رکھا اور اس خوف کا تدارک کرنے کے لئے ایک نئی ماڈریٹ ، سیکولر باغی فوج بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا اور 500 ملین ڈالر کے اس پروجیکٹ سے ابتک چار سے پانچ فوجی تیار ہوئے جبکہ ایک اور فوجی دستے کے75 کے ایک فوجی بیج میں سے 35 القائدہ کے ساتھ جاکر مل گئے ہیں جان آر برادلی کا پیوٹن سے تعصب بلکہ جیلسی ایک مرتبہ پھر عود کرکے آتی ہے اور وہ کہتا کہ مغرب کی حماقتوں کی وجہ سے آج پیوٹن یورپ کے سامنے خود کو یورپ کو ” رفیوجی کرائسز ” سے بچانے والا بناکر پیش کررہا ہے –
اور وہ کہتا ہے کہ ” مہاجروں کے اس بہاؤ کو ہم صرف شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بچاکر ہی روک سکتے ہیں جان برادلی کہتا ہے کہ بشار الاسد کی فوجیں شمال میں داعش کے ٹھکانوں پر ایک کے بعد ایک فضائی حملہ کرتی ہیں اور حیرت انگیز طور پر ٹھیک ٹھیک اہداف کو نشانہ بناتی ہیں اور مغربی سیاست دان جو بشار الاسد کو ایک شیطان آمر کہتے نہیں تھکتے تھے اور کہتے تھے کہ ” بشار الاسد کی رخصتی کے دن ” گنے جاچکے ہيں وہ داعش کے خلاف بشار الاسد کی فوجوں کی ان کامیابیوں پر ” دانتوں میں انگلی ” دبائے حیرت سے دیکھتے ہیں اور ان کے پاس اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہی جبکہ پیوٹن اب ان کو کہہ رہا ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے بشار الاسد رجیم سے لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ ملکر نیٹو فورسز کو داعش کے خلاف کاروائی اور شام کے دفاع کی ضرورت ہے برادلی پیوٹن کے اس رويے اور پالیسی کو پیوٹن کی ” بلف گیم ” قرار دیتا ہے –
ہم اسے بھی برادلی کا تعصب کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن یہ برادلی یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ بشارالاسد جوکہ اس وقت شام کے ایک تہائی حصّے کو کنٹرول کررہا ہے پہلے سے کہیں زیادہ شامیوں میں مقبول ہوچکا ہے – حال ہی میں ایک سروے نے بتایا کہ 80 فیصد شامی آبادی کا خیال یہ ہے کہ داعش کو ” مغرب ” نے جنم دیا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بشار الاسد کے زیر کنٹرول شامی علاقوں اور دمشق میں بشار الاسد کے مخالفوں میں سے جو باقی رہے ان میں سے کچھ نے تو داعش کی صفوں مين شمولیت کرلی جبکہ باقیوں نے اپنے آپ کو ان شامیوں ميں جاکر پھاڑ لیا جو ان کے خیال ميں ” کافر اور مرتد ” تھے واشنگٹن اور اس کے اتحادی بشمول رجعتی عرب ریاستیں اب یہ ماننے لگے ہیں کہ شام کے بارے میں پیوٹن کا موقف درست ہے اگرچہ انہوں نے یہ ماننے میں بہت دیر لگائی ،
ابربوں ڈالر خرچ کئے برادلی کی طرح ایک اور برطانوی نژاد سابق انٹیلی جنس افسر اور مڈل ایسٹ کے امور پر ماہر پیٹرک کوک برن نے بھی مغرب کی مڈل ایسٹ پالیسی پر آغاز کار سے ہی شدید تنقید کی اور اس نے ” داعش ” کے عراق میں ابھار پر ایک مبسوط کتاب ” جہادیوں کی واپسی ” لکھی اور اس کے درجنوں تجزیاتی آرٹیکل بھی انھی باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں جن کا تذکرہ برادلی نے کیا ہے اور ” عراق ” ميں امریکیوں کا فوجی ایڈونچر ایک ڈروآنے خواب میں بدلا اور یہآں بھی آخرکار امریکیوں کو اپنے سب سے بڑے ” دشمن ” ایران کا سہارا داعش کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لینا پڑا اور ایرانیوں سے تعاون کرنا پڑا
برادلی داعش اور دیگر تکفیری فاشسٹوں کے خلاف بشار الاسد کی کامیابیوں اور اس حوالے سے ایران ، روس کے وہآن پر بڑھتے ہوئے اثر کی ایک ” انتہائی پکچر ” بناکر مغرب کے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کی مضبوطی نے روس کو جدید ترین مزائل سسٹم اور جدید نیوی کے ساتھ ٹارٹس بندرگاہ کے زریعے سے یورپ کے دروازے پر لابٹھایا ہے اور اب اگر مستقبل قریب میں امریکہ نے بشار الاسد کے خلاف فوجی کاروائی کی تو یہ روس سے براہ راست جنگ بن جائیگی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ امریکہ بشار الاسد کی حکومت کا حاتمہ اس لئے چاہتا تھا کہ اس کے زریعے سے ایران کی سب سے مضبوط اتحادی تنظیم حزب اللہ سے اس کو نجات ملے گی
اور ایران کے مضبوط ٹھکانے ختم ہوں گے ، لیکن اوبامہ اور مغرب کی پالیسیوں اور حماقت نے الٹا بشار الاسد ، حزب اللہ کو مزید مضبوط کرڈالا ہے اور ایران سے ” ایٹمی پروگرام پر ڈیل ” کو بھی برادلی مغرب کی جانب سے اپنے مضبوط ترین اتحادی اسرائیل کو ” کنارے ” لگانے سے تعبیر کرتا ہے اور اسے ایک اور امریکی اور مغربی حماقت قرار دیتا ہے -مجھے برادلی بین السطور یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ مغرب اور امریکہ کو بشار الاسد کو روسی اور ایرانی کیمپ میں گرنے کی بجائے گود لے لینا چاہئیے تھا اور اپنے رجعت پسند اتحادی ” سعودی عرب ” کی ایران سے پراکسی وار کا حصّہ نہیں بننا چاہئیے تھا لیکن یہ ایک طرح سے زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے ایک یوٹوپیائی تصور سامنے لانے کی کوشش ہے برادلی کے مخصوص تعصبات سے بھرے تجزیے کی بجائے برطانوی وار رپورٹر رابرٹ فسک نے ڈیلی انڈی پینڈنٹ لندن میں اپنی تازہ رپورٹ میں کہیں زیادہ متوازن اور مثبت تبصرہ کیا ہے اس نے حال ہی میں ایک آرٹیکل
Russia now has troops on the ground in the fight against Isis
روسی زمینی فوجی دستے داعش کے خلاف لڑنے کے لئے اب شام میں موجود ہیں کے عنوان سے لکھی رپورٹ میں وہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن جائز طور پر مغرب اور امریکیوں کی شام پر پالیسی کو ناکام پالیسی قرار دیتا ہے اور اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا دعوی کرتا ہے اور زیادہ تفصیل سے بتاتا ہے کہ کیسے روسی فوجی زمینی دستے بشارالاسد اسد کے زیر کنٹرول شامی ساحلی پٹیوں کے گرد شہروں کی چیک پوسٹوں پر تعینات ہیں اور وہ روسی فوجی یونیفارم میں ملبوس ہیں اور شامی شہریوں سے اپنی شناخت چھپاتے نہیں ہیں اور روسی ڈرون روسی شام کے اندر بنے کنٹرول رومز سے کنٹرول کرتے ہیں اور جدید ترین جیٹ بمبار طیارے بھی ابھی روسی پائلٹ ہی چلارہے ہیں کیونکہ شامی پائلٹوں کو ان کو چلانے میں ابھی وقت لگے گا اور یہ بات حقیقت ہے کہ شام کے اندر اب اکثر سنّی ، شیعہ ، کرد ، علوی ، یہودی ، یزدی روسیوں ، ایرانیوں اور بشار الاسد کی فوجوں کو داعش کے خلاف اپنا ” نجات دہندہ ” خیال کرتے ہیں اور شام میں اکثر اب امریکیوں ، مغربی حکومتوں اور ان کے رجعت پسند اتحادی عرب بادشاہوں اور ترکی کے جعلی خلیفہ اعظم رجب طیب اردوغان کو ایک ولن کے طور پر دیکھا جارہا ہے
Source:
http://voiceofaamir.blogspot.com/2015/09/blog-post_28.html