دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فوج پر غیر ضروری تنقید – از عمار کاظمی
اگر آپ دشمن کے جنازے پر چلے جائیں اور میت کے پاس کھڑے ہو کر دشمن کی برائیوں اور کوتاہیوں کا قصہ چھیڑیں لیں تو وہ بھی چھوٹی بات ہی سمجھی جائے گی۔ ہمیشہ فوج کا نقاد رہا ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا لیکن آج کے واقعے پر ماضی کے حوالوں سے فوج پر تنقید دیکھ کر بعض روشن خیال دوستوں پر زندگی میں پہلی بار بہت افسوس ہوا۔ جب ہم فوج پر تنقید ہفتے کے سات دنوں میں چوبیس گھنٹے کرتے ہیں تو ہمیں موقعہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
مانا کہ ہماری فوج جتنا بجٹ لیتی ہے اتنی پروفیشنل نہیں، مانا کہ دہشت گردی کی گندگی کے پیچھے وردی ہی تھی مگر بات کرنے کا کوئی وقت، کوئی طریقہ کوئی اخلاقیات اور کوئی انسانیت ہوتی ہے۔ کل تک مجھ سمیت بہت سے دوسستوں کو یہ اعتراض تھا کہ فوج شمالی وزیرستاں میں آپریشن کیوں نہیں کرتی۔ زرداری صاحب نے مطالبہ کیا اور کیانی نہ مانا۔ آج میاں صاحب کی خواہش بر عکس آپریشن شروع ہوا تو ہم آج بھی معترض ہیں۔ پاکستان ک پینسٹھ سال کی تاریخ جانتے ہوئے بھی معترض ہیں۔ مانا کہ فوج کی ترجیحات آج بھی غلط ہیں لیکن سیاسی حکوت کیا کر رہی ہے؟
میاں صاحب دہشت گرد پیدا کرنے والے دو بڑے مدرسے تو بند کرنے کا حکم دیں؟ دیکھیں کہ فوج بات مانتی ہے یا نہیں، اگر نہیں مانتے تو بات زرداری کیانی معاملے کی طرح عوام کے سامنے تو آ جائے گی۔ تو سیاسی حکومت کو کیا موت ہے؟ جمہوریت کن لوگوں کی ہے، کس کے لیے ہے اور کس مرض کی دوا ہے؟ مانا کہ فوج کو اپنی پروفیشنل صلاحیتوں پر توجہ دینی چااہیے اور اپنی کاروباری سرگرمیاں محدود کرنی چاہئیں مگر یہ کیا جہالت ہے کہ ایک تین جوان اور ایک ستائیس اٹھائیس برس کا خوبرو افسر، کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی کا بھائی، کسی کا باپ شہید ہو گیا اور ہم یہاں اس سے یکجہتی دکھانے کی بجائے وہی روزانہ والی پرانی کیسٹ ڈال کر چلانے لگے؟
مانا کہ ہم تیسری دنیا کی تضادات سے بھری ریاست کے تیسرے درجے کے شہری وردی کی بدماشی کی وجہ سے ہی سمجھے جاتے ہیں، لیکن یہ کیسا تضاد ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے والے فوج کے خلاف دہشت گردی پر فوج ہی کے خلاف بات کر رہے ہیں؟ فوج اگر گزشتہ پینسٹھ برس میں پروفیشنل نہیں رہی تو سال دو سال مین اچانک کیسے پروفیسنل ہو جائے گی، اور اگر پروفیشنلازم مین کچھ کمی ہے تو کیا ہم انھیں مزید بد دل کرنا شروع کر دیں؟ مانا کہ کرپشن کا احتساب فوج کا کام نہیں، مانا کہ فوج کی سولین حکومتوں کی بدعنوانی کے احتساب کی خواہش ایک غیر دستوری فعل ہے، غلط ہے، غلط ہے، غلط ہے، یہ فوج کا کام نہیں، فوج خود پر لگے بد عنوانی کے داغ پہلے دھوئے پھر کسی سولین پر انگلی اٹھائے، لیکن یار ان شہدا کی شکلیں تو دیکھو جو دہشت گردوں سے لڑتے شہید ہوگئے، تو کیا فوج اگر پروفیشنل نہیں ہے تو فوج ہتھیار ڈال دے؟
اور کیا اس موقع پر ہم فوج پر تنقید کر کے دہشت گردوں کو درست ثابت کرنا چاہتے ہیں، زرا اسفند یار شہید کی جوان موت کو تو دیکھو۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعت اور کالعدم تنظیموں کے فرق کو سجھے، اپنی ترجیحات درست کرے، پنجاب میں بھی کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کرے لیکن ان سب باتون کا کوئی وقت ہوتا ہے میت کے سرہانے بیٹھ کر مرنے والے کے قنبے کے پروفیشنل ازم پر تنقید جس میں مرنے والا بھی شامل ہو یہ کسی طور بھی مہذب رویہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہر بات کی کوئی حد، کوئی وقت ہوتا ہے۔ اگر دہشت گردوں سے لڑتے فوجیوں کی میتوں پر تنقید کوئی فیشن یا روشن خیالی کا سرٹیفکیٹ ہے تو مجھے ایسی کسی سند کی ضرورت نہیں۔