بڈھ بیر فضائی بیس پر تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا حملہ سیکیورٹی اور انٹیلیجینس کی ناکامی ۔ خرم زکی

buddh bairScreen Shot 2015-09-19 at 00.43.17


آج پشاور بیس پر تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا ایک بار پھر کامیابی سے حملہ آور ہونا اور 23 ائیرفورس اہلکاروں سمیت 29 افراد کی شہادت جہاں سیکیورٹی اور انٹیلیجینس اداروں کی بہت بڑی ناکامی ہے وہیں یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ یہ جو بار بار دہشتگردی کی کمر توڑ دینے کی بات کی جاتی ہے اس میں مبالغے کا رنگ غالب ہے۔ آرمی پبلک اسکول میں 150 بچوں کی شہادت کے بعد یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ دہشتگرد اس طرح کا حملہ دوبارہ نہیں کر سکیں گے۔ فوجی، سیکیورٹی اور انٹیلیجینس ادارے اپنا وعدہ ایفاء کرنے میں ناکام رہے۔ کیا سیکیورٹی کی اس بڑی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا اور ان کے خلاف محمکہ جاتی کاروائی کی جائے گی ؟ تکفیری دیوبندی دہشتگرد جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، اپنی مرضی کے ہدف منتخب کر کے ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ہماری انٹیلیجینس ایجینسیز سو رہی ہیں ؟ پشاور تو پہلے ہی ایک انتہائی حساس علاقہ ہے اور پھر وہاں ملٹری بیس پر کامیابی سے حملہ آور ہو جانا ؟ دہشتگردوں کو مار دینا کون سئ کامیابی ہے وہ تو آئے ہی مرنے کے لیئے تھے۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ تکفیری دیوبندی طرز فکر ایک ناسور اور اس ملک کی سلامتی کے لیئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ جو لوگ آرمی پبلک اسکول کے سانحہ میں 150 بچوں کی شہادت کے بعد بھی اس طرز فکر کے خلاف بولنے سے جھجکتے ہیں ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیئے۔ کیا سراج الحق دیوبندی اس واقعہ کے بعد بھی طالبان کی، لشکر جھنگوی کی، کالعدم اہل سنت والجماعت کی مذمت کرنے کی جرات کرے گا ؟ نہیں۔ کیا جماعت اسلامی طالبان کی مذمت کرے گی ؟ نہیں۔ کیا آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ پشاور میں 150 بچوں کے قتل عام کے بعد بھی آج تک جماعت اسلامی نے تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور کالعدم اہل سنت والجماعت کی مذمت نہیں کی ہے ؟ بلکہ سراج الحق دیوبندی ان دہشتگردوں کو گلے لگاتا رہا ہے، ان کے ساتھ نمازیں پڑھتا رہا ہے۔

کیا وجہ ہے دائیں بازو کی یہ ساری شدت پسند مذہبی جماعتیں جو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا نام لے کر مذمت کرتی ہیں، ان کالعدم دہشتگرد گروہوں کے آگے بھیگی بلی کی طرح خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہ کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ کراچی کو بھی پشاور بنانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ سمیع الحق، سراج الحق دیوبندی، پروفیسر ابراہیم، مولوی عبد العزیز، اوریا مقبول جان جیسے شدت پسند دیوبندی نہیں جو طالبان کی حمایت میں سب سے آگے ہیں اور ان کی طرف سے مذاکرات کے لیئے پیش ہوتے رہے ہیں ؟ کیا عمران خان کا نام بھی طالبان ہی نے اپنی طرف سے مذاکرات کے لیئے پیش نہیں کیا تھا ؟ کیا یہ عمران خان ہی نہیں تھے جو طالبان سے مذاکرات اور ایم کیو ایم کو کرش کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں ؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ سیکیورٹی ادارے طالبان کے ان کھلے حمایتیوں، ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف کاروائی سے گریزاں ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے مدارس کا جو نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے اور جس کے حوالے سے خود وزیر داخلہ، ڈی جی رینجرز اور دیگر ذمہ دار آفیسرز یہ بات کر چکے ہیں کہ 10 فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف پولیس اور رینجرز ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کر رہی۔ لدھیانوی آزاد ہے، مینگل آزاد ہے، لاہوری زندہ ہے، فاروقی کیسز سے بری ہو رہا ہے، فضل اللہ ابھی تک زندہ ہے، عصمت اللہ معاویہ آزادی سے گھوم رہا ہے، مولوی عبد العزیز آزاد ہے بلکہ دارالحکومت کے عین وسط میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے نزدیک، سرکاری مسجد پر اس کا ۡقبضہ برقرار ہے، پھر کون سا ضرب عضب اور کون سا نیشنل ایکشن پلان ؟ ایک گروہ کی خواہش ہے کہ ملک کی لبرل سیکولر قوتیں کمزور اور دائیں بازو کی شدت پسند قوتیں طاقتور ہوں، کراچی سے پشاور تک ایک گروہ یہی کھیل کھیل رہا ہے اور جنرل راحیل شریف کے اس انتہاپسندی کے خاتمے کے لیئے اٹھائے جانے والےمثبت اقدامات کو کمزور کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروہ کو پیچھے دھکیلنے کی ضرورت ہے اور اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی ترجیحات صرف اور صرف دہشتگردی سے نمٹنا اور ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی کمر توڑنے تک محدود رہیں ورنہ تمام تر نعرے بازی اور بات بے بات شکریہ شکریہ کرنے کے باوجود دہشتگردی کا یہ نیٹ ورک کمزور نہیں پڑ سکے گا۔ ویسے کراچی میں نوے روز کے لیئے ایم کیو ایم کے عام کارکنوں کو نظربند کرنا آسان ہے اور ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں سے نمٹنا مشکل! کراچی میں ہڑتال رکوانے کے بجائے آرمی بیسز کی حفاظت پر توجہ کریں حضور۔

بڈھ بیڑ میں ہونے والا دہشتگرد حملہ ہم سب کو ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ ایپیکس کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کا اصل ہدف پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نہیں بلکہ کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت (سابقہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ) اور طالبان تھے۔ اور یہ حملہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ صولت مرزا کو تو پھانسی دے دی گئی اور بالکل صحیح دی گئی لیکن 3 فروری کے بعد سے کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ کے کسی دہشتگرد کو پھانسی نہیں دی گئی۔ مجھے معلوم ہے کہ تکفیری دہشتگردوں اور ان کے جماعتی اور انصافی ہمنواؤں کو میری یہ بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئے گی لیکن ہماری ذمہ داری حقائق بیان کرنا ہے لوگوں کو خوش کرنا نہیں۔

Sirajtakfiri2Takfiri

Comments

comments