شان تاثیر کی جانب سے مفتی نعیم کو بھرپور اور مدلل جواب – عامر حسینی
سلمان تاثیر شہید کے بیٹے شان تاثیر نے وہ کلمہ حق بلند کیا ہے جس کو بلند کرتے ہوئے( سلمان تاثیر شہید کے قاتل ممتاز قادری کو لیکر پورے بریلوی مکتبہ فکر کو دہشت گرد ثابت کرنے والے بعض کمرشل اور جعلی لبرل جو سلمان تاثیر شہید کے جھوٹے ہمدرد بنکر دکھاتے ہیں اور مکتبہ فکر دیوبند کے اندر موجود تکفیری دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کو اعتدال پسند بناکر پیش کرتے ہیں ) جعلی کمرشل لبرل گروہ کی ٹانگیں کانپتی اور سانس پھول جاتی ہے
شان تاثیر نے اپنے فیس بک سٹیٹس پر ٹی وی چینل 24 پر مجاہد بریلوی کے پروگرام میں جامعہ بنوریہ العالمی دارالعلوم کراچی کے صدر الشریعہ مفتی محمد نعیم کے بیان پر رد عمل دیا ہے
مفتی نعیم نے مجاہد بریلوی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ
مدارس میں سے طلباء و اساتذہ کو تربیت دیکر افغان جہاد کے لئے ریاست پاکستان نے روانہ کیا تھا
گویا مفتی نعیم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ” افغان وار ” سے دیوبندی اور سلفی مدارس سے طلباء و اساتذہ کی افغان جہاد پر جو روانگی شروع ہوئی اس کی ذمہ دار پاکستان کی ریاست ہے
یہ بات اس حد تک درست ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے جب امریکہ، یورپ کے ساتھ ملکر افغان وار میں شریک ہونے کا پروگرام بنایا تو اس نے سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں، ترکی، اردن، مصر، شمالی افریقہ سے آنے والے سلفی جہادیوں کے بیس کیمپ بھی خیبر پختون خوا، فاٹا اور بلوچستان میں قائم کئے اور افغان مہاجر کیمپ بھی تربیت کے لئے اڈوں کی شکل اختیار کرگئے اور پاکستان کے شہروں میں دیوبندی اور سلفی مدارس میں بھی کئی ایک عسکریت پسندوں کی تربیت گاہوں اور نام نہاد جہادی آئیڈیالوجی کے پھیلانے کا مرکز بنے
سلمان تاثیر نے بالکل درست لکھا ہے کہ 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے مولانا محمد یوسف بنوری کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چئیرمین مقرر کیا اور جامعہ بنوریہ اس زمانے سے ہی سعودی برانڈ امریکی فنڈڈ اور پاکستانی تزویراتی گہرائی پر عمل درآمد کا ایک ابھرتا ہوا مرکز بنکر سامنے آنا شروع ہوگیا اور یہی وہ دور ہے جس میں دیوبندی اور اہلحدیث ملائیت کا، جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کا اور پاکستانی سیاست میں نئے کردار کے ساتھ ابھرنے والی دائیں بازو کی صنعتی و تجارتی کلاس کا سعودی عرب سے ا فئیر شروع ہوگیا اور پاکستان کے اندر ” اعتدال پسند مذھبی رجحان ” کا خاتمہ ہوگیا اور اس کو بہت سے حلقے پاکستانی معاشرے کی سعودیانے کے پروجیکٹ کے آغاز کی دھائی بھی کہتے ہیں جبکہ کچھ اسے وھابائزیشن اور ریڈیکل دیوبندیزایشن بھی کہتے ہیں
معاملہ کچھ بھی اس جہادی پروجیکٹ اور اس کے بچن سے ہی دہشت گردی کا ظہور ہوا جس کی ذمہ داری اگر تزویراتی گہرائی کے خالقوں پر آتی ہے تو اس کے ذمہ دار خود جامعہ بنوریہ سمیت وہ مدارس بھی بنتے ہیں جنھوں نے آج تک جہادی پروجیکٹ کو سینے سے لگا رکھا ہے اور وہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں تکثریت اور صلح کلیت کے خلاف بارود سے جنگ کرنے کے حامی ہیں
جامعہ بنوریہ پاکستانی ریاست کی سب سے طاقت ور ھئیت مقتدرہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ اور زیادہ قریب اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی میں جہادی پراکسی میں اہم پراکسی اس وقت بننا شروع ہوا جب پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ افغانستان کے اندر ایک طرف تو پرانے افغان جہادی لیڈروں اور کمانڈرز کی من مانیوں سے مایوس ہوگئی اور اس نے حکمت یار کی حزب اسلامی کی جگہ دیوبندی مدراس کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کو دینے کا فیصلہ کیا اور اس دوران قندھار اور اس کے گردونواح میں ملا عمر سمیت کئی ایک افغان جنگ کے بظاہر دوسرے درجے کی قیادت کے الگ دھڑے اور تحریک کی شکل میں سامنے آنے کے واقعات ظہور پذیر ہوئے اور ان میں سے اکثر مجاہدین کا مدرسہ جاتی تعلق جامعہ بنوریہ اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تھا تو اس وقت مفتی نظام الدین شامزئی کی اہمیت بڑھ گئی اور یہ جامعہ بنوریہ ہی تھا جو دیوبند مکتبہ فکر میں ریڈیکل تکفیری عسکریت پسندی کے بڑے بیس کیمپ اور آئیڈیالوجیکل قبلے کی شکل اختیار کرگیا
سپاہ صحابہ پاکستان کا کراچی اور اندرون سندھ اور پھر خیبر پختون خوا اور قبائلی ایجنسیوں اور گلگت بلتستان و بلوچستان میں پھیلاو میں جامعہ بنوریہ کے اندر مفتی نظام الدین شامزئی اور ان کے تیار کئے گئے شاگردوں کا بہت بڑا ھاتھ ہے اور یہ مدرسہ ریڈیکل دیوبندی فرقہ پرست فاشزم کو پھیلانے میں سب سے اہم مرکز بنا
ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسی وار میں کشمیر میں بھی ایک یو ٹرن آیا اور وہ یو ٹرن تھا کی پرو جماعت اسلامی کشمیری جہادی تنظیم حزب المجاہدین کی جگہ دیوبندی پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کو آگے لیکر آنے کی اس کے لئے پہلے حرکت الانصار اور جب یہ تنظیم امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار پائی تو اس کی جگہ جیش محمد کو ملی
جیش محمد مسعود اظہر، اعظم طارق اور مفتی نظام الدین شامزئی کے درمیان بننے والی تثلیث کا عکس تھی اور یہ جہاد کشمیر میں پراکسی وار کے اندر باقاعدہ منظم طریقے سے سپاہ صحابہ کی شمولیت کا مرحلہ بھی تھا اور اسی جگہ سے تحریک طالبان میں بھی اسی تکفیری عنصر کے غلبے کا آغاز ہوا
جامعہ بنوریہ نے دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر تکفیری آئیڈیالوجی اور اس آئیڈیالوجی کے جہادی عسکریت پسندی کے ساتھ رشتے گہرے کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور نائن الیون کے بعد بہت دیر تک اس کے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان لو ا فئیر چلتا رہا ہے اور آج اس مدرسے کی ایڈمنسٹریشن دو طرفہ دباؤ کا شکار ہے – ایک دباو تو دیوبندی تکفیری دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیموں کا ہے اور دوسرا دباؤ ملٹری اسٹبلشمنٹ کا ہے اس لئے جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم پینڈولم کی طرح کبھی تکفیریوں کی طرف لڑھکتے ہیں تو کبھی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی طرف اور کبھی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو یاد دلاتے ہیں کہ کبھی ہم تم میں بھی قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نا یاد ہو اور کبھی وہ تکفیری قوتوں کو کہتے ہیں کہ وقت بدل چکا تو تم بھی بدلو لیکن جن دیوبندی نوجوانوں نے عالمی جہاد کے فریب کن تصورات میں تکفیری فوج کا پیدل سپاہی بننے کے لئے اپنا مستقبل تیاگ دیا ان کے لئے واپسی کی راہ نہیں رہی اور وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت نو کے تصور سے ہی نفرت کرتے ہیں ان کو سمجھانا اب مفتی نعیم جیسوں کے بس کی بات نہیں ہے
تکفیری فاشزم 75ہزار پاکستانیوں کی جان لے چکا اور اس کی ذمہ دار پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ میں تزویراتی گہرائی کے خالق ہی نہیں بلکہ تکفیری فاشزم کے ہمدرد اور حامی مفتی نعیم جیسے لوگ اور جامعہ بنوریہ کراچی جیسے مدارس بھی ہیں
شان تاثیر نے اپنے تجزیہ میں امریکہ اور یورپی سرمایہ دار طاقتوں کے کردار اور ان کی ذمہ داری پر بات نہیں کی جوکہ ان کو کرنی چاہئیے تھی مگر شاید یہ مقام ان کو مناسب نہیں لگا ہوگا لیکن پھر بھی شان تاثیر کا یہ سٹیٹس بہت طاقتور ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ شان تاثیر پاکستان میں مذھبی تکفیری فاشزم کے چہرے کو سعودی -ایران بائنری یا شیعہ -سنی بائنری کے عکس کے طور پر نہیں دیکھتے اور ان کا تجزیہ پاکستان میں امریکی کیمپ کے کئی تجزیہ کاروں سے کہیں بہتر ہے