ریحام خان کی سماجی زندگی اور سیکولر لبرل اور ملحد کی عدم برداشت – از عمار کاظمی

reham 2 2bv3

ریحام خان ایک عوامی شخصیت، سیلیبرٹی اور لبرل خاتون ہیں۔ ان کی ڈانس وڈیو ان کے پرانے ٹی وی شو کی تھی جسے سوشل میڈیا پر شئیر کرنا کوئی گناہ عظیم نہیں تھا۔ مگر کچھ روشن خیال دوستوں کو بھی اس کے شئیر کیے جانے پر ناراض دیکھا۔ میرا ماننا تھا کہ مشہور، عوامی اور لبرل شخصیات کی پبلک یا کمرشل فوٹیج بھی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔ اور چونکہ مزکورہ وڈیو ان کی کمرشل اور پبلک وڈیو تھی۔ لہذا اس کے سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے کا برا نہیں منانا چاہیے۔ اور اہم بات یہ کہ اس بنیاد پرست معاشرے میں تحریک انصاف اور خود ریحام خان کو اس کی شئیرنگ پر برا ماننے یا منافقت کی بجائے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے خوشی اور فخر سے قبول کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ پیچھے ہٹنے کی بجائے بنیاد پرستوں کی قید سے نکل کر آگے بڑھ سکے۔

خیر لوگوں کی ذہانت کہ وہ اس کمرشل وڈیو کو ریحام خان کی ماضی کی وڈیو اور ذاتی زندگی میں مداخلت تعبیر کرتے رہے۔ یعنی یہ ایسا ہی تھا کہ جیسے جنید جمشید کے آج کے چاہنے والے اس کے کل کے فین کلب کی طرف سے اس کی “سانولی سلونی محبوبہ” والی وڈیو شئیر کرنے کو اس کی ذاتی زندگی میں مداخلت اور حملہ بتانے لگیں۔ بہر حال دوسرے لوگوں پر تو مجھے کچھ تعجب نہ ہوا مگر وجاہت مسعود اور قمر راجپوت کے لبرل سیکولر تصورات اور خاص طور پر قمر راجپوت دانہ جو لبرل سیکولر کے ساتھ خود کو اعلانیہ ملحد بھی کہتے ہیں کی سوچ پر انتہائی حیرت ہوئی کہ وہ بھی اس وڈیو کے شئیر کیے جانے پر انتہائی معترض، ناراض اور غصے میں نظر آئے۔

بہر حال ایک دوست کی طرف سے وڈیو شئیر کیے جانے کے چند روز بعد میں نے مزاح کے طور پر سور کے گوشت اور پاکستانی ملحدین کے رویوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ مختصر تحریر پوسٹ کی کہ پاکستانی ملحد اپنی تمام تر ملحدیت کے باوجود سور کھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ یعنی حرام حلال کا تصور ذہنوں میں ایسے گندھا ہوا ہے کہ نکال نہیں سکتے۔ کہتے ہیں گھن آتی ہے ورنہ کھا تو لیں۔ ایک دوسرے بھائی جان جو ہر وقت ملحدیت کی تعرفیں بیان کرتے تھکتے نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ بچپن کی باتیں کچھ اس طرح ذہن پر حاوی ہیں کہ چاہ کر بھی آج تک سور نہیں کھا سکا۔

بھائی یہ کونسی مشکل بات ہے؟ بیگم کو کہیے کسی دن بغیر بتائے آپ کو سور تکہ، سور سیخ کباب، بھنا ہوا سور، سور کڑاھی، سور ہانڈی، سور کنہ گوشت، سور مدراسی ہانڈی، سور سری پائے پکا کر کھلا دے۔ حرام حلال کا تصور ہی تو ہے جو شراب کے ساتھ بھی جڑا ہے اور وہ آپ ہر وقت پیتے ہیں۔ سور کا گوشت کھانے سے کونسا پیٹ سُول ہو جاتا ہے؟ اور اگر بیگم پکا کر نہیں دیتی تو پاکستان تشریف لے آیے اور بلا تفریق بہت سارے ڈھابوں اور متوسط درجہ کے ہوٹلوں سے کھانے کھا کر دل کو تسلی دے لیجیے کہ کہیں تو سور کھایا ہی ہوگا”۔

اس تحریر کو پڑھ کر قمر راجپوت دانہ جو اپنی عام زندگی میں ملحدین کے بھی مفتی نظر آتے ہیں وہ اس پر بحث میں داخل ہوئے۔ بار بار ذاتی حملوں کا جھوٹا طعنہ دیتے دیتے انھوں نے بہت سارے جارحانہ ذاتی حملے کر ڈالے۔ مجھے چھوٹا، جھوٹا، منافق، کم عقل اور بنیاد پرست ثابت کرنے کی کوشش کی، مگر میں نے ہر بار محض مزاح کے ساتھ دلیل سے ہی جواب دینے پر ہی اکتفا کیا اور ان کی کسی بات کا برا نہ منایا۔[ثبوت کے لیے میری فیس بک کی ٹائم لائن حاضر ہے] مگر حضرت مفتی اعظم ملحدین و لبرلز غصے میں سوشل میڈیا کی دوستی بھی ختم کر گئے۔ جس کا مجھے بہر حال اب کوئی افسوس نہیں۔

مگر سوچتا ہوں کہ جو ملحد ایمان والوں کے سامنے دن میں دو سو مرتبہ مذہب اور مذہبی لوگوں کا مزاق بناتا ہے، بات بات پر مذہب اور مذہبی شخصیات کو کوسنے دیتا ہے، اس کی اپنی برداشت کا پیمانہ کیا ہوتا ہے؟ دین داروں کو دلیل سے بھگا کر ٹھٹھے لگانے والا شاید اس لیے ہمیشہ اونچا رہتا ہے کہ وہ خود بہت کم رسیونگ اینڈ پر ہوتا ہے۔ آسان لفظوں میں کہوں تو سوال کرنا ہمیشہ ہی جواب دینے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ایمان والوں اور ملحدین کی بحث میں اکثر ملحد سوال کرنے والی جگہ پر اور مذہبی لوگ جواب دینے والی جگہ کھڑے ہوتے ہیں۔

لہذا ملحدین کے لیے یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیت پر چند توہین آمیز جملے کہہ کر اسے پہلے غصہ دلایا اور پھر جب وہ غصے میں آیا تو اسے جھوٹا ثابت کر دیا۔ اور کہا کہ دیکھو اب اس کے پاس دلیل کا جواب نہیں تھا تو یہ گالیوں پر اتر آیا۔ تو یوں مذہبی لوگ کمزور مقام یعنی رسیونگ اینڈ پر کھڑے ہونے اور عدم برداشت کی وجہ سے ملحدین کے سامنے اکثر ہی ہارے ہارے نظر آتے ہیں۔ جواب دہ کی حیثیت سے کسی جید مذہبی عالم کو پچھاڑنے کے لیے شاید ایک اوسط درجہ کی ذہانت کا ملحد بھی کافی ہوتا ہے۔ بہر حال میں دونوں میں سے کسی کا وکیل یا حمایتی نہیں ہوں محض مشاہدے کی بنیاد پر تجزیہ بیان کر رہا ہوں جس سے بہر حال دونوں فریق اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں۔

کوئی سال ایک پہلے سندھ طاس معاہدے کے خلاف ایک آرٹیکل لکھا جو وجاہت مسعود کو بہت برا لگا۔ انھوں نے اس پر کمینٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان ہندوستان میں ایک ہی معاہدہ ایسا ہے جو فریقین کی طرف سے غیر متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کا نقطہ نظر میں شاید درست ہو مگر میرے لیے وہ معاہدہ انسانی حقوق کے ساتھ جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کی بھی بد ترین مثال ہے۔

اور دنیا میں ایسی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی جہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں کے پینے کا پانی بھی بند کر دیا گیا ہو۔ اس کی تفصیل میں بہت سارے دلائل پیش کر چکا ہوں اور مزید بھی کر سکتا ہوں لیکن یہاں اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ یہاں صرف وہی بیان کرنا چاہتا ہوں جو اوپر لکھا۔ یعی لبرل سیکولر سمجھے جانے والے لوگوں کی برداشت کا پیمانہ۔ وجاہت سے اس پر کوئی لمبی بحث قطعی نہیں ہوئی اس کے سوا کہ میں نے جواب میں لکھا کہ یہ میرا نقطہ نظر ہے اور اگر وہ اسے دلیل سے غلط ثابت کر دیں تو مجھے اپنا موقف بدلنے میں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

ویسے بھی وجاہت مسعود میرے اچھے دوست رہے ہیں، ان سے میں نے کافی سیکھا بھی ہے اور ہم بہت سارے معاملات شاید نوے سے پچانوے فیصد نظریات میں بھی ہم خیال ہیں، تو ان کی کسی بات کا برا ماننے یا ان کا موقف درست ثابت ہونے کی صورت میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے کسی شرمندگی کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور وجاہت مسعود محض اس بنیاد پر دوستی چھوڑ گئے کہ میں نے ان کی بات کو دلیل کے بغیر من و عن یعنی مذہبی لوگوں کی طرح آنکھیں بند کر کے قبول نہیں کیا تھا۔

میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میری ہی ہر بات ہر دلیل درست ہوگی مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرا بیانیہ اور نقطہ نظر کبھی کسی بنیاد پرست یا مذہبی خیالات کے حامل ذہن سے مشابہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ میں آزاد خیالی میں ان احباب سے بھی بعض معاملات میں دو چار قدم آگے ہی نکل جاوں۔ تو اگر میرے جیسے نظریات کے حامل شخص کے لیے بھی ان کے پاس برداشت کا کوئی پیمانہ نہیں تو پھر یہ بنیاد پرست معاشرے کا کیا بگاڑ لیں گے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad Irfan
    -
  2. muhammad nawaz
    -