شجاع خانزادہ پر حملے میں ملوث لشکر جھنگوی کے دہشت گرد رانا ثنا اللہ کے گھر کے قریب سے گرفتار

11224095_941636802562384_4465914147596527290_n

صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ سمیت 18 افراد کو خود کش حملے میں شہید کرنے والے خود کش حملہ کرنے کے لئے بھیجنے والوں کا سراغ لگانے کا دعوی کیا ہے اور اس دعوے کے مطابق پنجاب کے صوبائی وزین داخلہ سمیت 18 افراد کی اٹک کے گاؤں شادی خیل میں شہادت کا زمہ دار اور ماسٹر مائینڈ لشکر جھنگوی پنجاب کا سربراہ دیوبندی تکفیری ندیم انقلابی نام کا آدمی ہے اور روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وہ افغانستان میں روپوش ہے جبکہ اس کے سات مبینہ دھشت گرد ساتھی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سے گرفتار ہوئے ہیں اور ان دھشت گردوں کا سرغنہ شعیب چیمہ سیکورٹی ایجنسیوں کو پہلے ہی سے کئی وارداتوں میں مطلوب تھا

اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ سات مبینہ لشکر جھنگوی کے دھشت گرد ان تیرہ یا سولہ دھشت گردوں ميں سے ایک ہیں جن کے بارے میں انسداد دھشت گردی ڈیپارٹمنٹ پنجاب کا کہنا یہ ہے کہ وہ لشکر جھنگوی اور القائدہ کے رکن ہیں اور ان کا بنیادی ہدف پنجاب میں دھشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے افسران کے خلاف کاروائی ہے یا یہ مبینہ سات دھشت گرد اور ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس وقت پنجاب میں بھی دھشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ان تکفیری خارجی دھشت گردوں سے ہے جو دیوبند مکتبہ فکر سے ایک طاقتور رجحان کے طور پر ابھرے ہیں

روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار اور ایکسپریس نیوز چینل کے اینکر جاوید چودھری نے اپنے تازہ کالم میں یہ انکشاف کیا کہ اکوڑہ خٹک میں واقع عمروف دیوبندی مدرسے حامعہ حقانیہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک پر اس دارالعلوم کے ایک استاد جس کا طالبان سے گہرا رابطہ تھا ، اپنے ساتھیوں سمیت اس مدرسہ پر قبضہ کرلیا تھا اور آئی ایس آئی و فوج نے وہ قبضہ واگزار کرایا تب مولوی سمیع الحق جو خود کو ملّا عمر سمیت ” طالبان کا استاد ” کہتے ہیں اس مدرسہ میں دوبارہ جانے کے قابل ہوئے تھے

gdgdgd

اس انکشاف سے یہ بات بالکل ٹھیک ثابت ہوتی ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی کئی ایک مساجد ، مدارس ، تنظیموں کو دیوبند سے اٹھنے والے تکفیری ، خارجی رجحان نے یرغمال بنالیا ہے اور یہ دیوبندی تکفیری دھشت گرد اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں کہ دیوبند کے ایک معروف اور بڑے مدرسہ پر قبضہ جماکر بیٹھ گئے ، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آحر ایسی نوبت آئی کیوں ہے ؟

ہم نے بارہا اپنی تحریروں اور پوسٹ میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی مذھبی قیادت بار بار کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے اور بار بار اس کے موقف میں ابہام نظر آتا ہے جب کبھی اسے اپنے اندر سے اٹھنے والے ” تکفیری اور خارجی رجحان اور اس کی تباہ کاریوں ” کے سوال سے معاملہ کرنا پڑتا ہے- بسا اوقات تو دیوبندی دہشت گردوں کی دہشت گردی کو دیوبندی مکتبہ  فکر کی جانب سے بھرپور حمایت اور بعض اوقات خاموش حمایت بھی فراہم کی جاتی ہے –

ابھی تک ” دیوبند مکتبہ فکر ” کے مدارس کی تنظیم وفاق المدارس کی قیادت کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات سے ہی انکاری ہے کہ ان کے مدارس میں کئی ایک مدارس کی انتظامیہ ، مدرس ، طلباء کا رجحان تکفیریت و خارجیت کی جانب ہوچکا ہے اور وہ نظریاتی طور پر پاکستان کی فوج ، پولیس ، سویلین و ملٹری حکام ، عام شہریوں اور غیر دیوبندی مذھبی مسالک اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف دھشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے فعل کو ” جہاد ” خیال کرتے ہیں

اور کم و بیش یہی ” انکار ” کی کیفیت اور تکفیری و خارجی رجحان سے ہمدردی کا عکس ہمیں دیوبندی سیاسی و مذھبی تنظیموں میں نظر آتا ہے اور یہ طاقتور رجحان ہے جس کا تدارک کسی اور نے نہیں بلکہ دیوبندی مکتبہ فکر کی مذھبی قیادت نے ہی کرنا ہے اور اس کے لئے دیوبندی مدارس کی تنظیم ” وفاق المدارس ” کو اپنے مدارس و مساجد کے اندر فتنہ تکفیر و خارجیت ” کے خلاف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی

تعمیر پاکستان نے اس سے قبل بھی کہا اور اب بھی کہتا ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کو ” آل سعود اور وہابیت ” کے ساتھ اپنی سٹریٹجک شراکت داری پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ اس سٹریٹجک شراکت داری نے ایک طرف تو اس کے دوسرے مسالک و مذاہب کے ساتھ تعلقات بہت خراب کردئے ہیں ، دوسرا اس کا خود اس کی اپنی نوجوان دیوبندی نسل کو بہت نقصان ہوا ہے

رانا ثنا اللہ جو دہشت گردوں کے ہمدرد اور سرپرست ہیں ان کے گھر کے قریب سے اتنے بڑی دہشت گردی کے سانحے میں ملوث دہشت گردوں کا گرفتار ہونا کچھ اور ہی روداد سنا رہا ہے – رانا ثنا اللہ کی ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد شجاع خانزادہ سے ہونے والی تلخ کلامی بھی ریکارڈ پر ہے – سانحہ اٹک پر ہمارا مطالبہ ہے کہ رانا ثنا اللہ کو بھی اس مقدمے کی تفتیش میں شامل کر کے دہشت گردوں اور رانا ثنا اللہ کے مابین تعلقات کی بھی تحقیق کی جانی چاہیے

شجاع خانزادہ کی سیکورٹی تفصیلات دہشت گردوں تک کیسے پہنچی ؟ ریکی میں کس کس نے کیسے مدد کی ؟ شجاع خانزادہ کی نقل و حرکت اور باقی تفصیلات کو دہشت گردوں تک کیسے پہنچایا گیا ؟ ان تمام سوالوں کے جواب شاید رانا ثنا اللہ ہی دے سکے

sana ullah

Comments

comments