شجاع خانزادہ پر حملے میں ملوث لشکر جھنگوی کے دہشت گرد رانا ثنا اللہ کے گھر کے قریب سے گرفتار
صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ سمیت 18 افراد کو خود کش حملے میں شہید کرنے والے خود کش حملہ کرنے کے لئے بھیجنے والوں کا سراغ لگانے کا دعوی کیا ہے اور اس دعوے کے مطابق پنجاب کے صوبائی وزین داخلہ سمیت 18 افراد کی اٹک کے گاؤں شادی خیل میں شہادت کا زمہ دار اور ماسٹر مائینڈ لشکر جھنگوی پنجاب کا سربراہ دیوبندی تکفیری ندیم انقلابی نام کا آدمی ہے اور روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وہ افغانستان میں روپوش ہے جبکہ اس کے سات مبینہ دھشت گرد ساتھی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سے گرفتار ہوئے ہیں اور ان دھشت گردوں کا سرغنہ شعیب چیمہ سیکورٹی ایجنسیوں کو پہلے ہی سے کئی وارداتوں میں مطلوب تھا
اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ سات مبینہ لشکر جھنگوی کے دھشت گرد ان تیرہ یا سولہ دھشت گردوں ميں سے ایک ہیں جن کے بارے میں انسداد دھشت گردی ڈیپارٹمنٹ پنجاب کا کہنا یہ ہے کہ وہ لشکر جھنگوی اور القائدہ کے رکن ہیں اور ان کا بنیادی ہدف پنجاب میں دھشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے افسران کے خلاف کاروائی ہے یا یہ مبینہ سات دھشت گرد اور ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس وقت پنجاب میں بھی دھشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ان تکفیری خارجی دھشت گردوں سے ہے جو دیوبند مکتبہ فکر سے ایک طاقتور رجحان کے طور پر ابھرے ہیں
روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار اور ایکسپریس نیوز چینل کے اینکر جاوید چودھری نے اپنے تازہ کالم میں یہ انکشاف کیا کہ اکوڑہ خٹک میں واقع عمروف دیوبندی مدرسے حامعہ حقانیہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک پر اس دارالعلوم کے ایک استاد جس کا طالبان سے گہرا رابطہ تھا ، اپنے ساتھیوں سمیت اس مدرسہ پر قبضہ کرلیا تھا اور آئی ایس آئی و فوج نے وہ قبضہ واگزار کرایا تب مولوی سمیع الحق جو خود کو ملّا عمر سمیت ” طالبان کا استاد ” کہتے ہیں اس مدرسہ میں دوبارہ جانے کے قابل ہوئے تھے
اس انکشاف سے یہ بات بالکل ٹھیک ثابت ہوتی ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی کئی ایک مساجد ، مدارس ، تنظیموں کو دیوبند سے اٹھنے والے تکفیری ، خارجی رجحان نے یرغمال بنالیا ہے اور یہ دیوبندی تکفیری دھشت گرد اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں کہ دیوبند کے ایک معروف اور بڑے مدرسہ پر قبضہ جماکر بیٹھ گئے ، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آحر ایسی نوبت آئی کیوں ہے ؟
ہم نے بارہا اپنی تحریروں اور پوسٹ میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی مذھبی قیادت بار بار کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے اور بار بار اس کے موقف میں ابہام نظر آتا ہے جب کبھی اسے اپنے اندر سے اٹھنے والے ” تکفیری اور خارجی رجحان اور اس کی تباہ کاریوں ” کے سوال سے معاملہ کرنا پڑتا ہے- بسا اوقات تو دیوبندی دہشت گردوں کی دہشت گردی کو دیوبندی مکتبہ فکر کی جانب سے بھرپور حمایت اور بعض اوقات خاموش حمایت بھی فراہم کی جاتی ہے –
ابھی تک ” دیوبند مکتبہ فکر ” کے مدارس کی تنظیم وفاق المدارس کی قیادت کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات سے ہی انکاری ہے کہ ان کے مدارس میں کئی ایک مدارس کی انتظامیہ ، مدرس ، طلباء کا رجحان تکفیریت و خارجیت کی جانب ہوچکا ہے اور وہ نظریاتی طور پر پاکستان کی فوج ، پولیس ، سویلین و ملٹری حکام ، عام شہریوں اور غیر دیوبندی مذھبی مسالک اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف دھشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے فعل کو ” جہاد ” خیال کرتے ہیں
اور کم و بیش یہی ” انکار ” کی کیفیت اور تکفیری و خارجی رجحان سے ہمدردی کا عکس ہمیں دیوبندی سیاسی و مذھبی تنظیموں میں نظر آتا ہے اور یہ طاقتور رجحان ہے جس کا تدارک کسی اور نے نہیں بلکہ دیوبندی مکتبہ فکر کی مذھبی قیادت نے ہی کرنا ہے اور اس کے لئے دیوبندی مدارس کی تنظیم ” وفاق المدارس ” کو اپنے مدارس و مساجد کے اندر فتنہ تکفیر و خارجیت ” کے خلاف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی
تعمیر پاکستان نے اس سے قبل بھی کہا اور اب بھی کہتا ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کو ” آل سعود اور وہابیت ” کے ساتھ اپنی سٹریٹجک شراکت داری پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ اس سٹریٹجک شراکت داری نے ایک طرف تو اس کے دوسرے مسالک و مذاہب کے ساتھ تعلقات بہت خراب کردئے ہیں ، دوسرا اس کا خود اس کی اپنی نوجوان دیوبندی نسل کو بہت نقصان ہوا ہے
رانا ثنا اللہ جو دہشت گردوں کے ہمدرد اور سرپرست ہیں ان کے گھر کے قریب سے اتنے بڑی دہشت گردی کے سانحے میں ملوث دہشت گردوں کا گرفتار ہونا کچھ اور ہی روداد سنا رہا ہے – رانا ثنا اللہ کی ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد شجاع خانزادہ سے ہونے والی تلخ کلامی بھی ریکارڈ پر ہے – سانحہ اٹک پر ہمارا مطالبہ ہے کہ رانا ثنا اللہ کو بھی اس مقدمے کی تفتیش میں شامل کر کے دہشت گردوں اور رانا ثنا اللہ کے مابین تعلقات کی بھی تحقیق کی جانی چاہیے
شجاع خانزادہ کی سیکورٹی تفصیلات دہشت گردوں تک کیسے پہنچی ؟ ریکی میں کس کس نے کیسے مدد کی ؟ شجاع خانزادہ کی نقل و حرکت اور باقی تفصیلات کو دہشت گردوں تک کیسے پہنچایا گیا ؟ ان تمام سوالوں کے جواب شاید رانا ثنا اللہ ہی دے سکے