توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمات ذاتی عناد اور بد نیتی پر مبنی ہیں
گوجرہ میں مسیحوں کی آبادی جلانے کا واقعہ ہو یا لاہور کی جوزف کالونی پر تکفیری دہشت گردوں کا حملہ ، رمشا مسیح کا کیس ہو یا ساون مسیح کا معاملہ ، ہر جگہ توہین رسالت کارڈ کا استعمال کر کے مسیحوں پر ظلم و ستم کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے – قصور کے نواح میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کے بعد بھی توہین رسالت کے الزام لگا کر اس وحشت کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گیی –
آسیہ بی بی کا معاملہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کیسے اس پر جھوٹا الزام لگا کر مقدمہ بنایا گیا اور اس کے حق کے لئے آواز اٹھانے پر گورنر سلمان تاثیر اور مسیحی وزیر شہباز بھٹی اپنی جان سے گیے – اور اب عدالت نے بھی اس معاملے میں آسیہ بی بی کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ دے دیا ہے –
پاکستان میں توہین رسالت کے مقدمات تکفیری دیوبندی غلبے کی کوششوں کی ایک کڑی ہیں – جس میں باقی طبقات کو کمزور کرنے کے لئے یہ حربے اپناے جاتے ہیں – کیا لاہور اور پشاور چرچ میں بھی توہین رسالت ہوتی تھی جو انہیں خود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا؟ یہ دیوبندی مافیا کی سازش ہے کہ اپنی دہشت گردی کو مذہبی لبادہ پہنا کر جائز قرار دیا جائے –
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں اٹھانوے فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی مقدسات کی توہین کرنے کا سوچ سکتا ہے؟کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ غیر مسلم پاکستانی جنہوں نے ہمیشہ اس ملک کی خدمات کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی ، ہمیشہ اس ملک کے لئے قربانیاں دی وہ کچھ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمات جھوٹ اور بعد نیتی پر مبنی ہیں اور ذاتی جھگڑوں کو بنیاد بنا کر دائر کے جاتے ہیں
تعمیر پاکستان اس معاملے پر اپنے مسیحی بھائیوں کے ساتھ ہے اور ہم ان کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے –