اداریہ صدائے اہل سنت: سلیم صافی، ملا عمر کی موت پر گریہ کناں، آپ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟
ملّا محمد عمر خود ساختہ امارت اسلامیہ افغانستان کے سربراہ ملّا محمد عمر کی وفات بارے طالبان کی مرکزی سیاسی شوری نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا انتقال افغانستان کے ایک نواحی گاؤں میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا ، امارت اسلامی افغانستان کی جو سرکاری ویب سائٹ ہے اس پر نہ تو یہ بتایا گیا کہ کتنا عرصہ پہلے ملّا عمر کی وفات ہوئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ملّا عمر کی غیر موجودگی مين ان کے نام سے احکامات آیا ایک شخص جاری کررہا تھا یا اجتماعی طور پر مشاورت کے بعد احکامات جاری کئے جاتے تھے لیکن ملّا عمر کے بعد جو میڈیا میں خبریں آئی ہیں ان کے مطابق 200 سے زائد طالبان رہنماؤں نے ملاّ اختر منصور کو امیر اور حقانی گروپ کے اس وقت سربراہ سراج حقانی اور طالبان کے قاضی القضاۃ اخوندزادہ ہیبت اللہ خان کو نائبین امیر ملّا اختر منصور منتخب کرلیا گیا اور میڈیا نے یہ خبر دی کہ ملّا عمر کے بیٹے ملّا یعقوب امارت کے خواہش مند تھے لیکن ان کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باعث ان کو امیر منتخب نہیں کیا گیا ، افغان امارت اسلامی کی ویب سائٹ نے یہ بھی نہیں بتلایا کہ ملّا اختر منصور کو حال ہی میں امیر طالبان منتخب کیا گیا یا ملّا عمر کی وفات کے فوری بعد کرلیا گیا تھا اور اعلان اب کیا گیا ہے ، نہ ہی یہ واضح کیا گیا کہ افغان طالبان نے اگر ملّا اختر منصور کو ملّا عمر کی وفات کے بعد فوری طور پر امیر مقرر نہیں کیا گیا تھا تو امارت کو چلایا کیسے جارہا تھا ؟ ابتک آنے والی خبروں سے یہ پتہ چلا ہے کہ ملّا اختر منصور کی امارت پر چند طالبان رہنماؤں کو اعتراض ہے ، یہ رہنماء کون ہیں تو اس حوالے سے بتک ملّا عمر کے بیٹے ملّا یعقوب ، ہلمند صوبہ میں طالبان کے کمانڈر عبدالقیوم زاکر جوکہ سخت گیر خیال کئے جاتے ہیں اور امن بات چیت کے مخالف ہیں
سلیم صافی کا ایک آرٹیکل ” آہ ملّا عمر ” کے نام سے شایع ہوا ہے ، اس آرٹیکل میں ملّا عمر کی تعریف کرتے ہوئے سلیم صافی نے ہمارے اٹھائے ہوئے سوالات کو اٹھانے اور ان کے جوابات صحافتی تحقیق سے تلاش کرنے کی بجآئے ک افواہوں پر انحصار کیا ہے
ایک افواہ جسے انھوں نے حقیقت کا رنگ دیا کہ افغان طالبان کے اندر بہت واضح تقسیم پیدا ہوئی ہے ، جس میں ایک طرف تو ملّا منصور ہیں جن کے بارے مین انھوں نے بنا کسی ثبوت کے یہ کہا کہ ان کی امارت کا اعلان دو ، چار طالبان رہنماؤں نے کیا ہے ، جبکہ دوسری طرف ان کی مخالفت مين طالبان کے کثیر رہنماء کھڑے ہیں جبکہ میڈیا کی خبروں ميں اکثریت ملّا اختر منصور کے ساتھ بتلائی گئی اور کہا گیا کہ ملّا اختر منصور کو امیر بنائے جانے پر بائیکاٹ کرکے جانے والے ملّا یعقوب کے ساتھ صرف مولوی عبدالقیوم زاکر گئے اور بعد میں یہ بھی واپس آگئے اور یہ بھی بات ذھن نشین رہنی چاہئیے کہ افغانستان میں داعش کی بنیاد رکھنے والے طالبانی کمانڈرز اکثریت ميں نہيں چند ایک گئے اور داعش کا مستقبل افغانستان کے اندر امریکی ڈرون حملے میں داعش کے امیر کی ہلاکت سے ویسے ہی تاریک ہوگیا ہے
افغانستان کے ملّا عمر کے بعد ملّا اختر منصور کو اعتدال پسند اور عملیت پسند امیر قرار دیا جارہا ہے اور مری میں جو مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہوئے ان کو ممکن بنانے میں ملّا اختر منصور کا ہاتھ اور پاکستان سے ملّا اختر منصور ، سراج حقانی سمیت کئی عملیت پسند طالبان کے تعاون کا نتیجہ ہے ، گویا اگر ہم افغان طالبان کی موجودہ قیادت کو دیکھیں تو وہ پاکستان کے ساتھ ذھنی طور پر ہم آہنگ نظر آتی ہے اور پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت یعنی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نئی طالبان قیادت ، افغان حکومت کے ساتھ ملکر امن ڈیل کے خواہش مند ہیں اور افغانستان میں اس ڈیل کے نتیجہ میں امن لانے کے خواہاں ہیں
ایسی اطلاعات بھی سامنے ہیں کہ جب پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو افغان طالبان سے لشکر جھنگوی نے پاکستان کے اندر حملوں کے لئے لاجسٹک سپورٹ مانگی جسے طالبان کی قیادت نے مسترد کیا اور یہی وجہ تھی کہ تکفیری گروپ القائدہ ، داعش وغیرہ کی جانب مائل نظر آئے ، افغان طالبان کی قیادت نے انتہائی خاموشی کے ساتھ پاکستان کے اندر برسرپیکار تکفیری دھشت گرد گروپوں بشمول تحریک طالبان پاکستان کے مولوی فضل اللہ گروپ علیحدگی اختیار کی اور اس الگ ہونے کے سیٹ اپ نے بھی تکفیری خارجی دھشت گردوں کو پاکستان کے اندر بہت نقصان پہنچایا
سلیم صافی کا کالم پڑھ ليجئے ، اسے پڑھنے سے ایک تاثر تو یہ جنم لیتا ہے جیسے کہ ان کی ہمدردیاں ملّا عمر کے صاحبزادے مولوی یعقوب اور مولوی عبدالقیوم زاکر کمانڈر ہلمند کے ساتھ ہیں اور اس کالم کے اندر بین السطور انھوں نے ملّا اختر منصور کو تحریک طالبان پاکستان کے لئے ” بروٹس ” بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ملّا محمد عمر امارت اسلامی افغانستان کے امیر ہزاروں علماء کی موجودگی ميں بنے تھے جبکہ ملّا اختر منصور کے لئے یہ اجتماع ناممکن ہوگا ، لیکن سلیم صافی یہ بھول جاتے ہیں کہ جب طالبان تحریک کا آغاز قندھار سے ہوا تھا تو ملّا عمر نے اپنے آپ کو امیر کے لئے ہزاروں علماء کے سامنے پیش نہیں کیا تھا بلکہ جب کابل ان کے ہاتھ آگیا تو پہلے وہ امیر بنے اور بعد میں بیعت عام کی گئی تھی اور اس میں بھی صرف طالبان سے اتفاق رکھنے والے عالم ہی شریک ہوئے تھے اور یہ افغانستان پر سوائے پنج شیر وادی کے پوری طرح سے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ہوا تھا ، اب نائن الیون کے بعد کابل سمیت اکثر افغانستان طالبان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور افغان طالبان گزشتہ کئی سالوں سے گوریلا جنگ لڑرہے ہیں اور ایسے میں ملّا اختر منصور کی پوزیشن وہی ہے جو ملّا عمر کی کابل پر قبضے سے پہلے تھی ،
سلیم صافی اپنے اس آرٹیکل میں اس امر کو بھی ابہام کے پردے میں رکھ گئے کہ کابل پر طالبان کا قبضہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بھرپور تزویراتی تعاون اور پاکستان کی سویلین حکومتوں کی مرضی سے ہوا تھا اور اس میں تعاون سعودی عرب ، کویت ، وغیرہ نے بھی کیا تھا اور امریکی سی آئی اے نے بھی اس وقت کابل میں طالبان کی حکومت کو افغانستان کے استحکام کے لئے بہتر خیال کیا تھا، طالبان تحریک وقت کزرنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان مزاحمت نہیں رہی تھی بلکہ اس کے اندر مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے عالمی جہادی شامل ہوتے رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان بنیادی طور پر دیوبندی حنفی پلس سلفی جہادی آئیڈیالوجی کا ایک رجحان بنکر سامنے آیا تھا اور وقت کزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان رجیم بہت زیادہ شدت پسند ، فرقہ پرست اور اینٹی شیعہ ، صوفی سنّی ، اسماعیلی ہوتا چلا گیا تھا اور پاکستان کے تکفیری ملّاؤں کا بڑھتا ہوا اثر طالبان تحریک کو بہت زیادہ مسخ کرگیا تھا اور ایک زمانے ميں تو یوں لگنے لگا تھا جیسے طالبان امارت اسامہ بن لادن کے ہاتھوں یرغمال بنکر رہ گئی ہے لیکن افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ملّا عمر کی قیادت میں افغان طالبان کی طویل گوریلا وار کے دوران غیر محسوس طریقے سے تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ایک تبدیلی افغان طالبان کا اپنے آپ کو عرب تکفیری سلفی دھشت گردوں سے فاصلے پر رکھنا شروع کیا اور تحریک طالبان پاکستان سے بھی اس کے رشتے بتدریج نظر سے غائب ہوتے نظر آنے لگے ، آج کی طالبان قیادت اور اس کی پالیسی اس بنیادی ڈسکورس کی تبدیلی کی عکاس ہے جسے افغانستان ميں امن کے قیام کی امیدیں باندھی جارہی ہیں اور افغانستان میں امن کے معاملے کو تیزی سے آگے لیجانے میں مذاکرات کے اصل فریق یعنی طالبان اور افغان حکومت کا آپس میں بیٹھنا بہت ضروری پہے اور ان کے رویوں مین لچک ضروری ہے اور یہ لچک سراج حقانی اور ملّا اختر منصور و اخوندزادہ ہیبت اللہ خان سمیت طالبان قیادت کی جانب سے سامنے آگئی ہے
علاقے میں امن کے لئے یہ ایک امید پرست منظر نامہ ہے ، لیکن سلیم صافی جیسے صحافی جن کو میں یہ سمجھتا ہوں کہ حقیقی طور پر پالیسی شفٹ یا تو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہورہی یا وہ طالبان کے مین سٹریم افغان سیاسی دھارے میں شمولیت کے خلاف ہیں ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ پرو مذاکرات افغان قیادت کو غیر مقبول دکھانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسے میں ان لوگوں کی طرفداری کررہے ہیں جو افغانستان کے اندر جاری خانہ جنگی کے بازار کو کرم دیکھنے کے خواہاں ہیں ، سلیم صافی اس سے پہلے بھی پاکستان کے اندر ملّا فضل اللہ ، احسان اللہ محسود ، حکیم اللہ محسود ، مولوی فقیر محمد آف باجوڑ ، تحریک طالبان پنجابی کے مولوی عصمت اللہ معاویہ ( عصمت اللہ معاویہ نے جب پاکستان کے اندر دھشت گردی ترک کرنے کا اعلان کیا اس کے بعد صافی آج تک اس کے بارے مین نہیں بولے ) کی امیج بلڈنگ میں مصروف رہے ، ابھی ملّا عمر سے پہلے انھوں نے ملک اسحاق کو مظلوم بنانے کی کوشش کی تھی ، سلیم صافی کی تحریریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے اندر ایک تکفیری جنگجو بیٹھا ہوا ہے جو ان کے اندر سید مودودی اور سید قطب کی تحریریں پڑھ کر بیدار ہوا ہوگا اور ظاہر سے وہاں سے آگے تک کا سفر سلیم صافی نے لازمی کیا ہوگا ، مرا مطلب ہے کہ وہ شاہ اسماعیل دھلوی سے محمد بن عبدالوہاب اور اس سے آگے شیخ ابن تیمیہ تک ضرور پہنچے ہوں گے اور ان کے اندر تکفیری فاشزم کا مادہ اتنا بھر گیا ہے کہ اب اگر خود ان کی ممدوح تحریک طالبان افغانستان کی قیادت بھی افغانستان ميں امن کی بات کو آگے لیجائے اور افغانستان کے اندر خلافت کی بجائے جمہوریت کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہو تو ان کو یہ اسلام سے انحراف نظر آتا ہے
تحریک طالبان افغانستان ، افغان حکومت اور دیگر افغان فریقوں ميں کوئی ” سیاسی سمجھوتہ ” اگر مستقبل مين طے پایا تو وہ ” پارلیمانی سیاست ” سے باہر نہیں ہوگا اور اس کی آؤٹ کم سلفی – دیوبندی تکفیری نام نہاد خلافت یا امارت نہیں ہوگی ، پاکستان امریکہ ، گلف ریاستیں اور چین ملکر شاید افغان طالبان کو مین سٹریم سیاسی دھارے میں داخل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں اور طالبان کی نئی قیادت کو بھی ” یہ موقعہ ” بہتر لگ رہا ہے ، بند گلی کی صورت حال سے نکلنے کا کہ جس میں رہ کر افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی تباہ ہوجائیں گے اور اگر کوئی سیاسی ڈیل ہوئی تو دونوں کو اس کا فائدہ ہوگا
سلیم صافی سمیت پاکستان کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو افغان امن پروسس کے اس مرحلے کو افواہیں پھیلاکر اور بدگمانی پر مبنی پروپیگنڈا کرکے سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں پاکستان کے لئے افغان متحارب فریقوں میں سمجھوتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ سمجھوتہ خود افغان عوام اور قوم کے لئے بھی ترقی اور خوشحالی کے ںئے دروازے کھولے گا بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ چین – پاکستان اقتصادی کوریڈور کے منصوبے کی تکمیل اور اس شاہراہ پر پر امن تجارت کے لئے بھی افشغان امن پروسس کے کامیاب ہونے کی اشد ضرورت ہے
اس لئے اس موقعہ پر جو بھی پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے اور جو بھی افغان امن پروسس کی حامی طالبان قیادت کی بری پکچر بنانے اور امن پروسس مخالف انتہا پسند عقابی طالبان یا حکمت یار کی پرو داعش پالیسی کی حمائت کرتا ہے وہ اصل میں پاکستان کی ترقی کا دشمن ہے
پاکستان کا نام نہاد ترقی پسند لبرل ٹولہ جو اینٹی ملٹری اسٹبلشمنٹ جعلی نعرے کے ساتھ کھڑا ہے جو پاکستان فوج کی موجودہ قیادت کی دھشت گردی کے خلاف جنگ کو مصنوعی جنگ بناکر دکھانے کی کوشش کررہا ہے وہ حقیقت میں پاکستان دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ، آج پاکستان کے دشمنوں کا بہت واضح چہرہ تکفیرت ہے اور اس کا پوشیدہ چہرہ وہ لبرل ، نام نہاد روشن خیال ، نام نہاد ترقی پسند ہیں جو صحافت اور تجزیہ نگاری کے پردے میں اس تکفیری خارجی سوچ اور اس کے حاملین کے اصل چہرے کو بے نقاب ہونے سے بچاتے ہیں
http://jang.com.pk/jang/aug2015-daily/01-08-2015/col2.htm
ہر انسانی پیشے کا اک تقدس ہوتا ہے اور صحافت کے پیشے کا تقدس ” سچ ” اور صدافت رکھنے والا انسان ہے آپ نے پڑھا ہو گا کہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو فورا یقین نہ کر لو پہلے تحقیق کر لو ۔۔۔ کیوں کہ اس کی خبر لائق نہیں کہ مانی جاۓ ، کیا ظلم کی حمایت فسق نہیں ہے جبکہ ظالم کی حمایت یا اس کے لئے میدان مہیا کرنا ہھی ظلم ہے ، گھر بیٹھے ظلم کی حمایت میں قلم چلاتے ہیں اور یہ بھی سنا ہو گا قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے تو پھر یہ تلوار سے زیادہ کاری ہتھیار استعمال کرتے ہین اور ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ کیا تھے ۔افسوس یہ کس قدر نا فہم اور دینا کو احمق سمجھنے والے ہیں آپ کی جو بھی ذاتی رائے ہو مگر اسکو ایسے شعبے مین داخل کر رھے ہیں جس میں اپنی دلی رغبتیں نہیں بللہ حقیقتِ حال لکھنا ہی صحافت کہلاتا ہے ورنہ تو لکھنے والا صحافی نہیں اپنے ہم فکرون کا حمایت کرنے والا نمائدہ ہے جو ان افکار کو اپنے قلم سے عام کرنا چاھتا ہے ۔ جن کو وہ خود مانتا ہے چاھے اس کو حقیقت کو مسخ ہی کیوں نہ کربا پڑے