سندھ میں رینجرز کا آپریشن درودی سنیوں کے خلاف ہے یا بارودی دہشت گردوں کے خلاف؟ – صداۓ اہلسنت
ادارتی نوٹ : پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری اور مرکزی رہنماء شاہد غوری کو رینجرز ھیڈ کوارٹرز سے کئی گھنٹے کی مبینہ نظر بندی کے بعد رہا کردیا گیا ہے اور جبکہ رینجرز نے 72 گھنٹوں میں دو مرتبہ سنی تحریک کے گارڈن ٹاون میں واقع ھیڈ آفس مرکز اہلسنت پر چھاپہ مارا اور ابھی تک سنی تحریک کے پندرہ کارکن رینجرز کی حراست میں ہیں ، سنی تحریک کے دفتر پر مارے جانے والا یہ چھاپہ بعض ٹی وی چینلز کے مطابق انٹیلی جنس بیسڈ ریڈ تھا
رینجرز کے ترجمان کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی بھی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی رینجرز کی جانب سے یہ وضاحت آئی ہے کہ کراچی میں اس کی جانب سے ایک ایسی تنظیم کے دفتر پر چھاپہ کیوں مارا گیا جو اول دن سے پاکستان کے اندر نجی مسلح لشکروں ، تکفیری و خارجی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی حامی ہے ، جس کے بانی سمیت دو مرکزی صدور اور کئی اور مرکزی ، صوبائی و ضلعی رہنماء اور کارکن دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت کے دہشت گردوں نے شہید کئے اور ان کے قاتلوں کی شناخت بارے انٹیلی جنس رپورٹس خود رینجرز سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہیں
پاکستان سنی تحریک کے مرکز پر چھاپہ اس تاثر کو درست ثابت کرتا ہے کہ ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نیشنل ایکشن پروگرام کے اصل مقصد کو فوت کرنے اور پاکستان کی افواج کے آپریشن ضرب عضب ، خیبر ون سمیت دیگر کاروائیوں کی حمائت کرنے والے سواد اعظم اہلسنت کو متنفر کریں
پہلے نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ازان سے قبل درود و سلام پر پابندی لگانے کی کوشش ہوئی ، درجنوں مقدمات ساونڈ ریگولیشن سسٹم کے تحت درج ہوئے ، پھر صاحبزادہ حامد رضا رضوی چئیرمین سنی اتحاد کونسل پر فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ، سنی اتحاد کونسل کے رہنما طارق محبوب کی رینجرز کسٹڈی میں شہادت ہوگئی اور اس کے بعد کراچی میں پاکستان سنی تحریک کے کارکنوں کی شہادت کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ، جس پر سنی تحریک نے حال ہی میں ملک گیر تحریک چلانے کا عندیہ دیا تھا ، اس کے فوری بعد رینجرز کا مرکز اہلسنت پر چھاپہ اور سنی تحریک کی قیادت کو ھراساں کرنے کی کوشش غلط کاشن دے رہی ہے
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ٹھوس شواہد اور ثبوت ہونے کے باوجود اور 2012ء میں کالعدم جماعت ہونے کے باوجود نام نہاد جعلی اہلسنت والجماعت المعروف سپاہ صحابہ پاکستان دھڑلے اور آزادی کے ساتھ کام کررہی ہے ، آج تک اس کے سربراہ کو کئی ایف آئی آرز میں نامزدگی کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے مرکزی دفتر پر چھاپہ مارا گیا
رینجرز کی جانب سے یہ بہت غلط مثال قائم کی گئی ہے ، اس سے پہلے ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے مفتی نعیم آف جامعہ بنوریہ کے ساتھ فوٹو سیشن کرکے عوام اہلسنت کو بہت غلط پیغام دیا ، کیونکہ مفتی نعیم ایک متعصب ، متشدد اور مائل بہ تکفیر المسلمین و اہل القبلتہ ہے اور اپنے متنازعہ فتاوی جات کی بنا پر بدنام ہوچکا ہے اور یہ مولوی مضاربہ کیس میں بھی ملوث ہے جس میں عوام کے اربوں روپے ڈوب گئے تھے ، رینجرز ایک طرف تو کرپشن ، بھتہ خوری اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب وہ اس دعوے کو جھٹلانے والے اقدامات کرتی نظر آتی ہے
ہم چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے کہتے ہیں کہ وہ سواد اعظم اہلسنت کی تنظیموں اور کارکنوں کے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک کا نوٹس لیں اور اس طرح کی بری مثالوں کا دوبارہ سے اعادہ ہونے سے روکیں
اس کے ساتھ ساتھ ہم جنرل راحیل شریف سے کہتے ہیں کہ وہ ماڈل ٹاون لاہور میں چودہ سنی مسلمان مرد و عورتوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے زمہ داران کا تعین کرنے کے لئے صاف و شفاف کمیٹی کا قیام ممکن بنانے میں کردار ادا کریں اور ہم نیکٹا کی لسٹ کے مطابق کسی بھی کالعدم تنظیم کو فعال اور کام کرتے دیکھنے کے خواہاں نہیں ہیں چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا فرقہ سے ہے ، اگر کالعدم تنظیمیں اسی طرح سے کام کرتی رہیں اور چھاپے پرامن سنی رہنماوں اور عوام کے اوپر پڑتے رہے تو پھر موجودہ نیشنل ایکشن پلان اصل میں بارود والوں کو تحفظ دینے کا حیلہ ہی سمجھا جائے گا