زرداری کی للکار اورنیا گیم پلان – عمار کاظمی
ڈیڑھ دو ماہ پہلے ایک با خبر سینیر کی غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے ایک مختصر نوٹ تحریر کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ متحدہ کی طرح پیپلز پارٹی کے معاملے میں بھی فقط مائینس زرداری یا ود زرداری فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ دونوں کے پیچھے سوچ میں فرق صرف اتنا ہے کہ الطاف کی جگہ مشرف کو لانے کی خواہش کار فرما ہے اور زرداری کی جگہ کوئی کم نا پسندیدہ لانے کی۔
پیپلز پارٹی کو مزید نقصان نہ پہنچانے کی وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ باوجود کوشش مقتدر قوتیں پیپلز پارٹی جیسی مرکزی جماعت بنانے میں ناکام رہیں جو مڈل کلاس سے غریب تک ایک جیسی مقبول ہو۔ بلوچستان، خیبر پختونخواہ، سندھ کراچی میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی مداخلت اور بین الاقوامی سازشوں کے پیش نظر مقتدر حلقوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ مرکز کی علامت جماعت کو کسی نہ کسی حد تک زندہ رکھیں۔ اس کے علاوہ پاک چائینہ اقتصادی راہداری پر ہندوستان امریکہ کی مخالفت اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بھی انھیں پیپلز پارٹی جیسی جماعت کی ضرورت ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہمیشہ مرکز والوں کو ہی اکثریت حاصل ہوتی ہے اور نواز لیگ حالیہ انتخابات میں وہاں سے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب ہو چکی ہے ،
پیپلز پارٹی آج بھی وہاں حقیقی حمایت رکھتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ گلگت بلتستان کی وہ مذہبی قیادت جو باقی جگہوں پر ہمیشہ دست و گریباں نظر آتی ہے وہ ویسے ہی مقتدر قوتوں کی دائیں اور بائیں جیب کا مال ہے ۔ باقی پاک چائینہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے بعد مسلہ کشمیر کی اصل حیثیت بھی ختم ہی سمجھیے کہ کشمیر کی آزاد حیثیت شاید اب پاکستان کی مقتدر قوتوں کو بھی قبول نہیں ہوگی۔ جبکہ ہندوستان تو اس کے حل میں کبھی سنجیدہ رہا ہی نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اس کی اربوں روپے کی ٹورازم اندسٹری جڑی ہوئی ہے ۔
طرفین کو یہ حقیقت بھی واضع ہو چکی ہے کہ نہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان بننا چاہتی ہے نہ ہندوستان۔ لہذا عین ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کی ہئیت مقتدرہ جو جہاں ہے کی بنیاد پر اس کا کوئی مسقتل حل پیش کر کے مسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے ۔ اس کے علاوہ اس مختصر تحریر میں میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ دوہزار اٹھارہ کے اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی ہے ۔ حصہ لینے والے اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے رابطوں میں مصروف ہیں۔ زوالفقار کھوسہ آجکل بہت سرگرم ہیں اور ان کا ایک پاوں کراچی اور دوسرا اسلام آباد میں ہوتا ہے ۔ ûاس کے چند روز بعد ہی مشرف اور ق لیگ کے اتحاد کی باتیں سامنے آگئی تھیںú۔ تحریک انصاف ڈیل کے نتیجے میں کافی پر سکون نظر آتی ہے ۔
غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق نواز لیگ اور تحریک انصاف دونوں کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے ۔ جبکہ نواز لیگ کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کی کوئی مدد نہیں کی جا سکے گی۔ لہذا قوی امکان ہے کہ نواز لیگ ایک بار پھر پنجاب تک محدود ہو جائے گی۔ تاہم اگر حالات میں کوئی بہت بڑی ڈرامائی تبدیلی نہ آئی تو غیر جانبدار انتخابت کے نتیجے میں سپلٹ مینڈیٹ کے امکانات بھی بہت واضع ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کا کوئی سدباب نہ ہو سکا تو پھر نواز لیگ سے بہتر بولی لگانے والے شاید بہت کم ہونگے ۔ میرے لیے اس برسوں پرانے سکرپٹ میں اس سے زیادہ کوئی دلچسپی نہیں کہ آصف زرداری کے مستقبل کا کیا فیصلہ ہوتا ہے ۔
میڈیا پر زوروں کی زرداری مخالف مہم کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ساری مہم زرداری صاحب کو محض اونچا اڑانے کے لیے کی جا ری ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں فوج مخالف اور سیاستدان مخالف سینٹی مینٹ دو مختلف طبقات میں ایک جیسا مقبول ہے ۔ یعنی ایسی قوم یا ملک سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے دلالوں سے کیسے آزاد ہوسکتا ہے جہاں اکثریت کے نزدیک فوج مخالف بیان کسی کو مرد حر یا غدار ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ؟ دونوں پارٹیاں، اسٹیبلشمنٹ اور آصف زرداری اس عوامی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ تاہم اس صورت کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں کہ زرداری صاحب نے کچھ ایسا متاثر کن نہیں کیا کہ انھیں بھٹو یا بے نظیر بھٹو جیسی کوئی بہت بڑی عوامی حمایت نصیب ہو۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ واقعی منفی زرداری فارمولا پر عملدرامد کا آغاز ہے ۔
اس کے نتیجے میں زرداری کے ساتھ جتنا بْرا کیا جائے گا اتنی ہی جان پیپلز پارٹی کے مردہ بدن میں پڑ جائے گی۔ شہیدوں کی جماعت کا یہ زندہ ہاتھی چاہے پانچ سو کا بھی نہ ہو، مگر مردہ شرطیہ طور پر سوا لاکھ کا بکے گا۔ لہذا پیپلز پارٹی کی واپسی کے بارے میں غیر مصدقہ اطلاعات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہیں۔ کہانی لکھنے والوں نے ایسی نپی تْلی پلاننگ کر رکھی ہے کہ ہر دو صورت میں انہی کا منصوبہ کامیاب ہو۔ انھیں پینتیس لاکھ پنشنرز، ان کے بال بچوں، عزیز و اقارب اور بہت سے ایسے عقل مندوں کی حمایت حاصلہ ہے جو ہمیشہ یہی گھسے پٹے الفاظ دھراتے نظر آتے ہیں کہ “بھائی جان فوج کی وجہ سے ہم اور آپ سکون کی نیند سوتے ہیں”۔ جیسے سینتالیس سے پہلے تو لوگ سوتے ہی نہیں تھے ۔
یہ وہی جنتا ہے جسے ہر چھ مہینے بعد انقلاب آ جاتا ہے ۔ محض فوج مخالف بیان دینے پر غداری کا سرٹیفکیٹ بانٹنے والے کمبختوں کو یہ بھی علم نہیں کہ دنیا میں فوج ہی سٹیٹسکو کو سہارا دے کر حقیقی تبدیلی کا راستہ روکتی ہے ۔ اور دنیا کا کوئی بھی انقلاب وہاں کی فوج کے احتساب یا اس سے ٹکرائے بغیر کبھی ممکن نہیں ہوا۔ بہر حال سکرپٹ رائٹر یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران اور دیگر ٹوٹ بٹوٹ سیاسی قیادت ان کی مخالفت نہیں کر سکتی۔
لہذا سب زرداری کو برا بھلا کہنے اور بوٹ پالشنگ میں مصروف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نواز شریف جیسا شخص بھی فوج کو خوش کرنے کے لیے آرمی چیف کو ماسکو فون کر رہا ہے ، جسے شہید محترمہ پاکستانی سیاست میں واپس لائی، جس کی حکومت کو بار بار اسی آصف زرداری نے سہارا دیا۔ جسے باپ کے جنازے میں بھی شرکت کی اجازت نہ ملی اور دو بار ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ خیر آج نہ کسی کو فوج کا ماضی یاد ہے نہ آصف زرداری کی بْری کارکردگی۔
گیم پلان کا حصہ بنے کمرشل میڈیا کے کھوپے آنکھوں پر چڑھائے اندھی عوام بار بار ایک ہی جگہ گھومتی رہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب کے منظر بدل جائے گا۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے بعض اینکرز اور تجزیہ نگار شاید زمینی حالات سے نا واقفیت کی بنا پر کمزور اور جانبدار تجزیے پیش کرتے ہیں لیکن زرداری والے معاملے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا پر بیٹھی اکثریت کسی کمزور فہم کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ مکمل طور پر بد دیانتی کا ثبوت ہے جو تصویر کا تیسرا رخ تو درکنار دوسرا رخ بھی پیش نہیں کرنا چاہتی۔ بلا شبہ سرمایہ دار کا کمرشل میڈیا مقتدر قوتوں اور سرمایہ دار سیاستدانوں کا دلال تو ہو سکتا ہے لیکن آزاد صحافت کا ترجمان نہیں۔
Source: