پیسٹری چوائس لبرلز – عمار کاظمی

imtiaz-alam-quits-express-tv-in-protest-2104201421085160

کسی دوسرے کی کیا مثال پیش کروں میں خود جب “سیفما” میں نوکری کی خاطر امتیاز عالم سے ملا تو میں نے انھیں اپنے برسوں کے روزنامہ جنگ کے تجربے سے لے کر اپنی کالم نگاری، روشن خیالی، خاندانی جمہوری جدو جہد تک سب کچھ بتایا۔ بتایا کہ میرے ماموں اور آپ نے آمریت کے خلاف اکٹھے جدو جہد کی تھی۔ آپ لوگوں پر اکٹھے پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ وہ کنگ ایڈروڈز کے فائینل ائیر کے دو پرچے چھوڑ کر بھٹو کی جماعت کے رکن بنے اور اور جمہوری جدوجہد میں کبھی مڑ کر پاکستان کے سب سے اعلی میڈیکل کالج کی ڈگری حاصل نہ کر سکے۔

زمینیں بیچ بیچ کر بھٹو کی جماعت اور آمریت کے خلاف جمہوری جدو جہد کوزندہ رکھا۔ مگر مجال ہے جو “بھلے” جیسی شکل والے کو ایک بات بھی متاثر کر سکی ہو۔ نجم سیٹھی کے بلانے پر ایک لبرل لڑکا ایک فنڈڈ سیمینار کے لیے ملنے گیا تو تین گھنٹے بٹھانے کے بعد اسے ملے بغیر اوپر سے ہی ٹکٹ دے کر چلتا کر دیا۔ یہی حال شیری رحمان اور دیگر برائے نام لبرل سیکولر نامور لوگوں کا ہے۔ لبرل ازم کا نقاب پہنے سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں۔ ان لوگوں نے آج تک کسی لبرل سیکولر مڈل کلاس نوجوان کی کیا مدد کی ہے جو یہ مقبول ہوں اور مُلا ناکام؟ باقی کسی نجی محفل میں مذہب کا ان سے جتنا مرضی مذاق بنوا لو۔ دوسری طرف مذہبی گروہوں کو دیکھو تو فوج کی طرح ہر جگہ اپنا بندہ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

باقی ہمارا متوسظ طبقے کا لبرل روشن خیال نوجوان بھی جدہ پلٹ ان پاکستانیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا جو واپسی پر جبہ پہنے ائیر پورٹ پر اترتے ہیں۔ یعنی ہم انتہا پسندی کے خلاف لکھ لکھ “پھاوے” ہو جاتے ہیں، اپنی جانیں خطرے میں ڈال لیتے ہیں مگر مجال ہے جو کوئی نوجوان ہمارا پیغام پروموٹ کرے۔ ہود بھائی نے ایک جملہ مذہب کے خلاف کہہ دیا اور پھر ہوگئی شروع شئیرینگ کی ٹکسال۔ نہ وہ کونسا تحجد پڑھتا ہے یا گلی کی نکڑ پر روشن خیالی کی کلاس لیتا ہے؟

اس کی دلیل کیوں کسی عام مذہبی عادمی کو متاثر کرے گی؟ نہیں وہ لمز کا پروفیسر رہا ہے۔ بڑی پیسٹری لڑکیاں اور برگر لڑکے اس کے فین کلب میں ہیں۔ اس کے اقوال شئیر کرنا ہی تو خود کو پڑھا لکھا اور فیشن ایبل ثابت کرنے کا معیار ٹھہرا ہوا ہے۔ “کس نے پوچھا جالب و ساغر کو؟ مر گئے تو سرمایہ دار گنگنانے لگے۔ فیض صاحب زندگی میں ہی ساری شہرت انجوائے کر گئے۔ اور “اپنے جیسوں کا بڑھنا کہاں اچھا لگتا ہے اپنے جیسوں کو” وہ میڈیا پر سیلبرٹی بن کر دو لفظ کہہ کر ہیرو اور ہم خاک چمن زیرو کے زیرو۔ تو کیا فرق بچا اس ذہنیت اور یاسر بروسٹ کے مینیو پر لکھے ان الفاظ پر کھانا بیچنے والی ذہنیت میں جو دوسرے لفظوں میں یہ کہتے ہیں کہ “یہ کھانا اس لیے اچھا ہے کہ عرب اسے کھاتے ہیں”۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.