تاریخ اپنا آپ دھرا رہی ہے – عمار کاظمی

10731123_10202796770159942_7630257860773306841_n

ہم نے دیکھا کہ ایران عراق براہ راست جنگ میں سعودیہ صدام کی پُشت پر کھڑا تھا۔ پاکستان میں شیعہ خمینی اور دیوبند سلفی اکثریت صدام حسین کے ساتھ تھی۔ پتا نہیں یہ ہار کا خوف تھا یا برائے نام اتحاد بین المسلمین کا احساس کہ ایک عرصہ سے جاری بے نتیجہ جنگ کی وجہ سے طرفین کے دلوں میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور تھی کہ دو مسلمان ریاستوں میں قتل وغارت ختم ہو جائے۔ ایران کے ہمدرد خمینی کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس جنگ سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جہاں عراق کا نقصان ہو رہا ہے وہیں ایران بھی برباد ہو رہا ہے۔ مگر خمینی نہیں مانے۔ جنگ کے ابتدائی اور درمیانی حصے میں عراق کو بہت نقصان پہنچا۔

بہت سے لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ عراقی فوج میں اس وقت بھی بڑی تعداد میں شیعہ فوجی موجود تھے۔ جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں عراقی شیعہ نوجوان بھی مارے گئے۔ پھر جب اس طویل جنگ کا حتمی فیصلہ ایران کے حق میں ہونے کو تھا تو صدام حسین نے ایرانیوں پر کیمیکل اٹیک کر دیا۔ امریکہ عراق پر جنگ مسلط کرنے کی وجہ اپنے دیے انہی کیمیکل ویپنز کی تلاش قرار دیتا رہا۔ ایران کی طرف سے جنگ کے آغاز سے درمیان تک کافی فوجی مارے گئے تھے مگر ان کی تعداد عراقیوں سے کم تھی۔ کیمیکل اٹیک کے نتیجے میں بے شمار ایرانی مارے گئے۔ ایک ایرانی دوست مصور کے مطابق ایران عراق جنگ کے بعد پندرہ سال سے اوپر کے جوان ڈھونڈنا مشکل ہو گیا تھا۔ اور پھر خمینی نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

جنگ بندی کے اس غیر متوقع اعلان پر ایران کے کسی دوست کو خوشی نہ ہوئی کہ آیت اللہ خمینی نے جنگ بندی ان کے مشورے کی وجہ سے نہیں بلکہ پتھر چاٹنے اور بنی بنائی عزت مٹی میں مل جانے کے بعد کی تھی۔ اگر وہ جنگ بندی کا اعلان اس وقت کر دیتے جب ایرانی افواج عراق کے بہت سے علاقے فتح کرنے کے بغداد سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھیں تو شاید اس میں ان کی بہت بڑی سیاسی، فوجی اور اخلاقی جیت ہوتی۔ ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے محض اپنی ضد کی وجہ سے ایک جیتی ہوئی بازی ہار دی تھی۔ تاہم ایک بات ضرور ہے کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی آمرانہ ذہنیت، ہٹ دھرمی اور ضد کو ایک طرف رکھ کر ایران کو مکمل تباہی سے بچا لیا تھا۔


یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایران کے بار بار گر کر سنبھلنے میں کسی ایک شخصیت کا نہیں بلکہ پوری ایرانی قوم کا کردار ہے۔ اتنی حلاکتوں کے باوجود ایرانی قوم کی اکثریت خمینی کو ہی رہبر مانتی رہی۔ لہذا جب پاکستانی تجزیہ نگار سعودیوں اور ایرانیوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ ظہور اسلام سے پہلے کا فارس اور ایرانی قوم کا کردار بھول جاتے ہیں۔

لوگ آل سعود اور ایرانیوں کو محض مذہبی رنگ میں دیکھتے ہیں۔ وہ اس فارس کو بھول جاتے ہیں کہ جس کے گھوڑے جب عرب کے صحرا سے گزرتے تھے تو عربوں کے بعض خانہ بدوش قبیلے ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا کرتے تھے۔ آپ ایرانیوں کو جتنا مرضی بُرا بھلا کہہ لیں مگر وہ تاریخی اعتبار سے ایک بڑی مارشل ریس رہے ہیں۔ اور اس بات کا احساس ایرانی قوم میں آج بھی موجود ہے۔ ایرانیوں کے مقابلے عربوں میں غرور اور تکبر تو پایا جاتا ہے مگر وہ متحد نسل کبھی نہیں رہے۔ آج بھی مختلف قبائل اور فرقوں میں بٹے کسی ایک قوم کی تعریف پر پورے نہیں اترتے۔


عرب ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب کا حال یہ ہے کہ پرسوں جس عراق اور امریکہ کی حمایت میں سعودیہ ایران کا دشمن بنا ہوا تھا کل اُسی عراق کے کویت پر حملے کے بعد اس نے عراق پر بمباری میں امریکہ کی مدد کی۔ عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ میں فریق بننا آل سعود کی طرف سے خالصتاً ایک فرقہ پرست اور قبائلی روش تھی۔ اور اسی کے پیش نظر یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ آج جو عرب اتحادی سعودیوں کی مدد کر رہے ہیں کل ان کی باری بھی آ سکتی ہے۔ اگر محض فرقہ وارانہ تعصب کی بات کی جائے تو وہاں بھی سعودیہ ہی زیادہ آگے نظر آتا ہے۔

سعودیہ مسلم اقوام کے آپسی تنازعات میں ہمیشہ اینٹی شیعہ اور پرو سلفی دیوبند رول پلے کرتا رہا۔ ہاں گزشتہ سال میں تھوڑی بہت تبدیلی یہ ضرور دیکھنے ملی کہ سعودیوں نے تاریخ میں پہلی بار نے ایک پاکستانی شیعہ عالم کو بھی اپنی میزبانی کا شرف بخشا۔ آپ خود اسے یمن پر حملے کی پیش بندی، سعود شاہی کے خلاف بغاوت اور سعودیہ کے اندر عرصہ دراز سے خاموش شیعہ آبادی کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسے آپ کامیاب ایرانی ڈپلومیسی کا نام دیجیے یا مسلمانوں کو متحد رکھنے کی خواہش۔ مگر سعودیہ کے مقابلے ایران بہر حال ہمیشہ سے فلسطینیوں کی حمایت بھی کرتا رہا جہاں شیعہ آبادی بہت کم ہے۔


ایران پر عرصہ دراز تک قائم رہنے والی معاشی پابندییوں کا حال ہی میں اُٹھ جانا اپنی جگہ، تاہم یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایران عراق جنگ کے اثرات کے بعد ایران گزشتہ چند برس سے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا نظر آ رہا تھا۔ آج کا ایران دنیا کے مختلف محازوں پر ماضی کی نسبت ایک مختلف حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ کل جہاں ایران کھڑا تھا آج وہاں سعودیہ کھڑا ہے اور کل جہاں سعودیہ کھڑا تھا آج وہاں ایران کھڑا ہے۔

کل ایران جنگی جنون شکار تھا اور آج سعودی عرب۔ یمن کی جنگ میں زیدی جیتیں یا آل سعود اور اس کے اتحادی ایران کا اس میں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ کل سعودی دور سے بیٹھے عراق کو سپورٹ کر کے دو ممالک کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور آج ایرانی ایک محفوظ پوزیشن پر بیٹھے شطرنج کی بازی کھیل رہے ہیں۔ تاہم ایران کی طرف سے پر امن مذاکرات کا مطالبہ بھلے سیاست ہی کیوں نہ ہو، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ جبکہ سعودیوں نے ایران عراق جنگ کے دوران کبھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ بہر حال یمن پر سعودی حملہ ہر دو صورت میں سعودیہ کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا اور سعودیہ جانتے بوجھتے یہ فیصلہ کر چکا ہے۔ اس فیصلے کے ایک طرف طویل جنگ کی صورت معاشی نقصانات ہیں تو دوسری طرف عربی عجمی میں سعودیوں کی سیاسی و اخلاقی شکست بھی یقینی ہے۔


دوسری طرف خوش آئند بات یہ ہے چند پرانے فسادیوں کے علاوہ پاکستان میں اکثریتی شیعہ سنی رویہ ایران عراق جنگ کی نسبت کافی مختلف نظر آ رہا ہے۔ یعنی پاکستان نے کسی حد تک غیر فطری لفظ “اُمہ” کے بر عکس خود کو الگ، آزاد اور خود مختار ریاست سمجھنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ماضی کے مقابلے آج کے پاکستان میں ایک اچھی تعداد غیر اقوام اور ان کے مفادات کی جنگ کو مذہب یا فرقہ پرستی سے جوڑنے سے بھی گریزاں نظر آ رہی ہے۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ اس سوچ میں تمام مکاتب فکر اور مسالک کے تھوڑے یا زیادہ لوگ موجود ہیں۔

اور ہم ایسا کیوں نہ سمجھیں؟ ایرانیوں یا عربوں سے ایک مذہب کے سوائے ہمارا مشترک ہی کیا ہے؟ ہمیں تو دونوں کے حملہ آوروں نے لُوٹا ہی ہے۔ پھر ہم اس پرائی جنگ کا حصہ کیوں بنیں؟ سمجھ کی اس بہتری میں ماضی کے تلخ تجربات کا سبق بھی بہت حد تک شامل ہے۔ پاکستان کی پارلیمان نے مشترکہ اجلاس میں درست فیصلہ کیا تھا۔ اگر پارلیمان کے فیصلے کے باوجود فوج بھیجی گئی تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہی سمجھی جائے گی۔ جن کی فنڈنگ سے فوجیوں کے بچے مارے گئے ان کے دفاع کے لیے پاکستان کی فوج نہیں جانی چاہیے۔

Comments

comments