شور برپا ہے خانہ دل میں – عمار کاظمی
بچوں اور بیگم کو جمعہ کے روز ایک دو دن کے لیے پنڈی نانا نانی کے پاس جانا تھا۔ ان کا پروگرام دیکھ کر سوچا کہ میں بھی دو ایک دن آوارگی کر لوں گا۔ دوستوں کی طرف جا کر رات دیر تک گپ شپ ماروں گا۔ مگر لاہور کے حالات کراچی سے بھی برے ہیں۔ جمعرات کی رات دس بجے میرے ساتھ والے گھر میں ڈکیتی ہوگئی۔ لہذا یہ سوچ کر کہیں نہیں گیا کہ کسی کو ملنا ہوگا تو خود ہی ملنے آ جائے گا۔ ڈکیتی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرا ہمسایہ رات گھر لوٹا، گھر کا صدر دروازہ کھولا، گاڑی اندر پارک کی اور اس کے بعد جیسے ہی دروازہ بند کرنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا تو دو بندے ہاتھوں میں پستول پکڑے اندر داخل ہو گئے۔ وہ اس پر پستول تانے اسے گھر کے اندر لے گئے۔
زیورات اور نقدی اے ٹی ایم کارڈ [ جس سے انھوں نے پچیس ہزار روپے بھی نکلوا لیے]، موبائل فون وغیرہ لوٹ کر چلے گئے۔ ڈاکو جاتے ہوئے اسے دھمکی بھی دے گئے کہ “ہم جانتے ہیں تمھاری بیوی گنگا رام ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر ہے اور تم جناح ہسپتال میں ڈاکٹر ہو۔ اگر تم نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی تو ہم تمھاری بیوی کو گولی مار دیں گے”۔ تاہم موبائل فونز کے بارے میں یہ یقین دلا گئے کہ اگر انھوں نے پولیس میں رپورٹ درج نہ کروائی تو وہ انھیں واپس مل جائیں گے۔ یعنی کافی پڑھے لکھے چور تھے کہ جنھیں یہ علم تھا کہ مہنگے والے موبائل میں ٹریکنگ سسٹم لگا ہوتا ہے۔ خیر دونوں میاں بیوی بہت کم عمر ہیں۔ ابھی کوئی چھ مہینے سال پہلے ہی ان کی شادی ہوئی ہے۔ اور وہ اس حد تک خوفزدہ ہوئے کہ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی انھوں نے پولیس کو کوئی رپورٹ درج نہیں کروائی تھی۔
یہ صرف ایک گھر ایک خاندان کا رونا نہیں۔ محض میری گلی کے آس پاس کم از کم دو درجن ڈکیتی کے وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ہر دوسرے سے تیسرے گھر میں ڈکیتی ہو چکی ہے۔ جس حلقے میں ہم لوگ رہتے ہیں یہ کچھ زیادہ ہی زیر عتاب ہے۔ یہاں کا ایم این اے افضل کھوکھر ہے۔ یہ “حلقہ اللہ ہو” چوک سے “جاتی عمرہ” تک پھیلا ہوا ہے۔ اور شاید یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے کیپٹن صفدر کے فش فارم سے بجلی کا ٹرانسفارمر چوری ہوا تھا۔ ایک واپڈا اہلکار کے مطابق ٹرانسفارمر کھمبے سے اتارنے اور اس کو گاڑی پر لادنے میں کم و بیش تین گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یعنی چور بڑی تسلی سے وزیر اعظم کے داماد کے فش فارم سے ٹرانسفارمر اتار کر لے گئے۔
اس واقعہ کو کافی عرصہ بیت چکا۔ تاہم آج تک نہ چور پکڑے گئے ہیں اور نہ ٹرانسفارمر کا کوئی سراغ ملا ہے۔ ہاں حسب توفیق و روایت اس واقعہ کے بعد چھوٹے میاں صاحب نے بہت سے لوگوں کو نوکریوں سے ضرور نکال دیا تھا۔ میرے بڑے بھائی جو جاتی عمرہ کے پاس ہی آرمی ویلفئر سوسائٹی میں رہائش پزیر ہیں ان کے گھر ابھی دو تین ماہ پہلے ڈکیتی ہوئی تھی۔ ابھی تک ڈاکووں کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ ان کے علاوہ بہت سارے رشتہ دار ہیں جنھیں دن دیھاڑے لُوٹا جا چکا ہے۔ کوئی اے ٹی ایم مشین میں داخل ہوا تو پیچھے سے نئی گاڑی چوری ہوگئی اور کسی سے بھرے مجمے میں سگنل پر زیور، نقدی اور موبائل فون چھین لیا گیا۔ گھر سے بہت کم نکلتا ہوں لہذا جو کچھ بھی بیان کر رہا ہوں وہ انتہائی قریب کے لوگوں کا احوال ہے۔
ایک ملازمہ کے بقول ڈاکو ایک گھر میں ڈکیتی کے ساتھ تین نو عمر بچیوں کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر [ ان کی ماں کی آنکھوں کے سامنے ] ان سے زیادتی بھی کر گئے۔ اور اس میں کچھ تعجب نہیں کہ اکثر خاندان بدنامی کے ڈر سے اس طرح کے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرواتے۔ میری رائے میں نہ صرف اس نوعیت کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جانا چاہیے بلکہ ان کی تحقیقات بھی خفیہ اداروں سے کروانی چاہئیں تاکہ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ رہیں اور پولیس پر مقامی سیاسدانوں کا اثر و رسوخ بھی استعمال نہ ہو سکے۔
اصغر ذیدی نے لاہور کی اس زبوں حالی کو بہت اچھے طریقے سے بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں “شہباز شریف لوگوں کا خون پینے والی پولیس، ظالم، بد دیانت و بد ذہنیت بیورو کریسی اور غلام میڈیا کے ذریعے حکمرانی کررہا ہے۔ یہ لاہور کی گلی گلی کی کہانی ہے۔ مگر مجال ہے کہ کہیں کسی اخبار یا ٹی وی میں اس اندھیر نگری کا کوئی ذکر بھی آئے۔ ماڈل ٹاؤن میں ہماری گلی اور حمزہ شہباز کے گھر کا فاصلہ شاید دو سو میٹر سے بھی کم ہوگا۔ اس کا باپ اکثر یہاں ٹھہرتا ہے۔ گلی کے ساتھ والے گراؤنڈ میں اس کا ہیلی کاپٹر اترتا ہے۔ لیکن اس گلی میں پچھلے دو تین سال میں درجنوں ۔ جی ہاں درجنوں وارداتیں ہوچکی ہیں۔ کسی کو یقین نہ ہو تو تھانہ لیاقت آباد کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے”۔
اصغر زیدی نے درست فرمایا۔ نیشنل میڈیا کہاں سو رہا ہے؟ لاہور کے کرائم رپورٹرز کیا کر رہے ہیں؟ کیا سب کے سب لفافہ زدہ ہو چکے ہیں یا پھر کام کرتے موت آتی ہے؟ میڈیا مالکان کی ساری توجہ سندھ حکومت کو گرانے پر ہی کیوں مرکوز رہتی ہے؟ یہی ٹرانسفارمر کی چوری والا واقعہ وزیر اعلی سندھ کی بیٹی کے فش فارم پر ہوا ہوتا تو نیشنل میڈیا اس کا رونا آج تک رو رہا ہوتا کہ دیکھو آج بھی چور نہیں پکڑے جا سکے۔
مگر کسی نجی چینل نے اس انتہائی سنجیدہ واقعہ کا کوئی فالواپ نہیں لیا۔ سب کی ساری توجہ متحدہ کے خلاف کراچی آپریشن، حلقہ 286 کے ضمنی انتخابات اور ریحام خان اور عمران خان کے کراچی کے دوروں پر مرکوز ہے۔ اس ضمنی الیکشن کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ایم این اے کی ایک سیٹ؟ اور اس کے بعد اگر کوئی وقت بچ جاتا ہے تو وہ یمن فوج بھیجنے کے مسلہ پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ کسی کو کچھ پرواہ نہیں کہ پاکستان کے دل یعنی لاہور میں کیا ہو رہا ہے۔ ارے بھائی فوج بھیجنی ہی ہے تو لاہور میں بھیجو۔ عوام بلبلا رہی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ یعنی عوام کی بوٹیاں نوچنے کے لیے سرمایہ داروں کی اکثریت متحد نظر آتی ہے۔
ماڈل ٹاون واقعہ کے بعد جو طاہرالقادری اور عمران خان سے ایک اُمید کی کرن پھوٹی تھی وہ بھی ان کے زاتی مفادات اور ترجیحات کی نظر ہو گئی۔ اگر ان کے دلوں میں عوام کا درد ہوتا تو وہ ان معاملات پر بھی آواز بلند کرتے۔ “شور برپا ہے خانہ ء دل میں” مگر افسوس پنجاب کی سرمایہ دار حکومت کے لیے ہر طرف خاموشی ہے۔