پاکستان، یمن اور چار اپریل کی وہ رات – شعیب میر

CBti1D1UgAAta1r

جس رات دو بجکر بارہ منٹ پراس وقت کی فوجی حکومت، عدلیہ، مذہبی پیشواؤں، سیاسی مخالفین، میڈیا اور مقتدر پنجابی اشرا فیہ نے مل کر وہ کام سرانجام دیا، جس میں بقول سرکا ری مؤرخ پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجود تھا. جی ہاں، پاکستان کے تمام مسائل کا حل. یقین نہیں آتا تو ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے. یہی کہا تھا ان سب نے. چھتیس سال ہونے کو آئے، آج ٢٠١٥ میں پاکستان کے تمام جملہ مسائل اسی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں بلکہ اس سانحے کی کوکھ سے ایسی ایسی نئی عفریتیں جنم لے چکی ہیں، جنہیں شاید ہماری کئی نسلیں بھی ختم نہ کر سکیں گی.

میں نوے ہزارجنگی قیدیوں اور ہزاروں مربع کلومیٹر زمین واپسی کی بات نہیں کروں گا ، نہ ١٩٧٣ کے آئین کی، نہ غریب کو زبان دینے کی، نہ ایٹمی قوت کی، نہ لیبر اصلاحات کی. اور نہ ہی بات کروں گا موجودہ غیرمحفوظ سرحدوں ، دہشتگردی، لاقانونیت، ناانصافی، انتخابی دھاندلی، مادرپدر آزاد میڈیا اور مذہبی جنونیت کی. اور نہ ہی بجلی، پانی، تعلیم، صحت عامہ، علاج، روزگار، غریب دیہاتی، کسان، مزدور کی.

میں بات کروں گا اس پاکستانی کی جسے اس رات موت کی نیند سلایا گیا اور جو اسلامی سربراہی کانفرنس کا چیئرمین بھی تھا. لیکن پچاس اسلامی ملکوں کی حکومتیں اور ایک ارب مسلمان منہ تکتے رہے. اس شخص کی سربراہی میں مراکش سے انڈونیشیا تک ابھرتا ہوا مسلم بلاک، سامراج کی نظر میں کھٹکتا تھا. اس نے عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی فضائیہ کے فائٹر پائلٹ شام کی مدد کو بھجواۓ اوراسرائیل کے جنگی جہاز گراۓ گئے. آج اسی اسرائیل کے جنگی طیارے یمن میں بمباری کر رہے ہیں. حالانکہ اسرائیل کو یمن سے کوئی خطرہ نہیں. خطرہ ہے تو ایران امریکا نیوکلیآئی معاہدے سے جس پر پی ٥+١ ممالک کو بھی اعتراض نہیں.

اگر وہ شخص زندہ ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی. وہ جنگ نہیں صلح کرواتا. کیونکه اسے سعودی عرب کی آزادی، خود مختاری اور سالمیت اتنی ہی عزیزہوتی جتنی ایران، یمن، شام،عراق یا افغانستان کی. کیا ہماری پارلیمنٹ کو اس بات کا ادراک ہے؟

اس شخص کا نام نہ بھی لکھوں، اسکی تصویر اپ لوڈ نہ بھی کروں تو کوئی بات نہیں. کیونکہ اس رات سے کئی سال بعد تک اسکا نام اور تصویرچھاپنا تک ممنوع تھا. باوجود ان تمام پابندیوں کے آج اسکا نام اور چہرہ ہر اس پاکستانی کے دل و دماغ پر کندہ ہے جس نے شاید کبھی اسے دیکھا بھی نہ ہو. آج پاکستان ہی نہیں ساری اسلامی دنیا یتیم ہے. کیونکہ چار اپریل کی وہ سیاہ رات ابھی ختم نہیں ہوئی. اور اس وقت تک ختم ہو گی، نہ ہضم ہو گی جب تک فوج اور عدلیہ یہ اقرار نہ کریں کہ وہ عدالتی قتل تھا، عدالتی قتل تھا، عدالتی قتل تھا!

Comments

comments