مرزا غالب کے خلاف بھی فرقہ وارانہ تعصب؟ – عامر حسینی
سابق کمشنر مرتضی برلاس کے ایک دوست تھے شعیب الرحمان مرحوم بلکہ ان کو مصاحب برلاس کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ وہ ٹھیکے پر مشاعرے کرانے کے کلچر کو فروغ دینے والے ایک ریٹائرڈ ویکسی نیٹر کے سب سے بڑے محافظ تھے ، ان سے جب بھی کہا جاتا کہ
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
سے اگلا مصرعہ کیوں نہیں پڑھتے تو کہتے
اسے پڑھنے سے آدمی رافضی ہوجاتا ہے
اور حال ہی میں انڈیا سے ایک کتاب ” غالب اور جنگ آزادی ” شایع ہوئی تو اس میں غالب کو محض اس کے شیعہ اثناء عشری ہونے کی بنا پر ردی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے تلاش شروع کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک شمیم طارق نہیں کئی ایک اور بھی اس مشن میں شریک ہیں
میں اس طرح کی مذموم مہم کے شروع ہونے کو معاشرے کی گراوٹ کی انتہا سمجھتا ہوں ، اب کل کو ” مومن خان مومن ” اس بنا پر رد کردئے جائیں گے کہ وہ ” وہابی ” تھے
ویسے کل لطیف ٹی سٹال پر بیٹھے ہوئے جب میں نے بتایا کہ 1850ء کے عشرے میں قلعہ معلی میں شعری نشستوں ميں مومن خان مومن (وہابی ) ، صدر الدین آزردہ و فضل حق خیر آبادی ( صوفی سنّی ) اور مرزا نوشہ ( شیعہ اثناء عشری ) کی دوستی مشہور تھی اور ان کی روٹی ایک دوسرے کےبغیر ہضم نہیں ہوتی تھی اور مومن خان کی وہابیت اور صدر الدین آوردہ و فضل حق خیر آبادی کی سنّیت کو مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے اس شعر کے پڑھنے اور اس پر داد دینے سے کوئی نقصان نہيں ہوتا تھا
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں
Facebook comments by Aamir Hussaini
Aamir Hussaini
Shamim Tariq is noted writer and journalist living in Mombai and he worked as editor in many Urdu Newspapers of India and now writes regular column in daily Inqlab Mumbai .
غالب اور ہماری جنگ آزادی میں انھوں نے غالب کے کردار بارے بات کی ہے اور ان کی جانب سے اپنے خطوط میں انگریزوں کے حسن انتظام کی تعریف اور 1857 ء میں دہلی و گردونواح پر قابض ہوجانے والے باغیوں کے مظالم درج کرنے پر خاصا اظہار ناراضگی کیا ہے ، پھر انہوں نے اس کتاب میں سید احمد بریلوی ، شاہ اسماعیل دہلوی کی تحریک کے بارے موجود ان حقائق کو یکسر رد کردیا جوکہ اس تحریک کے انگریز سے ساز باز اور مسلمانوں کے قتل عام بارے موجود ہیں اور انہوں نے حیکم محمود احمد برکاتی سمیت دوسرے مصنفین کی رائے کو ردی قرار دے دیا ، اور کوئی ثبوت ان کے غلط ہونے کا پیش نہیں کیا ، یہ سب کشٹ انہوں نے اس لئے اٹھائے کہ یہ مقدمہ درست ثابت ہو کہ 1857ء کی جنگ آزادی اصل میں سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کا تسلسل تھی اور پھر اس آزادی کی جنگ سے جو باقیات نکلی وہ دیوبندی قیادت تھی لیکن تاریخ تو اس سے مختلف ہے اس لئے یہ ساری کاوش کی گئی
Aamir Hussaini
ایک اور بات بہت اہم ہے کہ شمیم طارق نے کئی ایک کتابیں ہندو و مسلم کے درمیان ثقافتی اشتراک بارے لکھی ہیں اور اس معاملے میں وہ بہت صلح کل نظر آتے ہیں لیکن جب معاملہ سید احمد بریلوی ، اسماعیل دہلوی کے بارے میں سچ بولنے کا آیا تو وہ اتنے ہی معتصب ہوگئے جتنے دیگر دیوبندی مولوی ہیں
خالد نورانی نے اس موضوع پر کافی تحقیق کی ہے ، ویسے مولانا یسین اختر مصباحی نے اس پر ایک جامع کتاب لکھی جس میں انھوں نے یہ متھ توڑی ہے کہ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کی تحریک جہاد انگریزوں کے خلاف تھی اور یہ تحریک انگریز سامراج کو پہلا چیلنج تھی ، اصل میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 1820ء کے عشرے میں جب سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی نے ہندوستان میں وھابی تحریک کی تشکیل کی تو اس وقت برطانوی سامراج عرب کے اندر وھابی تحریک پر مکمل ھاتھ رکھے ہوئے تھا اور وہ اس تحریک کو عثمانی ترکوں کی سلطنت کو توڑنے کے لئے اور خطے میں اپنے پیر جمانے کے لئے استعمال کررہا تھا ، اور ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظریں پنجاب پر لگی ہوئی تھیں جس پر سکھ حکومت کررہے تھے اور رنجیت سنگھ کی یہ حکومت پنجابی و پٹھان و افغان اشرافیہ کے ساتھ اشتراک پر مبنی تھی اور اس کو کمزور کرنے کے لئے انگریزوں کو سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کی تحریک جہاد بہت کارآمد لگی ، اس سے پہلے سید احمد بریلوی نے ریاست لوھارو کے نواب امیر احمد خان اور انگریزوں کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، کیونکہ امیر خان نواب آف لوھارو نے اپنی ریاستی فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا اور وہ شاہ ولی اللہ کے خیالات سے متاثر تھا اور جب وہ ہندوستان میں دوبارہ سے مسلم راج ( بلکہ اسے وھابی راج کہنا زیادہ درست ہوگا ) قائم کرنے کی کوشش کی تو اس ایڈونچر سے اسے سید احمد بریلوی نے باز رکھا تھا اور اسے ایسٹ انڈیا کمپنی سے صلح پر رام کیا ، سید احمد بریلوی ، شاہ اسماعیل صوفی مسلمانوں کے حوالے سے جتنے سخت نظر آتے ، اتنے ہی نرم وہ انگریزوں اور ہندوں کے حوالے سے آتے ہیں ، ان کی وھابیت نے پنجاب کے اندر صوفیانہ راستے سے سکھ اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی مفاہمت کو مسترد کردیا تھا ، یہ ایسے حقائق ہیں جن کے بارے میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کو انگریز سامراج کے خلاف جنگ کرنے والا بناکر دکھانے والے دیوبندی و سلفی سکالر و محقق بات کرنا تو درکنار اشارہ دینا بھی پسندنہیں کرتے
پھر یہ مدنظر رہھنا چاہئے کہ 1820 ء سے لیکر 1854ء تک جب ولائت علی کا انتقال ہوا اس تحریک کے جتنے بھی دھڑے اور سیکشن تھے وہ انگریزوں سے کہیں نہیں لڑے اور بلکہ صوبہ سرحد اور پنجاب میں ان کا تصادم سنی صوفی مسلمانوں سے ہوا اور یوپی ، سی پی کے اندر وہ بالآخر خالص فرقہ پرست بنکر رہ گئے Abdul Nishapur