ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں – از عمار کاظمی
یہ اچھی پیش رفت ہے کہ سانحہ اے پی ایس پشاور پر پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد پلے کارڈز اٹھائے یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ “ہم تمھیں نہیں بھولیں گے” یا ۔ لیکن اس کے ساتھ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم شیعہ پشتون ہزارا بچوں کا خون بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم وہ گُپلُو سا، موٹا سا، بھولا سا، معصوم سا اعتزاز بھول سکتے ہیں کہ جس نے اپنی جان کی قربانی دے کر سینکڑوں بچوں کی جان بچائی؟ کیا ہم دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے بڑی تعداد میں مارے جانے والے ہزاروں شیعہ لاشے بھلا سکتے ہیں؟
کیا ہم وہ جلائی جانے والی بسیں بھلا سکتے ہیں کہ جن میں شیعہ ذائرین زندہ جلا دیے گئے؟ کیا ہم درباروں پر بہایا جانے والا بریلوی صوفی خون بھلا سکتے ہیں؟ کیا ہم اُن ڈیڑھ سو سے اوپر بے گناہ احمدیوں کا خون بھول سکتے ہیں کہ جو لاہور میں مارے گئے؟ کیا ہم گجرانوالہ میں زندہ جلائے گئے احمدی گھرانے کو بھول سکتے ہیں کہ جس میں ایک نو عمر بچی بھی شامل تھی؟ کیا ہم گوجرہ اور لاہور میں جلائی جانے والی عیسائی بستیاں بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم کوٹ رادھا کشن کے بھٹے کی چمنی میں پھینک کر زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کو بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم لاڑکانہ میں جلائی گئی دھرم شالا کو بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم پشاور میں بہایا جانے والا بے گناہ سکھوں کا خون بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بھلا سکتے ہیں؟ کیا ہمیں اندازہ نہیں کہ ان ستر ہزار میں کتنے ہزار بچے، بچیاں، بوڑھے، جوان اور خواتیں ہونگی؟ کیا ہم کیا ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھول سکتے ہیں؟ کیا ہم بشیر بلور اور میاں افتخار حسین کے جوان بیٹے کو بھول سکتے ہیں؟
یہ درست ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ہی اکثر اندھوں کی آنکھوں سے پٹی کھلی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کہیں یہ بینائی کلر بلائنڈ جیسی تو نہیں ہے؟ یعنی رنگ، نسل، مذہب یا فرقہ بلائنڈ تو نہیں ہے؟ سانحہ پشاور کے بعد ہی تین امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ غور طلب بات ہے کہ کیا اس پر بھی اتناہی اجتماعی معاشرتی ردعمل دیکھنے میں آیا؟ اگر ہمیں معاشرے میں سدھار لانا ہے تو ہمیں فرقہ پرستی کی منافق ہمدرد سوچ اور مذہب سے زیادہ انسانیت کے چشموں کی ضرورت ہے۔
ان سب کو مارنے والوں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں مگر نظریاتی اور فکری اعتبار سے یہ ایک ہی گروہ ہے۔ کیا ہم سانحہ پشاور کے علاوہ اس گروہ کے تمام دوسرے مظالم بھول سکتے ہیں؟ بلا شبہ ایک ہی فکر اور گروہ کے ہاتھوں مختلف مسالک و مذاہب کے عام اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر مختلف ردعمل انسانیت کے نچلے ترین درجے پر بھی باعث شرم ہی سمجھا جائے گا۔ اصولی طور پر ہمارا اس گروہ کے خلاف اجتماعی جواب صرف یہی ہونا چاہیے کہ ہم شہدا کو ہی نہیں ان کے قاتلوں کو بھی نہیں بھولے۔۔۔
“ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں”