خود کش بمبار تیار کرنے والے دیوبندی وہابی تپسوی مہاراج – از عمار کاظمی

pk

 

اگر کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر یا مصنف کسی ہندو ہیرو کے ساتھ مذہب میں شامل جاہلانہ رسومات یا تصورات پر تین گھنٹے کی فلم بنائے اور اس میں سے صرف پانچ منٹ ہندو دھرم پر تنقیدی کلپ دکھا کر باقی دو گھنٹے پچپن منٹ اسلام کی کلاس لینے میں بتا دے تو کیا آپ اس فلم کے مرکزی خیال کو غیر جانبدار اور متوازن مان لیں گے؟ فلم “پی کے” میں مختلف مذاہب میں شامل پچانوے فیصد جاہلانہ مذہبی رسومات اور تصورات کا تو خوب مذاق بنایا گیا مگر مذہب کا وہ پانچ فیصد جو اس وقت تمام جہالتوں پر حاوی اور پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن چکا ہے اس پر سرے سے بات ہی نہیں کی گئی۔

ہم اسے کسی “مونو اتھسٹ -” کا سکرپٹ کہیں یا پھر مسلمانوں میں ایک خاص مکتب فکر کی سوچ کی عکاسی یا پھر عامر خان اور مولانا طارق جمیل صاحب کی دوستی کا ثمر کہ فلم میں بم دھماکہ تو دکھایا گیا مگر یہ نہیں بتایا کہ مسلمانوں میں کس فکر کے دہشت گرد جنت کی حور کے لالچ میں خود کو انسانوں کے ہجوم میں جا کر پھاڑ لیتے ہیں۔ اگر ہندو تپسوی کے ساتھ ان مسلم مینیجرز کا بھی کچھ تفصیلی ذکر کر لیا جاتا جو خود کُش دھماکوں کو مینیج کرتے ہیں تو شاید ہم اس فلم کو متوازن قرار دے سکتے۔ باقی کونسا پنڈت ہے جو ہندو کو جنت کی حور کے لالچ میں خود کُش بننے ترغیب دیتا ہے؟ اگر دنیا کے کسی بھی مذہب مسلک میں اس سے بڑی کوئی جہالت کی مثال موجود ہے تو ضرور بتائی جائے

ورنہ جانلیوا جہالت کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی جہالتوں کا ذکر بے معنی ہے۔ اس پسمنظر میں عامر خان کی فلم کا سکرپٹ بجائے خود ایک رانگ نمبر محسوس ہوتا ہے اور وہ واقعی پی کے تھا جسے دم تو دکھائی دی مگر اس نے ہاتھی یونہی گزار دیا۔ تفریح کے اعتبار سے یہ ایک اچھی مزاحیہ فلم تھی۔ مگر اس کی سنجیدہ تعریف اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس فلم کو بنانے والے نے ایک ہندو اکثیرتی ریاست و معاشرے میں بیٹھ کر بڑی مہارت سے رانگ نمبر ڈائل کیا۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. sheraz khan
    -
  2. shah ur rahman
    -
  3. faheem
    -