جڑوں کو بھی کاٹا جائے
طالبان اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف اکیسویں آئینی ترمیم بھی منظور ہوگئی اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا۔اور اب اکیسویں ترمیم کے خلاف عدالت میں درخواست بھی منظور ہوگئی،جسکی پیروی طالبان کی حامی جماعت تحریک انصاف کے حامد خان کرینگے۔سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ کیا فوجی عدالتیں دہشت گردی کے خاتمہ کا مستقل حل ہیں؟کیا فوجی عدالتوں سے دہشت گردی بالکل ختم ہوجائے گی؟کیا چند دہشت گردوں کو پکڑ کر پھانسی دینے سے مزید دہشت گرد تیار ہونا بند ہوجائیں گے؟
فرض کیا حکومت ملک سے سگریٹ نوشی کی لعنت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور حکومت اس مقصد کے لیئے سگریٹ نوشی کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر سزائیں دینا شروع کردے تو کیا اس سے سگریٹ نوشی کی لعنت کا خاتمہ ہوجائے گا؟ہرگز نہیں۔اس طرح کبھی اس لعنت کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔کیوں کہ پھر جو لوگ کھلے عام سگریٹ پیتے تھے وہ چھپ کر پینے لگ جائیں گے۔جب تک حکومت سگریٹ بنانے والے کارخانوں کو مکمل طور پر بند نہیں کرے گی اور سگریٹ کی تیار کرنے والی کمپنیوں پر اور اس کی درآمد پر مکمل طور پر پابندی نہیں لگائے گی سگریٹ نوشی کی لعنت کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔اس طرح طالبان کی مثال ہے۔جب تک طالبان بنانے والی فیکٹریوں کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔اگرانتہاپسندی اور دہشت گردی کو ہم ایک درخت سمجھ لیں تو کیا انتہاپسندی کے درخت کی ایک شاخ کاٹ دینے اور دوسری شاخوں کی پرورش کرنے سے انتہا پسندی ختم ہو جائے گی؟اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو اس انتہا پسندی کے درخت کی جڑیں بھی کاٹنا ہوں گی ورنہ ورنہ چند شاخوں کو کاٹ کر اگر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اس سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی تو ایسا سمجھنا حماقت ہوگا۔جب تک دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکا جاتا تو ایک شاخ کو کاٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ مزید شاخیں نکلتی رہیں گی اور دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں گے۔
اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سے بھی کالعدم تنظیمیں ملک میں فعال ہیں اور وہ کھلے عام جلسے کررہی ہیں اور اس ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر قتل اور غارت گری بھی کررہی ہیں۔ کراچی میں کالعدم تنظیموں کے ہاتھوں بے گناہوں کی ہلاکت اب روز کا معمول بن چکی ہے لیکن ان کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے والے کوئی نہیں ہے۔انتہا پسند عناصر پیدا کرنے والے اور طالبان مائنڈ سیٹ پیدا کرنے والے مدارس اور مساجد بھی موجود ہیں اور وہ اب بھی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی ہے۔انتہا پسندی پھیلانے والی مساجد میں سرفہرست اسلام آباد کی لال مسجد ہیں۔حال ہی میں واہ کینٹ کے قریب خود کو دھماکے سے اڑانے والا خودکش حملہ آور کوثر علی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی لال مسجد کا طالب علم تھا۔لال مسجد جیسی ہزاروں مساجد اور مدارس اس ملک میں موجود ہیں۔جو معصوم طلباء کا برین واش کرکے ان کو خود کش بمبار اور دہشت گرد بنارہے ہیں۔یہ وہ مساجد اور مدرسے ہیں جو مذہب، فرقہ واریت اور عقیدے کی بنیاد پر نفرتوں اور قتل وغارتگری کو فروغ دے رہے ہیں اور ایسے دہشت گرد پیدا کررہے ہیں جومساجد، امام بارگاہوں ، سول وعسکری تنصیبات ،اسکولوں اور بازاروں میں خود کش حملے اور بم دھماکے کرکے بے گناہ شہریوں کو خاک وخون میں نہلارہے ہیں۔اگر دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کا خاتمہ کرنا ہے تو لال مسجد اور اس جیسے اور مساجد کو مسجد ضرار کی طرح ڈھانا ہوگا۔ان کے خلاف بھرپور کاروائی کرنا ہوگی۔ورنہ اگر جڑ کو چھوڑ کر اگر صرف شاخوں کا کاٹا جائے تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اب بات کرتے ہیں اس ملک میں دہشت گردی کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں حمایت کرنے والے سیاست دانوں اور لکھاریوں کی۔جو طرح طرح کی منافقانہ باتیں کرکے اور تحریریں لکھ کر ان انسان نما درندوں کی سفاکیت اور درندگی کی عملی حمایت کررہے ہیں۔
ہونا تو کچھ یوں چاہیئے تھا کہ پشاور سانحہ میں معصوم بچوں کی ہلاکت پر سب کی آنکھیں کھل جانی چاہیئے تھی خاص طور پر وہ لوگ جو صاحب اولاد ہیں اور اولاد کے دکھ و درد کو سمجھتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہوئی کہ اس سانحہ کے بعد بھی بعض سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے صرف اور صرف روایتی مذمتی بیانات اور اظہار افسوس سے کام لیا۔لیکن دہشت گردوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں بولا بلکہ جب دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کے باری آئی تو بعض مذہبی اور سیاسی رہنما تلملانے لگے اور یہ شورمچانے لگے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کی آڑ میں مذہبی لوگوں اور مدارس کے خلاف کاروائی ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہشت گردی کی کبھی مخالفت نہیں کی اور جب بھی جب بھی کوئی خود کش حملہ ہوتا تو یہ نام نہاد دانشور اور لکھاری اور سیاست دان اس کاجواز فراہم کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے۔کبھی یہ کہتے کہ یہ امریکہ کی جنگ کی وجہ سے ہے تو کبھی اس کو ڈرون حملوں کا ردعمل کہنے لگتے۔اور کہتے کہ مشرف نے ہمیں امریکہ کی جنگ میں ڈالا تھا جس کی وجہہ سے یہ دہشت گردی ہورہی ہے۔کبھی یہ کہتے کہ یہ دہشت گردی انڈٰیا اور اسرائیل کرارہے ہیں۔یہ کبھی یہ سچ نہیں بولتے کہ یہ خود کش بمبار ہمارے ملک میں موجود مساجد اور مدارس میں ہی تیار ہورہے ہیں جن کی ایک تازہ مثال لال مسجد کا طالب علم ایک خود کش بمبار کوثر علی ہے جس نےواہ کینٹ کے نزدیک خود کش دھماکہ کیا تھا۔کیا لال مسجد انڈیا اور اسرائیل میں واقع ہے؟کیا لال مسجد کا مولوی عبدل العزیز را اور موساد کا ایجنٹ ہے؟
ان نام نہاد سیاسی رہنماؤں میں عمران خان کا نام بہت نمایاں ہے جو طالبان کی حمایت میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ ان کو اب طالبان خان کے نام سے اب جانا جاتا تھا۔موصوف اکثر یہ کہتے کہ طالبان کے خلاف آپریشن سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور یہ طالبان سے مذاکرات کے لئے تاریخ سے مثالیں ڈھونڈ کر لاتے۔کبھی ڈرون حملوں پر شور مچاتے کہ اس سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے کبھی ان کے دفاتر کھولنے کی باتیں کرتے تو کبھی یہ کہتےتو کبھی یہ کہتے کہ یہ ہمارے اپنے بھٹکے بھائی ہوئے ہیں۔انہیں پیار سے سمجھائو‘ مذاکرات کی میز پر لائو‘ تاریخ میں ہر جنگ مذاکرات کے نتیجے میں ہی ختم ہوئی ہے‘ آپریشن سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن موصوف نے کبھی سچ بولنے کی ہمت نہیں کی کہ دہشتگردی مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہے۔جب دہشت گردوں کے خلاف اکیسویں ترمیم منظور ہوئی تو ان کی جماعت نے اس کی حمایت نہیں کی اور اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اب ان کے وکیل حامد خان اکیسویں ترمیم کے خلاف درج درخواست کی پیروی کررہے ہیں۔
عمران خان کو طالبان کی حمایت یہ اب یہ صلہ ملا کہ جب وہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے دورے پر پہنچے تو ان کے خلاف گو عمران گو کے نعرے لگے۔
ان سیاست دانوں میں ایک اور نمایاں نام مولانا فضل الرحمٰن کا بھی ہے۔موصوف اس سے پہلے حکیم الله محسود کو یہ کہہ کر شہید قرار دے چکے ہیں کہ امریکہ کے خلاف کتا بھی لڑے گا تو اس کو شہید کہیں گے۔ان کا شمار بھی ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی طالبان کا نام لیکر مذمت نہیں کی اور اس جنگ کو امریکہ کی جنگ کہہ کر طالبان کی دہشت گردیوں کو جواز فراہم کرتے رہے۔
طالبان کی حمایت میں سب سے نمایاں نام تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی ہے۔ڈرون حملوں میں ان کے دہشت گردوں کی ہلاکت سے اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کی کہ طالبان اور یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔
اگر دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہے تو دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے والے لکھاریوں اور سیاست دانوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا ہوگی۔یہ وہ سیاست دان تھے جنہوں نے طالبان سے مذاکرات کے نام پر ان کو مزید طاقتور ہونے کا موقع دیا۔
وقت آپہنچا ہے کہ یہ لکھاری اور سیاست دان قوم سے معافی مانگیں اور طالبان کی دہشت گردی کا نام لے کر واضح الفاظ میں ان کی مذمت کریں اور اگر یہ ایسا نہ کریں اور اب بھی دہشت گردوں کے کھل کر یا ڈھکے چھپے الفاظ میں حمایت جاری رکھیں تو دہشت گردی کی حمایت کے جرم میں ان کو قید کرکے مقدمہ چلایا جائے اور ان لکھاریوں کے لکھنے اور ان کے آرٹیکل چھاپنے پر پابندی لگائی جائے تو دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی جماعتوں پر اور کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے-دہشت گردوں کے ساتھ ان کے حمایتیوں کو بھی لٹکانا ہوگا ورنہ اگر جڑ کو چھوڑ کر اگر صرف شاخوں کو کاٹا جاتا رہا تو وطن عزیز سے دہشت گردی کے خاتمے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر
نہیں ہوسکے گا۔