اوریا مقبول صاحب، آپ بھی چند لمحوں کیلئے سوچیئے ۔۔ از نور درویش

موصوف کی داعش کیلیئے محبت ختم ھونے کا نام نہیں لے رھی۔ خدا جانے ان کے یہ کالم در اصل کن طاقتوں کو فائدہ پہنچاتے ھیں لیکن ایک بات تو طے ھے کہ اس موضوع پر ان کے لکھے جانے والے تمام کالم میں جو بات سب سے زیادہ واضح نظر آتی ھے وہ ایران اور شیعہ دشمنی ھے۔ البتہ جو بات سوال ان سے پوچھا جانا چاہیئے وہ یہ  کہ ایران کے خلاف یہ تمام باتیں لکھ  کر وہ داعش کی حقانیت کس طرح ثابت کر دیتے ھیں؟ یہ عجیب مضحکہ خیز بات نہیں کہ چونکہ ایرانی سمگلر داعش سے تیل خرید رھے ھیں اس لیئے ایرانی تو ثابت ھوگئے لالچی اور مفاد پرست جبکہ داعش اس کے نتیجے میں حق پرست ثابت ھو گئی؟ عجیب منطق ھے موصوف کی ھمیشہ کی طرح۔

دوسری مثال جو یہ کبھی جبھت النصرہ کیلئے دیتے دکھائی دیتے تھے اور اب داعش کیلیئے دے رھے ھیں وہ مغربی ممالک سے بہت بڑی تعداد میں  جنگجووں کا شام اور عراق میں پہنچنا ھے۔  اس سلسلے میں انہوں نے کمال عرق ریزی کا مظاھرہ کرتے ھوئے ان جنگجوں کی تعداد بھی بیان فرما دی ھے جو مختلف مغربی ممالک سے شام اور عراق پہنچے ھیں۔ یہ سب تفصیلات بتاتے ھوئے جس بات اوریا مقبول سمیت غیرت بریگیڈ کے تمام دانشور بھول جاتے ھیں وہ انہیں مغربی ممالک کی ان باغی گروھوں کی پشت پناھی ھے۔ کیا فرانس نے کھلم کھلا شام میں باغیوں کو اسلحہ فراھم نہیں کیا؟ کیا فرانس نے اقرار نہیں کیا کہ صرف فرانس سے ۱یک ھزار کے قریب جنگجو شام روانہ ھوئے تھے؟سلفی نظریات کے حامل یہ جنگجو کسی مدرسے کے طالب علم ھوں یا نہ ھوں، سلفی نظریات کی تلخی کافی ھے ھر اس غیر انسانی اقدام کو انجام دینے کیلیئے جس کا مظاھرہ ھم آئے دن شام اور عراق میں اور دیوبندی تکفیری گروھوں کی صورت میں پاکستان میں دیکھتے رھتے ھیں۔ یہ ھی دلیل سلیم صافی اور اس قبلیے کے دیگر صحافی آج کل کثرت سے دیتے دکھائی دے رھے ھیں۔ گویا دو  باتوں کو خلط ملط کر کے ایک نتیجہ اخذ کرنا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے رائے اجتماعی نتائج اور واقعات کر دیکھ کر قایم کی جاتی ھے۔ اگر ھارورڈ یا اکسفورڈ یونیورسٹی میں شدت پسندی کی تعلیم کے ثبوت تواتر سے ملیں اور شدت پسندوں کا تعلق ان اداروں سے تعلق ثابت ھوتا رھے تو ان کے بارے میں بھی وھی رائے قایم ھو گی جو پاکستان میں دیوبندی مدارس کے بارے میں ھے۔ اس بات کی اسان الفاظ میں تشریح یو ھو سکتی ھے کہ پاکستان میں جس شدت پسندی کا مرکز دیوبندی مدارس ھیں عامی سطح پر اس شدت پسندی کا مرکز سلفی نظریات ھیں، جو سعودی سرپرستی میں پھیلائے جاتے ھیں اور جن کا نتیجہ سلفی وھابی دہشت گردوں کی صورت میں سامنے آتا ھے۔ ورنہ آپ ثابت کر دیں کہ پاکستان میں موجود طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کا تعلق دیوبندی مسلک سے نہیں اور داعش اور جبھت النصرہ اور القائدہ کا تعلق سلفی وھابی مسلک سے نہیں؟ یقین جانیئے آپ ئی کبھی نہیں کر سکیں گے۔

۔ غالبا اوریا مقبول یہ بھی فراموش کر دیتے ھیں کہ کس طرح مغربی ممالک نے ان جنگجوں کو لیبیا میں استعمال کیا اور کس طرح انہیں شام میں اور اب عراق میں داخل کیا۔  

غیر ضروری مثالوں کے ذریعے موضوع میں فرقہ واریت کا رنگ پھر کر آپ وقتی طور پر طو رائے عامہ پر اثرانداز ھوسکتے ھیں لیکن جان لیجئے  سچائی کبھی چھپتی نہیں۔ آپ کے لکھے ھوئے وہ تمام کالم جو شامی باغیوں کی توصیف میں لکھے گئے تھے آج آپ کو ایکسپوز کرنے کیلئے کافی ھیں۔ بقول نذیر ناجی کہ  عجیب تعجب کی بات ھے کہ امریکہ جو بظاھر داعش کے خلاف ھے، حقیقت میں اسی داعش کو تیل کی خریدار کمپنیاں ڈھونڈ کر دے رھا ھے۔ بالکل ویے ھی جیسے امریکہ القائدہ کے خلاف تھا لیکن حقیقت میں دونوں ایک ھی سکے کو دو رخ۔ 

اوریا مقبول ھوں یا حامد میر، ان سب کا کام القائدہ اور داعش جیسے بدنام زمانہ جرائم پیشہ گروھوں کے اقدامات کو اخلاقی جوز فراھم کرنا ھوتا ھے اور اس کام کو یہ اسلام پسندی کے غلاف میں لپیٹ کر کرتے ھیں۔ ورنہ ھر اھل عقل یہ سوچنے پر مجبور ھوتا ھے کہ کیا خلافت اور اسلامی نظام کیلیئے ان حضرات کو محض یہ سفاک گروہ ھی نظر آتے ھیں ؟

اوریا مقبول اس کالم کے جواب میں ھم نذیر ناجی صاحب کے دو کالم آپ کی خدمت میں پیش کر رھے ھیں جس میں داعش اور اس جیسے دیگر گروہوں کی تخلیق کے اصل محرکات پر مدلل انداز میں بات کی گئی ھے۔اب بھی پڑھیئے اور غیرت برگیڈ سے دور رہیئے۔

Comments

comments