فاتح پٹرول پمپ – عمار کاظمی

Petrol-Pump-Photo-Express-640x480

گزشتہ دو دنوں میں چھ بار پٹرول ڈلوانے گیا اور لائن دیکھ کر سوچا کہ کوءی بات نہیں پھر باہر نکلوں گا تو ڈلوا لوں گا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بیچ راستے میں رات گیارہ بجے گاڑی بند ہوگیی ۔ چارو ناچار بچوں کو گاڑی میں چھوڑ کر بوتل ہاتھ میں پکڑے پیدل شیل پٹرول پمپ تک گیا تو دیکھا کہ پٹرول پمپ ہی بند ہے۔ پوچھا کب کھلے گا جواب ملا غیر معینہ مدت کے لیے بند ہے۔ مایوس ہو کر اگلے پٹرول پمپ کی طرف چل دیا جو پی ایس او کا تھا پتا چلا کہ کل تک پٹرول کی کوئی اُمید نہیں، آگے ٹوٹل کا پمپ ہے ان سے مل جاے گا۔

ٹوٹل کے پمپ کی طرف چلنا شروع ہوا تو حد نظر تک گاڑیاں ہی گاڑیاں کھڑی نظر آیں۔ گاڑیوں کی چھ رویہ قطار کے ساتھ چلتے چلتے کوئی ایک کلومیٹر کے بعد جب پٹرول پمپ آیا تو وہاں ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ لوگ بوتلیں ہاتھ میں پکڑے پمپ والوں کی منتیں کر رہے تھے کہ یار تھوڑا سا دے دو۔ مگر ملازمین کا کہنا تھا کہ ہمیں سختی سے آرڈر ہیں کہ کسی کو بوتل یا گیلن میں پٹرول نہیں دینا۔ وہ لوگوں کو میری آنکھوں کے سامنے انکار کر رہے تھے مگر میں پھر بھی ڈھیٹوں کی طرح پٹرول مانگنے پہنچ گیا۔ پہلے سیلز مین کو کہا بھای فیملی ساتھ ہے ہو سکے تو صرف اتنا دے دو کہ گاڑی گھر تک پہنچ جاے۔ جواب ملا سب یہی کہتے ہیں، ہم مجبور ہیں، گاڑی یہاں لے آیں ہزار روپے تک پیٹرول مل سکتا ہے۔

بغیر گاڑی پٹرول نہیں مل سکتا۔ مایوس ہو کر تھوڑی چالاکی کرنے کی کوشش کی اور آٹھویں نمبر پر کھڑی گاڑی میں بیٹھے نوجوان کی منت سماجت کی کہ بھای آپ اپنی باری پہ ساڑھے آٹھ سو کا گاڑی اور ڈیڑھ سو کا اس بوتل میں ڈلوا دو میری فیملی بیچ راستے میں بیٹھی ہے۔ نوجوان بولا بھای جان وہ بوتلوں مین نہیں دے رہے۔ میں نے ضد کر کے کہا آپ کوشش تو کرو ہوسکتا ہے آپ کی گاڑی کی وجہ سے آپ کو دے دیں۔ اس نے خاموشی سے بوتل رکھ لی۔ ایک ایک کر کے گاڑیاں جاتی رہیں اور جب اس کی باری آی تو اس نے وہی کیا جو مین نے کہا تھا۔

مگر پٹرول پمپ کے ملازمین نے پٹرول دینے سے صاف انکار کر دیا کہ اگر انھوں نے بوتل میں پٹرول دیا تو ان کی نوکری جاتی رہے گی۔ نوجوان نے معذرت خواہانہ انداز مین بوتل مجھے واپس لوٹا دی۔ میرے علاوہ بیسیوں لوگ چھوٹی بڑی بوتلیں ہاتھ میں تھامے پٹرول پمپ ملازمین کے انکار کے باوجود وہاں سے جانے کو تیار نہ تھے۔ کچھ تو واٹر ڈسپنسر والی انیس لٹر کی بوتلیں لے کر پہنچے ہوے تھے۔ خیر جیسی میری قوم ویسا میں۔ ہار میں نے بھی نہیں مانی۔ ایک کے بعد دوسرے سیلز مین کو اپنی بپتا سنانے لگا کہ شاید کسی کو ترس آ جاے۔ مگر وہ بھی کیا کرتے۔ انھیں سختی سے منع کیا گیا تھا کہ بوتل والوں کو پٹرول نہیں دینا۔ پھر ایک سڑے بھنے سیلز مین سے میں بھی تلخ ہو گیا۔

وہ غصے میں بولا وہ سامنے حکومت کی ٹیم کھڑی ہے آپ میرے منہ لگنے کی بجاے ان سے بات کریں۔ میں سیدھا ان کے پاس گیا، بات کی مگر وہ نہیں مانے۔ بس پھر میرا صبرجواب دے گیا اور میں نے حکومت کو گالیاں اور آصف زرداری کی سابقہ حکومت کی تعریفیں شروع کر دیں۔ وہ لوگ بھی حکومت کی برایاں کرنے لگے۔ ان میں سے ایک شاید عمران خان کا حمایتی تھا۔ وہ بولا خان صاحب ذرا مصروفیات سے فارغ ہو لیں۔۔۔ ابھی اس کے منہ میں اتنی سی بات نکلی تھی کہ میں نے غصے میں اسے بھی یہ کہہ کر چُپ کروا دیا کہ ہمیں وہ لیڈر بھی نہیں چاہیں جو ہمارے بچوں کے قاتلوں کے حمایتی رہے ہوں۔ بلا شبہ عمران خان نواز شریف اور آصف زرداری دونوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔

انتظامی صلاحیتیں بھی شاید انہی کی بہتر ہونگی۔ لیکن اگر کوئی ان سے سو گنا زیادہ بہتر انتظامی صلاحیتوں کا مالک بھی کیوں نہ ہو اسے طالبان کے حمایتی کے لیبل کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے یہ لیبل ہٹانے کی ایک دن بھی کوشش نہیں کی۔ خیر میں ان دونوں جماعتوں اور ان کے حماتیوں کو اُلٹی سیدھی سنانے لگا۔ نجانے انھیں آصف زرداری کی تعریفیں بُری لگیں یا وہ میری گالیوں اور اونچی ہوتی ہوی آواز سے تنگ آے کہ ان میں سے ایک بولا انکل آپ ایک منٹ رکیں میں آپ کو پٹرول ڈلوا دیتا ہوں۔ میرا سارا غصہ ایک دم کافور ہو گیا۔ وہ لڑکا مجھے لے کر سب سے آخری والے بوتھ پر لے گیا جہاں گاڑیاں نسبتا کم اور موٹر ساءیکل اور لوڈر زیادہ تھے۔

وہاں اس نے سیلز مین کو کہا کہ انھیں پٹرول دے دو۔ سیلز میں نے مجھے کہا کہ آپ ذرا دور ہو کر کھڑے ہو جاءیں میں جیسے ہی اشارہ کروں تو بھاگ کر آ جایے گا۔ تھوڑی دیر بعد سیلز میں نے اشارہ کیا تو میں جلدی سے بوتل جیکٹ مین چھپاے اس کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے جیسے ہی بوتل نکالی تو کیشیر بول پڑا۔ ابھی نہیں ابھی ٹھہر جایں۔ میں پھر پہلے والی پوزیشن پر آ گیا۔ ایک دو گاڑیوں کے بعد سیلز مین نے پھر اشارہ کیا تو اس بار کیشیر درمیان میں حائل نہ ہوا بلکہ اس نے سیلز مین سے کہا انھیں جلدی سے ایک سو پچاس کا پٹرول ڈال دو۔ میں نے بوتل چھپاتے ہوءے جلدی سے ڈھکن ہٹایا، ایک سو پچاس کا پٹرول ڈلوایا اور بوتل کو چوروں کی طرح جیکٹ کے اندر سینے سے لگا کر واپسی کی راہ لی۔ زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ بعض اوقات گالیاں بھی فاءدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ شاید اسی کو اموشنل انٹیلیجنس کہا جاتا ہے۔

واپسی پر میں سوچتا رہا کہ زرداری حکومت مین نہ تو سی این جی کی لوڈ شیڈنگ اتنی تھی نہ بجلی کی۔ پٹرول اور سی این جی ایک ساتھ کبھی نایاب نہ ہوءے تھے۔ پھر جیو جیسے چینلز نے پورے پانچ سال زرداری حکومت کا جینا حرام کیے رکھا تھا۔ جب پیپلز پارٹی کا حد سے زیادہ میڈیا ٹرائل کیا جاتا تو کہا جاتا کہ میڈیا کا کام واچ ڈاگ کا ہوتا ہے۔ آج مرکز میں زرداری دور سے دس گنا زیادہ ناکام حکومت ہے مگر نہ تو میڈیا مین چھپے یرقان زدہ زرد کتے پہلے کی طرح حکومت کے خلاف بھونک رہے ہیں اور نہ وہ جو اسی میڈیا سے اپنی راے بنا کر یہ کہا کرتے تھے کہ دیکھنا کہیں پیپلز پارٹی دوبارہ انتخابات نہ جیت جاے۔ یہی سوچتے سوچتے گاڑی کے پاس پہنچا تو گاڑی اوس سے گیلی ہو رہی تھی۔

ونڈ سکریں پر پانی ایسے جمع تھا جیسے بارش ہو رہی ہو۔ پانی دیکھ کر مجھے محترم خورشید شاہ صاحب کا متعارف کردہ وہ پاکستانی بار بار یاد آ رہا تھا جس نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اسے اب میاں صاحب کو ملنا چاہیے۔ مگر میاں صاحب تو خادمین حرمین شریفین کی زیارت کے لیے سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں۔ شاید وہ مزاج پرسی کے بہانے پٹرول کی بات کرنے ہی گیے ہوں گے۔ ویسے کہیں ایسا تو نہیں کہ خادمین حرمین شریفین کو ہمارے مدرسوں کے بارے میں تحفظات پسند نہ آے ہوں یا پھر انھیں فوجی عدالتوں کا فیصلہ اچھا نہ لگا ہو اور انھوں نے ریاست سے نارازگی کے اظہار کے طور پر پٹرول دینا بند کر دیا ہو؟ بہر حال ایسے حالات مین ہر طرح کے وسوسے ذہن میں آتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالی ہی بہتر جاننے والا ہے۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ میں معرکہ ء پٹرول سر کر آیا ہوں۔ اور پٹرول پمپ پر مچھلی منڈی سے زیادہ رش میں میرا پٹرول حاصل کر لینا بلا شبہ دوسری عالمی جنگ جیتنے جیسی کامیابی تھی۔ آج میں سینہ پھلا کر اپنے آپ کو “فاتح پٹرول پمپ” کہہ سکتا ہوں۔

Comments

comments