مغرب کی منافقت کی نقاب کشائی بجا، دیوبندی وہابی دہشت گردی پر آپکی خاموشی کے کیا معنی؟ – عامر حسینی
تباہی و بربادی و خون ریزی میں تعقل ڈهونڈنے والے اور اس کے زمہ داروں کے جرم کی سنگینی پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کی بربریت کی شدت کو کم کرکے اس کے خلاف ممکنہ یکسوئی سے ہونے والی جدوجہد کے امکان کو کم کررہے ہوتے ہیں اور جو بهی خون ریزی اور نسل کشی ، بربریت کے لئے ریشنلٹی کا متلاشی ہوتا ہے وہ اصل میں اس بربریت ، خون ریزی اور هلاکت خیزی پر افسوس نہیں کررہا ہوتا بلکہ اس بارے میں اپالوجسٹ apologist ہوتا ہے
شعیب میر جو مرے محترم بزرگ دوست ہیں اور پی پی پی سے ابهرنے والی عوام دوست فکر سے وابستگی کی وجہ سے میں ان سے زهنی قربت بهی محسوس کرتا ہوں نے آج سالون ڈاٹ کوم پر کیرن آرم سٹرانگ کا پوسٹ ہونے والا ایک انٹرویو شئیر کیا تو انٹرویو کرنے والے نے ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ آپ کی تحریروں سے لگتا ہے کہ آپ مذهب کے حوالے سے اپالوجی ڈهونڈنے والوں میں سے ہیں تو کیرن آرم سٹرانگ نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا کہ وہ اپنے لئے لفظ اپالوجسٹ فار ریلجن کے استعمال کو پسند نہیں کرتیں اور پهر انہوں نے اس لفظ کی لاطینی اصل بارے بتاتے ہوئے اس لفظ کے ٹهیک ٹهیک معانی متعین کرتے ہوئے کہا کہ Apologia کا مطلب کسی شئے کے لئے ریشنلٹی کی تلاش ہوتا ہے نہ کہ اس پر نادم ہونا اب کیا اتفاق ہے کہ اسی وقت مری نظر ایک فلسطینی حماس کی حامی خاتون صحافی کے سٹیٹس پر پڑهی جو مرے بلوچ دوست کے بی فراق نے شئیر کیا ہوا تها اور اس میں اس خاتون نے ایک عراقی آرٹسٹ کی جانب سے عراق کے ہوٹل الراشد میں فرش پر بنائی گئی جارج بش امریکی صدر کی تصویر مصور کرنے والی خاتون اور اس کی پینٹنگ کا عکس دیا اور لکها تها کہ اس خاتون کے گهر پر امریکی طیارے کے بم برسے اور وہ خاتون اور اس کے گهر والے ٹکڑوں میں بدل گئے تهے
اور اس پر مغرب جو شارلی ایبڈو کے دفتر پر ہونے والے حملے پر آزادی اظہار کے قتل کا واویلا کررہا ہے خاموش رہا ، اسی خاتون کی ایک اور پوسٹ اس سے اوپر لگی ہے جس میں اس نے ایک اور خاتون کی پوسٹ شئیر کی ہے اور اس میں لکها کہ مغرب پیرس کے ایک جریدے کے ایڈیٹر کے قتل کو آزادی اظہار کا قتل جو کہہ رہا اور اس حوالے سے پیرس میں جو عالمی مارچ ہوا وہ سوائے منافقت کے اور کچه نہیں تها اور اس نے اسرائیل کی جانب سے بمباری اور فائرنگ سے ماردئے جانے والے صحافیوں کی ایک لسٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بهی آزادی اظہار کا قتل تها مگر اس پر تو کسی نے اسرائیل کی مذمت اس انداز میں نہیں کی تهی جیسے شارلی ایبڈو کے ایڈیٹر کے قتل پر کی گئی
اس سے ملتا جلتا بیان ترکی کے صدر طیب اردوغان کی جانب سے بهی آیا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ان بیانات میں مغربی حکومتوں کی منافقت اور نام نہاد آزادی اظہار کا جو پردہ فاش کیا گیا وہ غلط ہے یا اس میں صداقت نہیں ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ جب میں نے اس خاتون صحافی کی تقریبا تمام پوسٹوں اور شئیرنگ کا جائزہ لیا تو مجهے ایک بهی جگہ حماس اور کئی اور فلسطینی گروپوں کی جانب سے شام ، عراق اور پاکستان سمیت مسلم دنیا میں دیوبندی وهابی تکفیریت کے ہاتهوں زبح ہونے والے صحافیوں اور محض عقیدے کی بنیاد پر مار دیئے جانے والے لوگوں کے حق میں اور اس تکفیریت کے خلاف ایک بهی پوسٹ یا شئیرنگ ایسی نہیں ملی جو اس کو آزادی اظہار کا قتل کہتی ہو ، اس طرح کی خاموشی بهی تو ایک طرح کی اپالوجی ہے جو فلسطین کے حماس نواز صحافیوں ، دانشوروں کے ہاں نظر آتی ہے
کے بی فراق بهائی نے اس سٹیٹس کو اس لئے شئیر کیا ہوگا کہ ایک طرف تو مغربی استبلشمنٹ کی منافقت کا پول کهلے ساته ساته ان کے لاشعور میں اس کو شئیر کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں اپنا بلوچستان بهی تو ہوگاجہاں بیسیوں صحافی ، دانشور ، ادیب اور شاعر اس لئے مار دیے گئے کہ وہ پاکستانی ریاست کے بلوچستان بارے بیانیہ سے ہٹ کر جو ان کی نظر میں سچ تها اسے رپورٹ ، فکشن اور نظم کی شکل میں پیش کررہے تهے اور ان کے قتل کو بهی پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اتنی شدت سے اور اتنی طاقت سے آزادی اظہار کا قتل نہیں کہہ رہا تها اور نہ کہہ رہا ہے جتنا وہ پاکستانی ریاست کے بیانیہ سے اتفاق کرنے والےکسی صحافی، ادیب ، دانشوریا شاعر کے مارے جانے پر کہتا ہے ،
آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دوران مارے جانے والے بچوں ، اساتذہ کی شہادت پرجو ردعمل آیا اور جس طرح کے اقدامات اٹهائے گئے اس سے بهی ایسے ہی سوالات بلوچ قوم پرست حلقوں کی طرف سے بهی اٹهائے گئے تهے اور ان میں بهی صداقت موجود تهی ، شیعہ ، صوفی سنی نسل کشی کے زمہ داروں کے بارے میں تیرگی و تاریکی پسند اپالوجسٹ بهی اسی زمرے میں آتے ہیں ، ہندوستان کا مین سٹریم میڈیا بهی جب آدی واسیوں ، ڈیم متاثرین اور ماوسٹ تحریک و کشمیر سوال کی بات آتی ہے تو ایسی خاموشی کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہاں اسے آزادی اظہار کا قتل نظر نہیں آتا
گویا اپالوجی سیکنگ ایک ایسا مرض ہے جو متعدی ہے اور ہمیں بہت سے آزادی اظہار کے علمبرداروں کے ہاں نظر آتا ہے اور پورے سچ کا بیانیہ نایاب سودا ہے جس کے بیچنے اور خریدار دونوں اگر معدوم نہیں تو کمیاب ضرور ہیں