بڑھتی جاتی ہے تیرگی ۔ شمعیں فروزاں کرنا بھی مشکل ٹھہر گیا – عامر حسینی

1559588_786856584697625_3896157055906297608_n

میں نے اپنی زندگی میں بہت سی اداس شاموں میں یہ جہان چھوڑ کر جانے والوں کی یاد میں موم بتیاں اور چراغ جلائے اور درجنوں شہروں میں گلی ،گلی ،کوچہ ،کوچہ اور چوکوں اور چوراہوں پر یہ مشق درجنوں بار کی ہے لیکن کبھی میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی موٹر سائیکل سوار یا پیدل چلنے والا اچانک وہآں آئے اور آپ کو اس عمل سے روکے اور کہے کہ یہ رسم مت کرو ، یہ خلاف اسلام ہے

میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ماہ و سال ایسے دیکھے جب سال نو پر ہمیں موسیقی کا پروگرام کرنے یا کلچرل شو کرنے پر جمعیت کے صالحین کی فسطائیت کاسامنا کرنا پڑا لیکن ان دنوں میں کم از کم کسی کے بم دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے پر شمع جلانے کے پروگرام پر کسی کو حملہ آور ہوتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کو شمیعیں جلانے والوں کو یہ کہتے سنا کہ یہ عمل غلط ہے ، یہ یہودیوں کا طریقہ ہے

لیکن اس مرتبہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ جیسے ہی انجمن ترقی پسند مصنفین خانیوال ، پیپلز یوتھ آرگنائزیشن ، بیٹھک آرگنائزیشن کی جانب سے راولپنڈی چٹیاں ہٹیاں امام بارگاہ ابو محمد رضویہ کے سامنے ہونے والے بم دھماکے میں شہید ہونے والوں کی یاد میں موم بتیاں روشن کی گئیں تو ایک نوجوان جس کی عمر مشکل سے انیس سال ہوگی موٹر سائیکل پر آیا اور اس نے وہاں پر موجود شرکاء کو یہ کہنا شروع کردیا کہ موم بتیاں روشن کرنا عیسائی اور یہودیوں کا فعل ہے اور یہ غیر اسلامی طریقہ ہے ،اسے بند کردیا جائے “اور ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ نوجوان جس شخص سے مخاطب تھا وہ خود ایک کرسچن تھا اور اس کے چہرے پر اس وقت جو تاثرات تھے وہ بے بسی اور کرب کے تھے

میں اس دوران آگے بڑھا اور اس نوجوان سے اس کا تعارف پوچھا ، اس سے مکالمہ کچھ یوں ہوا  بیٹا ! آپ کا نام کیا ہے ؟
نوجوان : مرا نام معاویہ ذوالفقار ہے 

سبحان اللہ کیا نام ہے ، مرے منہ سے بے اختیار نکلا  بیٹا آپ کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں ؟ اور مکتبہ فکر کیا ہے ؟
نوجوان : میں حافظ ذوالفقار کا بیٹا ہوں جو سپاہ صحابہ پاکستان کے سٹی صدر تھے ، اور میں بھی اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتا ہوں ، سنّی حنفی دیوبندی ہوں

بیٹا کیا آپ نے باقاعدہ سے مفتی کورس کیا ہوا ہے جو آپ اس عمل فروزگی شمع کو بدعت و گناہ قرار دے رہے ہیں  نوجوان : نہیں لیکن مجھے معلوم ہے اور ہمارے علماء نے ہمیں یہ بتایا ہے بیٹا ایک تو بات یہ ہے کہ یہاں جتنے لوگ جمع ہیں وہ مختلف مکاتب فکر اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کے نزدیک کسی کی یاد میں شمع روشن کرنے کا عمل کسی گناہ کے زمرے میں نہیں آتا اور وہ اسے کوئی مذھبی رسم جان کر نہیں کررہے بلکہ یہ مرنے والوںسے اظہار یک جہتی اور ان کے قاتلوں کے خلاف ایک احتجاج ہے ، اس کے کوئی مذھبی معنی ہے نہیں تو یہ عمل کسی بھی طرح سے گناہ ثواب کے زمرے میں نہیں آتا

ابھی میں اس نوجوان سے یہ مکالمہ کررہا تھا کہ ایک پرجوش نوجوان موٹر سائیکل پر وہآں آکر رکا اور اس نے معاویہ زوالفقار نامی اس نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  کل تم فلاں بلاک میں کیا کررہے تھے جہآں مجرا ہورہا تھا اور تمہاری تو وڈیو بھی مرے پاس ہے اور وہاں لوگ شراب بھی پئے ہوئے تھے ، اس وقت تہمارا تصور بدعت و شرک کہاں چلا گیا تھا

ابھی کل تک تو تم ہم اہلسنت کو کہتے تھے کہ اولیائے کرام کے ایام منانا ، عید میلاد کا جلوس نکالنا بدعت ہے ، شرک ہے اور تم اب خود ایام وفاتہائے خلفائے راشدین پر جلوس نکالتے ہو ، ان ایام پر تعطیل کا مطالبہ بھی کرتے ہو ،اب وہ بدعت و شرک کے تصور کدھر گئے میں نے اس نوجوان کو کہا کہ  آپ اگر کسی فعل کو شرک و بدعت خیال کرو ، اس کے نہ کرنے کے قائل ہو تو اس کا آپ کو پورا حق ہے لیکن جب آپ کے قول و فعل میں تضاد نظر آئے گا تو لوگ ایسے ہی اعتراض کریں گے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں سنّی بریلوی ، شیعہ ، اور دیگر مکاتب فکر کے ہاں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو آپ کے ہاں شک و بدعت ہوں گی مگر ان کے ہاں نہیں ہیں تو پھر آپ کیوں اس طرح سے مداخلت کرتے ہیں

یہ مکالمہ ابھی ختم ہوا ہی تھا کہ دو حضرات اور تشریف لے آئے اور انھوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ ” یہود و نصاری سے مشبہات رکھنے والے افعال کے مرتکب ہورہے ہیں میں ان دو احباب کو جانتا تھا ، وہ جماعت دعوہ کے رکن تھے اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ اس ملک کی اکثریت کے ہاں شمع روشن کرنا ، ایام ہائے وفات پر متوفیان کو یاد کرنا ہرگز برا کام نہیں ہے اور آپ کو اگر یہ برا لگتا ہے تو آپ شریک نہ ہو

میں نے یہ سارا مکالمہ اس لیے درج کیا کہ اس سے پہلے عام ملاقاتوں اور نشستوں میں تو اس طرح کا فکری جدال ہوجایا کرتا تھا لیکن یہ نہیں ہوتا تھا کہ آپ اس طرح سے جاکر مداخلت کریں ، یہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی وہابیانہ تعبیر و تشریح کی عملی شکل ہے جو ایک وبا کی طرح اب ہر طرف پھیلتی نظر آرہی ہے
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ سب ایک مرتبہ پھر دیوبندی ،اہل حدیث مکتبہ فکر کے اندر موجود انتہا پسند تکفیری روش رکھنے والے عنصر کی طرف سے ہوا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار جب بھی کیا جاتا ہے تو بعض لبرل اور بعض اعتدال پسند دیوبندی حضرات کو بھی بر ا لگ جاتا ہے لیکن اب اس کا کیا کریں کہ ہر انتہا پسندی کا الا ماشاء اللہ کھرا پھر تکفیری دیوبندی انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے

10394058_786856268030990_508355136072205222_n

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.