راولپنڈی امام بارگاہ بم دھماکہ : شہر میں شیعہ آبادی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے نرغے میں ہے

Shia under Siege in Rawalpindi


چٹیاں ہٹیاں جوکہ راولپنڈی شہر کا قدیم اور گنجان علاقہ ہے ،وہاں پر امام بارگاہ ابو محمد رضویہ قائم ہے جہاں 9 جنوری 2015ء کو اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جشن ولادت امام جعفر صادق منایا جارہا تھا جوکہ شیعہ کے چھٹے امام ہیں ، چٹیاں ہٹیاں اندرون شہر راولپنڈی کا وہ علاقہ ہے جس کے چار کلومیٹر کے دائرے میں شہر کی 10 امام بارگاہیں موجود ہیں
شیعہ کمیونٹی کو نشانہ اس شہر میں بنایا گیا جس میں آرمی کا جنرل ہیڈکوارٹر ، ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر اور آئی ایس آئی کا مضبوط سیٹ اپ ہے جبکہ آئی بی ، سپیشل برانچ ، کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ بھی موجود ہے اور ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں چیف منسٹر پنجاب ، چیف آف آرمی سٹاف ، کورکمانڈر لاہور ، ڈی جی آئی ایس آئی اور سول سیکورٹی فورسز و انٹیلی جنس ایجنسیز کی باہمی میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں انسداد دھشت گردی کے حوالے سے آرمی اور سویلین کے درمیان تعاون پر لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا ، اور نیکٹا کے فعال کئے جانے ، و‌ذرات داخلہ کی جانب سے مذھب ، مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر دھشت گردی کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی خبریں آرہی تھیں ، لیکن ان وعدوں کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ امام بارگاہ ابو محمد رضویہ نشانہ بن گئی
حالات اور واقعات نیز شواہد سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ پنجاب حکومت ، وفاقی وزرات داخلہ ابھی تک فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ ، صوفی سنّی نسل کشی کے زمہ دار تکفیری ، انتہا پسند دیوبندی نیٹ ورک کے خلاف اتنی سنجیدگی اور طاقت سے اقدامات کرنے کے حق میں نہیں ہے جتنی طاقت کے ساتھ وہ فوج ، ایف سی ، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف اقدامات کرتی نظر آتی ہے اور اس غیر سنجیدگی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اربن سنٹرز میں شیعہ آبادی کی گھیٹوآئزیشن کا عمل جاری ہے اور جہاں جس شہر میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے ،وہآں محاصرے کی سی کیفیت اور حالت ہے ، یہ حالت کوئٹہ ، پشاور ، کراچی اور اب راولپنڈی میں بھی صاف نظر آرہی ہے
روزنامہ ڈان جو کہ انگريزی زبان کا کثیر الاشاعت اخبار ہے ،اس نے کراچی کے کئی علاقوں میں موجود رہائشی اور کمرشل ایریاز سے شیعہ کمیونٹی کے رہائشیوں کی نقل مکانی اور کاروبار بند کئے جانے کی کئی ایک خبریں شایع کیں ، گذشتہ ہفتے دو سگے بھائیوں کی ٹارگٹ کلنگ گول مارکیٹ کراچی میں ہوئی تو اس بارے رپورٹ کرتے ہوئے رپورٹر نے لکھا کہ
” ایسا لگتا ہے کہ گول مارکیٹ میں جو شیعہ کاروبار کرتے ہیں ان کی بے دخلی کے لیے یہاں پر شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے ، جبکہ اس دوران چھے پرنٹنگ پریس کے مالکان جو شیعہ تھے مار دئے گئے ”
جامعہ کراچی کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ کراچی میں شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ ، ان کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ اپنے کاروبار بند کریں ، اپنی بند قسم کی کالونیوں میں منتقل ہوں اور ان کی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل بھی سب سے بڑا ہدف ہیں اور یہ منظم قسم کا فاشزم سب کو معلوم ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی انتہا پسند تنظیم اہل سنت والجماعت کے چھاتہ تلے ہورہا ہے جس کے اراکین ٹی ٹی پی ، جند اللہ ، لشکر جھنگوی ، القائدہ ، جماعت الاحرار وغیرہ میں تو ہیں ہی ، ان کی رکنیت جے یو آئی ایف ، جے یو آئی س میں بھی نظر آتی ہے اور یہ افغانستان ، پاکستان ، عراق و شام میں نام نہاد جہاد میں ملوث تنظیموں میں ہی جڑ نہیں رکھتے بلکہ ان کی جڑیں ” کشمیری عسکریت پسند دیوبندی تنظیموں ” میں بھی ہیں اور اہل سنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کی جڑیں دیوبندی مدارس کی چھاتہ تنظیم وفاق المدارس میں بھی کافی مضبوط ہیں ، اس وقت وفاق المدارس العربیہ دیوبندی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولوی عبدالرشید تکفیری ہیں اور انھوں نے تو فوج کے طالبان سے لڑنے والے سپاہیوں کی موت ہونے پر جنازہ ان کا نہ پڑھنے کا فتوی بھی جاری کیا ہے
دیوبندی تںطیم سپاہ صحابہ پاکستان جو اب اہلسنت والجماعت کے نام سے سرگرم ہے کا راولپنڈی شہر کے اندر کام جیسے جیسے بڑھا ویسے ویسے ہی شہر میں شیعہ ، سنّی بریلوی ، کرسچن پر بھی دباؤ بڑھتا گیا اور راولپنڈی میں شیعہ آبادی کی اکثریت کے علاقے تو ایک طرح سے حالت حصار میں ہیں اور اہلسنت والجماعت کا بہت واضح ایجنڈا ہے کہ ایک طرف تو شیعہ کو مرتد قرار دیکر لوگوں کو ان کے قتل کا جواز فراہم کرتے ہيں ، دوسرا شیعہ کے عاشور کے جلوس ان کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور تیسرا یہ شیعہ امام بارگاہوں کو بند کرانا چاہتے ہیں اور ان کا چوتھا بڑا ہدف شیعہ کمیونٹی کے پروفیشنل اور بزنس کمیونٹی کے افراد کی کلنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کا نیٹ ورک ترقی کرتا ہے ، وہیں سے ایک تو دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے لیے ریکروٹمنٹ میں تیزی آجاتی ہے تو دوسرا ان علاقوں میں ان تنظیموں کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور ان کے سلیپنگ سیل بھی آسانی سے قائم ہوجاتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کے راستے سے ان تنظیموں کا نفوز دیوبندی مدارس اور دیوبندی مکتبہ فکر کی سیاسی تںطیموں جو بظاہر تکفیری نہیں ہیں میں بڑھ جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شیعہ نسل کشی اور شیعہ آبادی کو معاشرے سے خارج کرنے کا عمل یا الگ تھلگ کرنے کی کوشش عروج پر ہے بلکہ اس سے سنّی بریلوی آبادی پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے
امام بارگاہ فاطمیہ ، امام بارگاہ عاشق حسین ، امام بارگاہ ماسٹر جبار ، امام بارگاہ علی سرکار ، امام بارگاہ انیس زیدی ، امام بارگاہ حفاظت علی اور دربار چن شاہ چراغ ، امام بارگاہ کرنل (ر) مقبول حسین ، دربار شاہ ٹلیاں اور امام بارگاہ شہیدان کربلا ٹائروں والا چوک
راولپنڈی شہر ایک زمانے تک جامعہ مسجد روڈ اور کمیٹی چوک تک محدود تھا اور یہ شہر ایک زمانے تک سنّی بریلوی اکثریت پر مشتمل تھا اور دوسری بڑی مسلم آبادی شیعہ کی تھی جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث آٹے میں نمک کے برابر تھے اور ان کی تعداد میں اضافہ 80ء کی دھائی میں شروع ہوا اور یہ زیادہ تعداد افغان ، خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں سے آنے والے دیوبندیوں پر مشتمل تھی ، جبکہ یہ شہر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے بھی بہت مثالی تھا ، لیکن 80 ء کی دھائی سے شہر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا اس وقت خراب ہونا شروع ہوگئی جب جنرل ضیاء الحق ، سعودی عرب کی سرپرستی میں دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر سپاہ صحابہ پاکستان کی شکل میں تکفیری انتہا پسندی نے جنم لیا ، چٹیاں ہٹیاں کے علاقے میں دیوبند مکتبہ فکر کی چار مساجد تھیں ، جن میں کیلے والی مسجد اور مسجد مولوی ستار والی اور جامع مسجد تعلیم القرآن پر متشدد ، تکفیری دیوبندی رنگ بہت گہرا ہوگیا اور جامعہ تعلیم القرآن کو خاص طور پر ضیاء الحق کی نظر عنائت اور سرپرستی میسر آئی ، کیلے والی مسجد اور مسجد ستار والی جو چٹیاں ہٹیاں امام بارگاہ کے قریب واقع ہیں میں مولوی ستار کے بیٹے سپاہ صحابہ پاکستان جو اب اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کرتی ہے کے سرگرم رہنماء ہيں اور شیعہ کے خلاف آتشیں تقاریر کے ماہر خیال کئے جاتے ہیں
راولپنڈی میں شیعہ کی جہآں قریب قریب دس امام بارگاہیں موجود ہیں اور زیادہ شیعہ آبادی بھی وہيں رہتی ہے وہاں شیعہ آبادی دیوبندی وہابی انتہا پسندوں کے سخت دباؤ ميں نظر آتی ہے اور ایک طرح سے محاصرے کی حالت میں ہے ، ان امام بارگاہوں کے نزدیک دیوبندی مساجد اور مدرسے نہ صرف امام بارگاہوں کے لیے خطرہ بنتے رہتے ہیں بلکہ وہاں سے تکفیری دھشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ ملتی رہتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ 2013ء میں عاشور کے مرکزی جلوس پر جامعہ تعلیم القرآن سے حملہ ہوا اور اس کے بعد دیوبندی مدرسوں کے طالب علموں نے امام بارگا حضرت علی نذر آتش کی جبکہ امام بارگاہ شہیدان کربلا دو مرتبہ نذر آتش ہوئی اور امام بارگاہ ابو محمد رضویہ پر حملہ کرنے کی کوشش ہوئی تھی ۔ دیوبندی تکفیری انتہا پسندوں اور دھشت گردوں کے دباؤ اور خطرات کے باعث شیعہ علماء کونسل کے رہنماء اقبال روڈ پر بنے اپنے مدرسے کو دوسری جگہ شفٹ کرنے پر مجبور ہوگئے
دیوبندی تکفیری تںطیموں اور افراد کا شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھانے میں کامیابی کا ایک سبب مسلم لیگ نواز کی پنجاب حکومت بھی ہے جوکہ پیپلز پارٹی کی طرح وفاق اور راولپنڈی میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان المعروف اہل سنت والجماعت کی سرگرمیوں کو نہ روکنا بلکہ ان کے ساتھ اتحاد بنانا اور ان کی مرضی کی تعیناتیاں کرنا ہیں ، اس وقت ایس پی سٹی ہارون جوئیہ کے بارے میں یہ رپورٹس ہیں کہ وہ دیوبندی تکفیری اہلسنت والجماعت کے قریب ہیں اور شیعہ آبادی اور امام بارگاہوں کو سیکورٹی فراہم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے اور اس کا ثبوت یہ ہے کا امام بارگاہ ابو محمد رضویہ پر دھشت گردی کا واضح خطرہ موجود ہونے کے باوجود بم بلاسٹ کے وقت وہآں دو پولیس اہلکار تعنیات تھے جبکہ دو مرتبہ نذر آتش ہونے والی امام بارگاہ شہیدان کربلا کی سیکورٹی بھی پولیس نے واپس لے رکھی ہے
راولپنڈی میں شیعہ آبادی پر دباؤ کا ایک اور سبب اسلام آباد میں دیوبندی تکفیری دھشت گردوں اور ان کے ہمدردوں اور بلڈر ٹائیکونز کا اشتراک بھی ہے اور وفاقی وار الحکومت میں سپاہ صحابہ پاکستان یعنی اہلسنت والجماعت کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ بھی ہے اور اس میں لال مسجد ، جامعہ حفصہ اور اس کے نگران مولوی عبدالعزیز نے اہم کردار ادا کیا ہے اور راولپنڈی میں اہلسنت والجماعت کی مرکزی قیادت لدھیانوی ، اورنگ زیب فاروقی ، قاری خادم ڈھلوں ، عالم طارق ، آصف معاویہ کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور اس طرح سے سنّی بریلوی اور شیعہ اکثریت کا شہر راولپنڈی تکفیری دیوبندی وہابی اقلیت کے نرغے میں نظر آرہا ہے
راولپنڈی پاکستان کے ان اربن سنٹرز میں سے ایک ہے جہآں پر تکفیری دیوبندی وہابی فاشزم نے تیزی سے ترقی کی ہے اور یہ شہر ان شہروں ميں شامل ہوگیا ہے جہآں پر اگر تکفیری دیوبندی وہابی فاشسٹ نیٹ ورک کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا تو وہاں بھی کراچی ، کوئٹہ کی طرح بڑے پیمانے پر شیعہ ، صوفی سنّی نسل کشی سامنے آسکتی ہے
موجودہ وفاقی حکومت ، صوبائی حکومتیں ، سیاسی جماعتیں دھشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور مذھبی دھشت گردی کے وجودی خطرے کا اعتراف تو کررہی ہیں لیکن وہ ابھی تک دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے حامی اور شیعہ و صوفی سنّی نسل کشی کے زمہ دار سپاہ صحابہ / اہلسنت والجماعت کی طرف دار دیوبندی تنظیم وفاق المدارس اور جے یو آئی ایف کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہیں ۔ جب تک دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت کے نیٹ ورک پر پابندی نہیں لگتی اور اس کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاتا شیعہ نسل کشی کا رکنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی شیعہ آبادی کی مارجلنائزیشن کا عمل روکا جاسکتا ہے

http://www.dawn.com/news/1156275/no-safe-haven-for-pindis-shias-coping-with-loss-of-their-best-sons

http://www.dawn.com/news/1156321/govt-to-act-against-violent-banned-outfits-only

Comments

comments