علامہ ابتسام الہی ظہیر کی خدمت میں۔۔۔۔از نور درویش

علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب کا یہ کالم میں نے تین چار دفعہ پڑھا یہ سمجھنے کے لیئے کہ قبلہ ھمیں سمجھانا کیا چاہ رھے ھیں۔ آخر  کار سمجھ آ ھی گئی۔ علامہ صاحب کا اصل مدعا مذھبی جماعتوں اور مدارس پر کیا جانے والا اعتراض ھے جسے دینی جماعتیں قطعا برداشت کرنے کو تیار نہیں، اور مجھے پورا یقین ھے کہ علامہ صاحب خود بھی یہ ھی رائے رکھتے ھیں۔علامہ صاحب دینی جماعتوں اور مدرسوں کو شدت پسندی کی بنیادی وجہ کہنے  کو مذھب پر اعتراض سے تعبیر کر رھے ھیں جو کہ ایک حیران کن منطق ھے۔ شاید علامہ صاحب کے علم میں نہیں کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والے مدارس اور تکفیری یا شدت پسندانہ رجحان رکھنے والی مذھبی جماعتوں پر اعتراض کو محض ایک طبقے سے جوڑا نہیں جا سکتا، پاکستان کا اکثریتی مکتب فکر بریلوی سے تعلق رکھنی والی کثیر جماعتیں اور ان کے قد آور رھنما ببانگ دھل مسلک دیوبند کے زیر انتظام چلنے والے مدارس اور تکفیریت کا پرچار کرنے ۔والی جماعتوں پر اعتراض کرتے ھیں اور کرتے رھے ھیں۔ مفتی سرفراز نعیمی کو اسی بنا پر شہید کر دیا گیا۔  حیران کن طور پر مدارس کی مانیٹرنگ کے مطالبے پر رد عمل بھی صرف دیوبندی جماعتوں کی جانب سے آیا ھے جس میں مولوی فضل الرحمن سر فہرست ھیں جن کی پشت پناہی کیلیئے اب سپاہ صحابہ بھی میدا ن میں کود پڑی ھے۔  

 

علامہ صاحب سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ معاشرے میں عدم برادشت کر ذکر تو آپ نے کر دیا،  یہ بھی بتا دیا کہ اس عدم برداشت کی وجہ باھمی حسد، نظریاتی اختلافات اور تکبر ھے، تاریخی اور قرانی حوالے بھی پیش کر دیئے لیکن کیا وہ یہ بتا سکتے ھیں کہ اس عدم برداشت کے نتیجے میں سب سے شدید رد عمل کن حلقوں کی جانب سے آتا ھے؟ کیا تکفیری گروہ نظریاتی اختلاف ھی کی بنیاد پر معصوم لوگوں کو خون نہیں بہاتے؟ کیا ان تکفیری گروہوں کے   تانے بانے مخصوص مدارس سے نہیں ملتے؟ کیا سیکیولر نظریات کے حامیوں، کسی بریلوی سنی، شیعہ یا احمدی نے نظریاتی اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی مخالف کی جان لینے کی کوشش کی؟ کسی کی کھلے عام تکفیر کی یا لشکر جھنگوی کے رھنما ملک اسحق کی طرح ببانگ دھل شییعوں کے قتل عام کا اعلان کیا یا مولوی برقعہ کی طرح کھلے عام خود کش حملوں کی دھمکی دی؟ یقینا نہیں۔  تو پھر عدم برداشت کا سبق کس کو پڑھانے کی ضرورت ھے؟ ھم کسی بھی صورت علامہ صاحب کی اس دلیل کو ماننے کو تیار نہیں جس میں اس سارے معاملے کو معاشرے میں موجود عدم برداشت، باھمی حسد اور تکبر سے تعبیر کیا گیا ھے۔ یہ صرف اور صرف مجرموں اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ھے۔ مذھبی انتہا پسندی خلاف آواز اٹھانے والوں میں سب سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ھی ھے جو ان کی انتہاد پسندی کا شکار ھیں، چاھے سنی بریلوی ھوں، شیعہ ھوں یا دیگر اقلیتیں۔ اس میں مذھب کے خلاف بات کرنے کا پہلو کہاں سے نکال لیا علامہ صاحب نے، معلوم نہیں۔

کیا بینظیر کے قتل کی سازش مولوی سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ میں نہیں ھوئی؟ کیا بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور ملا فضل اللہ سمیت بہت سے سرکردہ  طالبان رھنما مدرسوں کے پڑھے ھوئے نہیں ھیں؟ کیا کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گردوں میں سے اکثر کا تعلق مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے نہیں ھوتا؟ علامہ صاحب فرماتے ھیں کہ مذھبی جماعتیں بھی انتہا پسندی کی مذمت کرتی ھیں۔ ھم یہ جاننا چاہیں گے کہ ان کی اپنی جماعت سمیت کس سلفی یا دیوبندی جماعت نے  طالبان کا نام لیکر مذمت کی؟ کس نے اپنے آپ کو لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے تکفیری گروہوں کا ناقد ھونے کا ثبوت دیا؟ علامہ صاحب سمیت تمام طالبان حمایتی جماعتیں آج تک اگر مگر چنانچہ کیونکہ گویا جیسے لفظوں سے باھرنہ نکل سکیں ۔ انتہا پسند جماعتوں اور مخصوص طرز فکر کے تحت چلے والے مدرسوں کی مذمت کو آپ مذھب کے خلاف بات کرنے سے جوڑ رھے ھیں؟ گویا سارے معاملے کو سیکیولر اور مذھبی نظریات کی جنگ قرار دے رھے ھیں؟ ایک اھل علم سے ایسی سطحی تاویل کی توقع نہ تھی۔  آپ معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ھیں اور اس کے لیئے بنیادی منطق ھی غلط پیش کردیتے ھیں تو کیسی اصلاح اور کیسی تبلیغ۔ 

 

//

علامہ صاحب گفتگو کا اختتام اس نتیجے پر کرتے ھیں کہ جس طرح مذھبی انتہا پسندی کی مذمت کی جاتی ھے اسی طرح مذھب کے خلاف نفرت بھی نا قابل قبول ھے۔  اس جملے سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ھیں کہ علامہ صاحب کی منشاء معاشرے کی اصلاح نہیں بلکہ کچھ اور ھے۔ 

Comments

comments