سلمان تاثیرکی شہادت اور تکفیریت و ملائیت کے خلاف پیپلز پارٹی کی جنگ – عامر حسینی
چار جنوری دوہزار گیارہ کی وہ کہر آلود سہ پہر تهی جب میں اعظم بهائی اور مصدق مہدی جعفری کے ساته فورٹ ریسٹورنٹ میں کافی سپ کررہا تها اور بہت ظالم اتفاق تها کہ ہماری گفتگو کا موضوع سلمان تاثیر تها – اعظم بهائی نے سلمان تاثیر کی پاکستان پیپلزپارٹی کے دور ابتلا یعنی ضیاء دور اور پهر 1988ء میں پنجاب میں نواز شریف حکومت کے ہاتھوں زبردست پراسیکوشن کے زمانے میں اپوزیشن کاٹنے کا زکر شروع کیا تها اور تهانہ سبزہ زار میں ان پر الٹا لٹکاکرہونے والے تشدد کا زکر آیا ہی تها کہ کہ سامنے ایل سی ڈی سکرین پر بریکنگ نیوز آئی کہ گورنر سلمان تاثیر پر پنجاب حکومت کے پولیس اہلکار نے فائرنگ کی اور تهوڑی دیر بعد ان کی شہادت کی خبر آگئی
سلمان تاثیر کی شہادت کو آج جب کئی سال گزرگئے ہیں اور ان کے قاتل کا اعتراف جرم اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس کو پهانسی کی سزا سنادی ہے تو بهی اس سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا – سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کی مظلومیت کا جو سوال اس وقت کهڑا کیا اور انہوں نے پاکستان میں بلاسفیمی ایکٹ میں انوسٹی گیشن کے حوالے سے جو سوالات اٹهائے تهے ان کو سب سے پہلے کسی ملا ، یا مذهبی جنونی نے توهین قرار نہیں دیا اوربلکہ یہ مہر بخاری، انصار عباسی جیسے میڈیا پرسنز تهے جنهوں نے سلمان تاثیر کے خلاف اشتعال اور لوگوں کے مزهبی جذبات کو ابهارنے کا کام کیا تها اور پهر اس نام نہاد آزاد میڈیا کے چند بڑے ٹی وی چینلز نے اپنے کئی ایک معروف ٹاک شوز میں بلاسفیمی لاءز کے حوالے سے پی پی پی کی حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی ریفارم کمیٹی بارے سازشی مفروضوں کو پروان چڑهایا اور ایسے مولوی بلواگئے جنهوں نے آو دیکها نہ تاو اور جهٹ سے سلمان تاثیر کو گستاخ رسول قرار دے ڈالا اور ایک پوری میڈیا کیمپین سلمان تاثیر کے خلاف لانچ کردی گئی
سلمان تاثیر عرف عام میں ایک کهلا ڈلا مسلمان تها ، ویسا ہی مسلمان جیسے لاہور کی اکثریتی آبادی کےسنی بریلوی مسلمان ہوتے ہیں اور وہ کسی بهی لحاظ سے نہ تو ملحد تها اور نہ ہی وہ الحاد کی تبلیغ کرنے والا تها ، اس کے گلے میں آیت الکرسی والا تعویز ہر وقت ہوتا تها جسے وہ واش روم جاتے ہوئے اتار دیا کرتا تها ، کبهی کسی قل خوانی ، محفل نعت میں جانے کا اتفاق ہوتا تو جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانام نامی آتا تو یہ دونوں انگهوٹهوں کے ناخن اپنے ہونٹوں اور آنکهوں کو لگاتا تها ، میلہ چراغاں عرس حضرت میاں میر ہو کہ حضرت داتا گنج بخش کا سالانہ عرس مبارک ہو، تاثیر اگر لاہورمیں ہوتا تو ضرور شریک ہوتا ، صوفی اسلام سے محبت اسے اپنے گهر سے ملی تهی
اس وقت برٹش و امریکی سامراجیوں کو صوفی اسلام کی بجائے وهابی دیوبندی اسلام سے پیار ہے لیکن پی پی پی کے دشمنوں اور سلمان تاثیر کے روادار اور صلح کل سے نفرت کرنے والوں کو تو ایک ہی جهوٹ بولنا مرغوب ہے کہ سلمان تاثیر اور پیپلز پارٹی کو برصغیر کے صوفی کلچر سے محبت امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے – سلمان تاثیر کے والد اے ڈی تاثیر اندرون لاہور میں غازی علم الدین شہیدکی میت کو کفن دینے اور چارپائی تک دینے کے سزاوار ٹهہرے تهے جب لاہور میں برٹش سامراج کے خوف سے غازی علم دین کو کہیں سے کفن دستیاب نہیں تها اور راجپال پبلشر کے بارے میں خود سلمان تاثیر کے خیالات کیا تهے یہ سلمان تاثیر کے کلاس فیلوز اور قریبی دوستوں سے پوچهے جاسکتے ہیں
سلمان تاثیر ملائیت اور اس کی تکفیری فتوی گیری سے گهبرانے والا نہیں تها اور وہ لاہور کا ایک سپوت ہونے اور ایک ایسا آدمی ہونے کہ جس کے گهرانے کو سارا لاہور جانتا تها یہ تصور نہیں کرتا تها کہ کوئی اس کو واقعی گستاخ رسول خیال کرلے گا اور جاهل مولویوں کے کہنے پر اسے قتل کرنے جیسی جسارت کرلے گا
میں سمجهتا ہوں کہ سلمان تاثیر کیا بے نظیر بهٹو بهی پاکستان کے اندر 1999ء کے بعد کے ایک عشرے کے اندر تیزی سے پهیل جانے والی تکفیریت و خارجیت کے مکمل کلنگ مشین میں بدل جانے اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر اس کلنگ مشین کی انتہائی گہری جڑوں کے سرائت کرجانے سے بننے والی فضا کا ادراک نہ کرپائیں تهیں اور سلمان تاثیر بهی اسی سادگی کا شکار ہوگیا ، وہ زمانہ تو خواب ہوگیا جب لاہور سمیت پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں اعلانیہ ملحد جو اکثر کمیونسٹ ہوتے تهے آزادی کے ساته ٹی سٹال ، چهپر ہوٹل اور گلیوں محلوں میں بحث و مباحثہ کی نشستیں سجالیا کرتے تهے اور ان کو دائیں بازو والے بهی برداشت کرتے ، زیادہ سے زیادہ نوبت معمولی جهگڑے سے آگے نہیں بڑهتی تهی جبکہ لبرل ، سیکولر مسلم حلقوں کو تو کم از کم جان کا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا تها ، کفر کا فتوی دینے والے ملاوں کی بات پر کوئی کان نہ دهرتا جبکہ جس پر کفر کا فتوی لگتا وہ اس کو اعزاز خیال کرتا – پی پی پی ، نیپ اور کمیونسٹوں کے جلسوں میں مقررین اکثر یہ شعر پڑهتے پائے جاتے
ہر بات پہ کردیتا ہے تو اسلام سے خارج
اسلام تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
لاہور کی گلیاں اور کوچے ایسے معرکوں کی داستانوں کی گواہ ہیں اور یہاں پر پاک ٹی ہاوس ، عرب ہوٹل ، شیزان ہوٹل ، نگینہ بیکری ، بوٹا ٹی سٹال اور مال روڈ کے تهڑے ، موچی گیٹ اور بهاٹی گیٹ سب جگہ جدیدیت و روائت ، سیکولر ازم اور اسلام ازم کے فکری جدال سے بهرے ہوتے تهے اور یہیں پر صفدر میر ، فیض احمد فیض ، سردار مظہر علی ، ظہیر کاشمیری ،احمد بشیر ، عبداللہ ملک اور ان کے بعد آنے والے پکے ٹهکے کمیونسٹ ، سرخے ، جدلیاتی تاریخی مادیت پرست جس کا خمیر ہی الحاد تها رہے اور اس فضا کی جهلکیاں چراغ حسن حسرت ، اے حمید ، انتظار حسین ، کے کے عزیز ، احمد بشیر ، شورش کاشمیری ، عبداللہ ملک کی تحریروں میں دیکهی جاسکتی ہیں
سلمان تاثیر کی نگاہوں میں ایسا ہی لاہور بسا ہوا تها ، اسی لئے تو اس نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے صاف صاف کہا تها کہ اسے جاہل مولویوں کے فتووں کی کوئی پرواہ نہیں ہے مگر وائے قسمت کہ اب ایسے جاہل مولوی تو بہت آگے کی چیز بن چکے تهے اس سماج میں تو لوگوں کے لئے ٹی وی اینکر بهی مفتی اعظم اور شیخ الاسلام بن چکے تهے
ممتاز حسین المعروف ممتاز قادری جس نے سلمان تاثیر کو قتل کیا ایسا آدمی تها جس کے بارے میں ایلیٹ فورس کے آفیسر ناصر درانی کی رپورٹ سامنے آگئی کہ اس کے مذهبی جنونی ہونے، خاندان کے دیوبندی پس منظر کی وجہ سے اس کو گورنر کی سیکورٹی سے ہٹائے جانے کا خط لکها گیا تها لیکن اس پر کوئی نوٹس نہ لیا گیا، قادری کے لاحقہ تو اس کے نام کے ساتھ بہت بعد میں لگا، ممتاز حسین تو جدی پشتی دیوبندی تھا اور انتہا پسندانہ خیالات رکھتا تھا اس کے ایک دیوبندی مولوی امان الله کے ساته روابط کے شواہد بهی ملے ہیں نامور سنی بریلوی علما مولانا الیاس قادری امیر دعوت اسلامی، علامہ بشیرالقادری، مولانا ابوبکر چشتی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے بیانات بهی ممتاز حسین دیوبندی کی مذمت میں سامنے آئے ہیں، پی جے میر سے طاہر القادری کی گفتگو سلمان تاثیر کی شہادت کے فوری بعد اے آر وائی پر ظاہر ہوئی جو چشم کشا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلمان تاثیر کا کوئی جرم اور گناہ نہیں تها اور ممتاز حسین قانون کا مجرم اور قاتل ہے
سلمان تاثیر کو سلمان رشدی ثابت کرنے اور اس کے قتل کی راہ ہموار کرنا ایک سوچی سمجهی سازش تهی اور اس سازش کے تیار کرنے والے اکثر کردار وہ تهے جو نواز شریف و شہباز شریف کے دسترخوان پر بیٹهے تهے اور اس سازش کو مکمل کرنے کے لئے ضیاءالحق کی باقیات کو پوری طرح سے کام میں لایا گیا – مظفر گڑھ میں مسلم لگا نواز کے امیدوار قومی اسمبلی عباد ڈوگر دیوبندی نے تاثیر کو قتل کرنے والے کو ایک کروڑ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا اسی طرح کا اعلان پشاور کی مسجد مہابت خان کے دیوبندی مولوی یوسف قریشی نے بھی کیا جس نے آسیہ بی بی اور تاثیر کے خون کو حلال قرار دے دیا – بار، پریس، ملائیت کے اندر موجود ضیاء کے بچوں نے سلمان تاثیر کو شیطان اور ممتازحسین دیوبندی کو فرشتہ اور غازی بنانے میں کوئی کسر نہ چهوڑی، راولپنڈی بار میں جس وکیل نے ممتاز کے گالوں کو بوسا دیا اسے انعام میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججی مل گئی اور ممتاز کے وکلا کا ایڈوائزر، نواز شریف کا خدمتگار لاہور ہائیکورٹ کا سابق چیف جسٹس خواجہ شریف بنا جس نے اپنی ججی کے دوران بهی سلمان تاثیرقتل کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تهی – یاد رہے کہ تکفیری دیوبندی خوارج اس لئے بھی نالاں تھے کیونکہ تاثیر نے پنجاب میں شریف حکومت اور کالعدم تکفیری دیوبندی جماعت سپاہ صحابہ المعروف پنجابی طالبان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا تھا
تکفیری خوارج اور ان کے مدد گار شریف برادارن کے پراپگنڈے کی وجہ سے فضا اس قدر ناسازگار تهی کہ سلمان تاثیر کے قتل کی شام جب ہم نے احتجاج منظم کیا تو پی پی پی کے بهی کئی ایک بڑے نام ڈرکے مارے اس احتجاج میں شریک نہ ہوئے اور لاہور میں پی پی پی کے اکثر چوری کهانے والے مجنوں سلمان تاثیر کے گهر جانے سے ڈر گئے اور رسم قل پر بڑے بڑے جیالے غائب ہوگئے اور گورنر ہاوس میں نئے گورنر نے حلف اٹهاتے ہوئے سلمان تاثیر شهید کا نہ تو اپنی تقریر میں زکر کیا اور نہ ہی ان کی تصویر عقب میں لگائی جبکہ پہلی برسی پر سلمان تاثیر کی رہائش پر پی پی پی کی کوئی قابل زکر قیادت نظر نہیں آئی – ایک اکلوتے بلاول بهٹو تهے جنهوں نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کرکے ضیاء الحق کو روحانی اور نظریاتی اولاد کو للکارا تها
سلمان تاثیر کی شہادت پر اگر ملائیت اور تکفیریت کے آگے سرنڈر کرنے کی بجائے پی پی پی نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہوتا تو نہ ہی شہباز بهٹی کا قتل ہوتا ، نہ شہباز تاثیر کا اغوا ہوتا لیکن پی پی پی نے 74ء کی طرح سرنڈر کیا اور حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر سے بهی هاته دهوبیٹهی
سلمان تاثیر کی برسی پر پی پی پی کو لاہور میں بڑا جلسہ کرنا چاہیے تها تاکہ تکفیریت اور ملائیت کو صاف صاف پیغام ملتا کہ پی پی پی کی دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں اور عذر خواہوں سے جنگ جاری ہے
Late Salman Tasser was a great man and s/o even a greater man. His late father was my late father’s professor at Amritsar. I still have his hand written letters addressed to my father. People’s party’s leadership does not have back bone and courage to confront MULLAHS. In 1971,unfortunately Z.A.Bhutto destroyed Pakistan by not letting Mujib form the government and he did not stop there. In 1974 he solved the 90 year old “so called” QADIANI ” issue and let MULLAH take over the PAKISTAN. We are suffering from this MULLA CANCER for 40 years. I hope our ARMY can take care of this in next 2 years. Amen