حقایق کیا ھیں: افغانستان میں نیٹو کا جنگی آپریشن ختم کرنے کا اعلان اور طالبان کا اعلان فتح ۔ نور درویش
گارڈین کے مطابق تیرہ سالہ جنگ کے بعد نیٹو نے افغانستان میں اپنے جنگی آپریشن کے اختتام کا اعلان کر دیا ھے اور اب سپورٹ آپریشن کی صورت میں اپنا رول ادا کرے گا ۔ سیکیورٹی کے انتظام افغان آرمی اور پولیس کے حوالے کر دیا گیا ھے۔ 17000 سے 18000 کے قریب بین القوامی افواج 2014 کے بعد افغانستان میں موجود رھیں گی۔ ان میں سے 12000 افراد پر مشتمل افواج ایک سپورٹ مشن پر کام کریں گی جسے ریسولوٹ سپورٹ کا نام دیا گیا ھے جس میں ساڑھے پانچ ھزار امریکی فوجی بھی شامل ھونگے اور 500 کے قریب برطانوی فوجی بھی۔ یہ فوجی مختلف امور کی نگرانی کریں گے جن میں دہشت گردی کا مقابلہ اور افغان آرمی کی لاجسٹک مدد شامل ھے۔ یاد رھے کہ سنہ 2011 میں امریکن فوج کی افغانستان میں کل تعداد ڈیرھ لاکھ کے قریب تھی، جو سال 2014 کے بعد بتدریج کم ھوکر 5500 رہ جائے گی۔
Between 17,000 and 18,000 international troops will remain in Afghanistan after 2014, of which 12,000 – including approximately 470 British troops – will form part of the new Nato mission, named Resolute Support.
An additional 5,500 US soldiers will perform different roles, including counterterrorism and logistical assistance. At their peak in 2011, international forces numbered close to 150,000. (The Guardian)
ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل افغان فوج کی تیاری اور ٹریننگ کو نیٹیو اس آپریشن کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتا ھے۔ البتہ افغان فوج جدید ٹیکنالوجی، فضائی قابلیت اور انٹیلیجنس سپورٹ میں اب بھی کافی کمزور ھے جس کا اقرار نیٹو بھی کرتا ھے۔
امریکی فوج مستقبل میں فضائی مدد بھی فراھم کرتی رھے گی، جس کا اطلاق انتہائی ضروری صورتحال میں ھوگا۔ گذشتہ سال بھی افغان فوج کی جانب سے اس قسم کی مدد حاصل کی جاتی رھی ھے۔
گارڈین کے ھی مطابق، سال سیکیورٹی کے حوالے سے ایک خاطر خواہ سال نہیں رھا۔ افغان عام انتخابت سے لیکر اب تک بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات پیش آئی جن میں افغان سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ 10000 کے قریب شہری زخمی اور ھلاک ھوئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ھے کہ افغانستان کو قطعا ایک محفوظ جگہ قرار نہیں دیا جسکتا۔جس کی سو فیصد ذمہ داری باراک اوبامہ بھی لینے کو تیار نہیں۔
نیو یارک ٹایمز کے مطابق بارک اوباما کو امریکن ملٹری آفیشلز کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا ھے کہ امریکی افواج کو مکمل طور پر افغانستان سے مت نکالا جائے بلکہ ان کی محدود تعداد میں ان کو کافی سالوں تک افغانستان میں موجود رکھا جائے۔اس مشورہ کو بارک اوباما نے قبول کیا ھے۔
http://www.theguardian.com/world/2014/dec/28/nato-ends-afghanistan-combat-operations-after-13-years
جنگی آپریشن کے اختام کے اعلان کے اگلے روز افغان طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ جنگی آپریشن کے خاتمے کا اعلان ان کی فتح ھے اور اسے انہوں نے اتحادی افواج کی شکست سے تعبیر کیا۔ پاکستان میں بھی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصتلاحوں کے لیئے معروف حلقوں میں امریکی شکست پر شادیانے بجنا شروع ھوگئے ھیں۔ مرد مومن اور افغان جہاد کے روح رواں جنرل ضیاء الحق کے فرزند ارجمند جناب اعجاز الحق کل ایک ٹی وی پروگرام میں یہ فرماتے سنے گئے کہ ھمیں جہاد اور فساد میں فرق کرنا ھوگا۔ ان کے مطابق افغان طالبان نے غیر ملکی افواج کیخلاف جھاد کیا اور ان کی کامیابی کا ثبوت نیٹو کا جنگ بندی کا اعلان اور سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دینا ھے۔ کچھ اسی قسم کے تبصرے سوشل میڈیا پر بہت سے طالبان نواز پیجز پر جاری ھیں۔ لیکن سوال تو یہ ھے کہ کیا نیٹو نے افغانستان سے مکمل انخلاء کا فیصلہ کر لیا ھے یا نہیں؟یقینا نہیں۔ تو پھر فتح کیسی؟
حقیقت بہت مختلف ھے جو کہ اوپر موجود گارڈین کی رپورٹ پڑھ کر اور تھوڑا سا ذہن استعمال کرنے سے آشکار ھو سکتی ھے۔جو سوال ھمیں اپنے آپ سے اور تمام جھادیوں سے پوچھنا چاہیئے وہ یہ ھے کہ کامبٹ مشن اور سپورٹ مشن میں کیا فرق ھوگا؟ کس قسم کی لاجسٹک اور فضائی سپورٹ افغان آرمی کو دی جاتی رھے گی؟ اعداد و شمار کے چکروں میں پڑے بغیر اگر کامن سینس استعمال کی جائے تو بات واضح ھے کہ نیٹو سمیت امریکی افواج کی محدود تعداد افغانستان میں موجود رھے گی جس کی سفارش امریکی جنرلز نے بھی کی ھے۔ جبکہ سیکیورٹی کی ذمہ داری ان ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل افغان آرمی کےکے سپرد کر دی گئی ھے جس کو نیٹو نے ٹریننگ دی ھے۔ بہت سے مبصرین کے مطابق سوال ھی نہیں پیدا ھوتا کہ اتحادی افواج 2024 سے پہلے مکمل انخلاء کے بارے میں سوچیں۔نیٹو نے ان تیرہ سالوں میں عسکری بیسس سمیت، مواصلات کا نظام، سڑکوں کی تعمیر، ھوائی اڈوں، مزار شریف ھیرتان ریلوے ٹریک کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل افغان فوج تیار کی۔ طالبان نے کس بنیاد پر اپنی فتح کا دعوی کیا اور کس بنیاد پر پاکستان میں ان کے وکیل جشن منا رھے ھیں، یہ ھماری سمجھ سے بالا تر ھے۔
جذبہ ایمانی سے سرشار ھو کر طالبان کے اعلان فتح کا جشن منانے سے پہلے ایماندارانہ تجزیہ کی ضرورت ھے کہ دراصل حقیقت ھے کیا۔ قوی امکان ھے کی امریکہ کا فوکس شام، عراق اور مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے حالات پر بڑھ رھا ھے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی کمی کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔ شام و عراق کے خراب حالات اور داعش کے حوالے سے خود امریکہ کا کیا کردار ھے، یہ ایک علحدہ بحث ھے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہیئے کہ ماضی کی غلطیوں کو مت دہرائے اور سٹریٹجک ڈپتھ جیسی بلاوں سے دور رھے۔ افغانستان میں قیام امن پاکستان کے بغیر ممکن نہیں اور یہ بات تمام فریق تسلیم کرتے ھیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ھے کہ تمام فریق ایک دوسرے کی اھمیت کو تسلیم کرتے ھوئے دیرپا امن کیلئے کوشش کریں۔ جب ھم تحریک طالبان کے لیڈروں کی کنڑ افغانستان میں موجوگی پر اور افغان اور بھارتی اینجنسیوں کی ان کی معاونت پر احتجاج کرتے ھیں تو ھمیں بھی چاہیئے کہ اپنے ملک میں موجود ان حلقوں کی مذمت کریں جو نام نھاد جذبہ ایمانی سے سرشار ھو کر افغان طالبان کی حمایت کرتے ھیں اور ان کے معصوم افغانی عوام اور افغان آرمی و پولیس پر حملوں کو جھاد سے تعبیر کرتے ھیں۔
Attn:Noor Darwesh