اسد عمر اور عاصمہ جہانگیر – عمار کاظمی
مدینہ کی ریاست کی بات کرنے والی تحریک انصاف دہشت گردوں کی پھانسیوں کے خلاف نکلی۔ اسد عمر نے کل جو کاشف عباسی کے پروگرام میں کہا وہ دہرے معیار کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ پھانسیوں کے سوال کے پر عاصمہ جہانگیر اور اسد عمر کا ردعمل ایک جیسا تھا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ کیا آپ پھانسیاں دے کر اس ملک کو میدان جنگ بنانا چاہتے ہیں؟ ویسے انھیں یہ بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ یہ ملک پہلے کتنا میدان امن ہے۔
اسد عمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ دہشتت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں اور ان سے بہتر ہے کہ دہشت گردوں کا کیمرہ ٹرائل کیا جاے جس میں جج سامنے نہ ہو۔ انھوں نے درست کہا کہ فوجیوں کی ٹریننگ صرف جنگ کی ہوتی ہے وہ انصاف بہتر طریقے سے نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ججوں کی قابلیت اور نیک نیتی پر کوی شبہ نہیں۔
ججوں کی قابلیت اور نیک نیتی پر کیسے شبہ نہیں؟ یہ اس پڑھے لکھے منافق نے نہیں بتایا۔ کچھ اسی طرح کے تاثرات عاصمہ جہانگیر کے تھے۔ انھوں نے اپنے بیانیے کی حمایت میں کویٹہ میں ایک فوجی عدالت کی طرف دی جانے والی سزا کی مثال پیش کی جس میں مقتول زندہ تھا مگر فوجی عدالت نے پھر بھی ملزم کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ بلا شبہ مثال وزنی ہے لیکن کیا پاکستان کی عام عدالتوں مییں ایسے فیصلے نہیں ہوتے؟
فوجیوں کی عقل تو بوٹوں میں ہی ہوتی ہے مگر انھیں اپنی بے وجہ کی دانش، دور اندیشی اور ذہانت پر کیسے ناز ہے جس کے نتیجے میں ہمیں ضیا ثانی یعنی افتخار چوہدری جیسا چیف جسٹس ملا؟ بہر حال ایک بات بہت واضع ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے اپالوجسٹ ہر طرف ہر طبقہ میں موجود ہیں بس ان سب کے طریقہ واردات میں فرق ہے۔