سانحہ پشاور اور بے چہرگی تکفیریت کی منظم مہم – عامر حسینی

21

مجهے آج دوست نے ان باکس میں میسج بهیجا کہ عامر میاں آج تو حد ہوگئی ایک اور دوست کا فون آیا ، اس نے بے اختیار کہا عامر یار یہ کون لوگ ہیں ؟ میں یہ سنکر چپ رہا ، جانتا تها کہ اس وقت سب لوگ شاکڈ ہیں ، سکتے میں ہیں اور ٹراما کی کیفیت میں ہیں ، لوگوں کو اپنی بنائی ہوئی بہت سی تصوراتی تصویریں اور امیجز ، تماثیل بری طرح سے جهوٹے ثابت ہوتے نظر آئے اور جس بات کو وہ کبهی فرقہ واریت کہہ کر مسترد کرتے ہیں ، کبهی اسے تعصب کہہ رہے ہیں وہ بار بار ان کے سامنے آکر کهڑی ہوئی مگر اسے چونکہ ،چناچہ کہہ کر ،اگر مگر کے ساته لیکن کے ساته اسے بالواسطہ طور پر جهٹلایا جاتا رہا اور حد تو یہ ہے کہ جب مجه جیسے لوگوں نے بہت تواتر سے اس سچ کو بیان کرنا شروع کیا تو کہیں یہ کہا گیا کہ اچها بهلا کمیونسٹ تها شیعہ ہوگیا اور کبهی کہا گیا کہ ترقی پسندی کے راستے سے ہٹ گیا ہے لیکن ہم نے اپنا کام جاری رکها

اگر آپ عراق باڈی کاونٹ ڈاٹ کام کی سائٹ پر جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ 2003ء سے لیکر دو ہزار چودہ دسمبر تک اس تاریخ تک تقریبا ڈیڑه لاکه لوگ مارے گئے اور عراق میں مارے جانے والوں میں چودہ ہزار کے قریب بچے ہیں اور جبکہ شام میں ابتک دو لاکه لوگ مارے گئے جن میں 20 ہزار کے قریب بچے ہیں اور اگر اس کے مقابلے میں اگر ہم پاکستان کے اندر ابتک 55 ہزار کے قریب شہریوں کی ہلاکت کو دیکهیں تو معصوم بچوں کی شہادتیں کم ہیں لیکن مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، مشرق بعید ، شمالی افریقہ میں اگر مذهبی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کو دیکها جائے تو یہ اس میں پیٹرن ، شناخت ، طریقہ کار ، بربریت یکساں نظر آتا ہے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بیان کرنے کا جو ڈسکورس ہے وہ ابہام ، کنفیوژن ، چهپاو ، گول مول کا شکار ہے اور یہ اتنا بهی واضح نہین ہے جتنا یہ ہمیں کم از کم مڈل ایسٹرن میڈیا میں نظر آتا ہے

آج جب اتنے بڑے سانحے کو اتنا وقت گزرگیا ہے تو بهی پاکستان کا مین سٹریم میڈیا ، پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں ، تجزیہ کار ، اینکرز پرسن ، دانشور اس سانحے کے پس پردہ اس بیانئے کی شناخت کو نام اور ان کے واضح چہروں کے ساته بیان نہیں کررہے جو اس بربریت کے کی قوت محرکہ ہے

میں نے آج جتنے بهی مذمتی بیانات ، جتنے بهی تجزئے اور خیالات مین سٹریم میڈیا پر دیکهے ان میں کسی نے بهی تکفیری آئیڈیالوجیکل ڈسکورس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے نام نہ لیا اور انہوں نے بهی نہ لیا جو دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت نہ کرنے والوں پر غصہ اتار رہے تهے

اس وقت جب میں یہ سطور لکه رہا ہوں تو سماء ٹی وی دیکه رہا ہوں جس نے نام نہاد غیرجانبداری کے نام پر ایک طرف طاہر اشرفی کو لیا ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کو لیا ، طاہر اشرفی کی ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ اگرچہ یہ جنگ امریکہ کی مسلط کردہ ہے ، ڈرون حملے اور دیگر اسباب ہیں لیکن آج جو بربریت ہوئی ہے اس پر اب سب کو متحد ہوکر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنی چاہئیے ، طاہر اشرفی اگرچہ تکفیری ڈسکورس سے اختلاف کا ناٹک کرتا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ وہ اس تکفیری ڈسکورس کے جواز تلاش کرنے والوں میں سے ہے ، وہ افغانستان ، کشمیر ، بهارت ، عراق ، شام میں قتال کے جواز کا قائل ہے

ڈاکٹر طاہر القادری نے بالکل ٹهیک کہا ہے کہ دہشت گردی کی جس ڈسکورس پر مبنی ہے اسے انہوں نے اپنی خوارج پر لکهی گئی کتاب میں بہت تفصیل سے وضاحت کی ہے اور اس کی تردید کی ہے

لیکن پاکستان کے اندر بجا طور پر ایسی سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی کے سیکشن موجود ہیں جو تکفیری نام نہاد جہاد کے حامی ہیں ، اس کا جواز بهی تلاش کرتے ہیں کیا لوگ وفاق مدارس کو بهول گئے ہیں جس کے موجودہ صدر مولوی سلیم اللہ خان ، جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندهری نے آج تک تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جهنگوی ، جماعت الاحرار سے اظہار لاتعلقی نہیں کیا اور نہ ہی ان کی تکفیری آئیڈیالوجی کے خلاف ویسے کوئی دستاویز یا متفقہ فتوی دیا جیسے فتاوی صوفی سنی علماء اور اہل تشیع کی جانب سے جاری ہوئے

یہ صرف وفاق المدارس کی قیادت تک محدود نہیں ہے بلکہ جمعیت العلمائے اسلام تمام گروپ ، اہلسنت والجماعت (سپاہ صحابہ پاکستان) ،مجلس احرار ، عالمی ختم نبوت آرگنائزیشن کا بهی یہی حال ہے

جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ کی نظریاتی پوزیشن یہ ہے کہ وہ عراق ، شام ، لبننان ، صومالیہ ، بهارت ، کشمیر ، چیچنیا ، ترکستان چین وغیرہ میں ہونے والی کاروائیوں کو عین جہاد کہتے ہیں اور القائدہ پر ان کا موقف بهی واضح ہے ، اسامہ بن لادن کو جماعت دعوہ نے شهید قرار دیا اور وہ افغانستان میں ملا عمر کو امیرالمومنین مانتے ہیں اور جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ ، اہلسنت والجماعت ، جے یوآئی (ف، س ، ن) بمعہ وفاق المدارس نے آج تک آپریشن ضرب عضب کی حمائت نہیں کی نہ ہی خیبر ایجنسی کے آپریشن کی حمائت کی ہے بلکہ ان سب جماعتوں اور تنظیموں کا خیال یہ ہے کہ یہ سب آپریشن غلط ہیں اور یہ پاکستانی ریاست ہے جس نے نام نہاد جہادیوں کو ریاست اور پاکستان کے شہریوں کے خلاف هتیار اٹهانے پر مجبور کردیا اور اسی تناظر میں جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر منور حسین کے بیانات کو دیکهنا چاہئیے

یہ وہ آئیڈیالوجیکل ڈسکورس ہے جو پاکستان کے اندر تکفیری دہشت گردوں کو حمائت فراہم کرتا ہے اور دیوبندی وهابی آئیڈیالوجی اس کے لیے طاقت اور قوت کی سبب بن رہی ہے میں بہت واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں آج بهی جب پشاور میں 134 بچے اپنی زندگی کی بازی ہارگئے تو بهی پورے ملک میں دیوبندی وهابی تکفیری آئیڈیالوجیکل ڈسکورس کے بارے میں سناٹا طاری ہے اور کسی چینل ، کسی نیوز ویب سائٹ پر اس ڈسکورس بارے کسی نے بات نہیں کی

دہشت گردی ، دہشت گردوں ، دہشت گرد نظریات اور گروہوں کو بے چہرہ رہنے دینے اور اس کے چہرے کو بے نقاب نہ کرنے کی منافقت نے آج بهی غلبہ کئے رکها اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ کم از کم مڈل ایسٹ میں ایسی سلفی تنظیمیں موجود ہیں جنهوں نے اپنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوهاب کے افکار و نظریات کے اندر تکفیریت کی پوشیدگی ماننے سے انکار کرتے ہوئے دور حاضر کی سلفی وهابی تکفیری تنظیموں سے ان کا نام لیکر اعلان برات شروع کردیا ہے ، یہاں تک کہ العربیہ نیوز نیٹ ورک سمیت سعودی پریس بهی تکفیری سلفی وهابیت کی مذمت کررہا ہے لیکن پاکستان میں دیوبندی اور اہل حدیث و جماعت اسلامی تکفیری نام نہاد جہادی تنظیموں سے اظہار برات نہیں کررہے بلکہ ان کو بچانے کی سبیل کرتے نظر آتے ہیں
جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں 134 بچوں کی ہلاکت کو عذاب الہی قرار دیا اور کہا کہ اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں بے پردہ عورتوں کا ناچ گانا ہے ، ویسے یہ عجب عدل ہے کہ کرے کوئی اور بهرے کوئی اگر مفتی نعیم کی بےراہروی کی تعریف کو مان بهی لیا جائے

مسئلہ بہت سیدها سادها ہے تکفیری ڈسکورس کے خلاف اتحاد ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور مسئلہ اس لئے بنا ہے کہ تکفیری ڈسکورس کے حاملین کو بے چہرہ بنانے کی کوشش بہت منظم اور مربوط ہے اور آج بهی اسی منظم مہم بے چہرگی تکفیریت کی پهیلائی ہوئی کنفیوژن مین سٹریم میڈیا پر غالب نظر آئی ہے اور ہمیں یہ یاد رکهنے کی ضرورت ہے کہ جب تک دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گرد ڈسکورس بے چہرہ ، بے نام ، مبہم اور کنفیوژڈ رہے گا ،اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف کنفیوژن بهی برقرار رہے گا اور تقسیم بهی متاثرین دہشت گردی ہی رہیں گے

27 22 23 24 25 26

Comments

comments

Latest Comments
  1. waqar syed
    -
  2. Fahad Khan
    -