پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا حملہ، سینکڑوں بچے شہید و زخمی۔ خرم زکی
پشاور میں کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد دیوبندی گروہ تحریک طالبان/لشکر جھنگوی کا بچوں کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ۔ 130 بچے شہید اور سینکڑوں زخمی۔ وقت آ گیا ہے کہ ان دہشتگردوں، ان کے حامیوں اور ان کے حامی صحافیوں اوریا مقبول جان، عرفان صدیقی، انصار عباسی وغیرہ، ان کے سرپرست مدارس، ان کے سرپرست مولویوں، لال مسجد، احمد لدھیانوی، ملک اسحق، اورنگزیب فاروقی، عمر لعنتی الخراسانی، رمضان مینگل، مولوی عبد العزیز، ام حسان، رفیق مینگل، اور ان تمام لوگوں کے خلاف ریاست فوری اور بے رحم ایکشن لے جو عوام الناس کو یہ پٹی پڑھاتے رہتے ہیں کہ طالبان تو ایسا نہیں کر سکتے، کوئی مسلمان تو ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسے تمام لوگوں کو افغانستان اور ابو بکر لعنتی الخارجی البغدادی کے علاقوں کی طرف دکھیل دیا جائے تاکہ وہ ان تمام وحشی، درندہ صفت لوگوں کی حکومت کے مزے لے سکیں۔ اور اگر ریاست لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو اعلان کر دے اپنی ناکامی کا تاکہ لوگ اب خود ہتھیار اٹھائیں اور ان جانوروں کو خود واصل جہنم کرنا شروع کریں۔
یوم سقوط مشرقی پاکستان یعنی 16دسمبر کو ان تکفیری خوارج کی جانب سے قوم کہ یہ تحفہ دینا یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ دہشتگرد گروہ اس ملک اور ریاست کے کھلے دشمن ہیں۔ میدان جنگ میں تو کفار کے بچوں اور عورتوں پر حملہ جائز نہیں اور یہ ابو بکر لعنتی الخارجی البغدادی کے پیروکار مسلمان بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
اب آپ غور کیجئے گا نام نہاد بے غیرت مولویوں کے بیانات پر، سراج الحق، منور حسن، حافظ حسین احمد اور سمیع الحق کے بیانات پر۔ ان تکفیری دہشتگردوں کے حقیقی اور نطریاتی سرپرستوں کے منہ سے طالبان، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکلے گا بلکہ ان دیوبندی دہشتگردوں کے یہ دیوبندی سرپرست حسب معمول واقعہ کی رسمی مذمت کر کے خاموش ہو جائیں گے لیکن اس واقعہ کے ذمہ دار وحشی درندوں کی شناخت کے متعلق ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے، ان تکفیری دہشتگردوں اور ان کے خارجی نظریہ کی حقیقی سرپرستی یہی لوگ کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں جب جماعت اسلامی کے سابق امیر نے کھلے عام طالبان اور داعش کے تکفیری خوارج کو پاکستانی عوام کے خلاف “قتال” شروع کرنے کی دعوت دی تھی۔ پورا ملک اور تمام منافق سیاستدان ریاست پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی اس کھلی دعوت پر خاموش رہے اور منور حسن کے بیان کی رسمی مذمت کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ آج معصوم بچوں اور طالبعلموں کے قتل عام سے منور حسن کے پیروکاروں نے ریاست اور اس کے شہریوں کے خلاف “قتال” کا کھلا آغاز کر دیا ہے، ابھی کچھ دن ہی گزرے جب جامعہ حفصہ کی طوائف ام حسان اور اس کے مدرسے کی وحشیاؤں نے کھلے عام ابو بکر لعنتی الخارجی البغدادی کو پاکستان پر حملے کی دعوت دی تاکہ لال مسجد آپریشن کا بدلہ لیا جا سکے، اس بیان پر بھی تمام سیاستدانوں کو سانپ سونگھ گیا، آج ابو بکر لعنتی الخارجی البغدادی کے پیروکاروں نے سینکڑوں بچوں کے قتل عام سے جامعہ حفصہ کی طوائفوں کی خواہش کو پورا کر دیا۔
لیکن سیاستدانوں کو ایک طرف رہنے دیں۔ کیا عوام کی آنکھیں کھل رہی ہیں ؟ کیا لوگوں کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ دیوبندی تکفیری فتنہ جس کے خلاف ہم ایک عرصے سے آواز اٹھا رہیں ہیں یہ اس ملک، اس ریاست، انسانیت اور اسلام کے خلاف کتنی بڑی مصیبت ہے ؟ ہمارے ملک کے عوام نے پہلے ان لوگوں کو فرقہ پرست گروہ سمجھ کر نظر انداز کیا لیکن آج ان کا نشانہ سنی اور شیعہ مسلمان دونوں ہیں۔ ان کا نشانہ امام بارگاہیں، مزارات، صوفی درگاہیں، کلیسا، مندر اور مساجد سب ہیں۔ ان تکفیری دہشتگردوں کے ہاتھ اب ہمارے بچوں تک پہنچ گئے ہیں۔ کیا اب بھی عوام سوتی رہے گی ؟
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان تکفیری دہشتگردوں کے خلاف زبانی اور عملی اقدام دونوں کریں ورنہ ان بچوں کے قاتل صرف طالبان، لشکر جھنگوی، جند ﷲ، انجمن سپاہ صحابہ (المعروف اہل سنت والجماعت)۔ داعش اور القاعدہ ہی نہیں بلکہ ہم سب ہوں گے اور وہ وقت دور نہیں جب شام اور عراق کے کی طرح ہمارے ملک سے لوگوں کے ذبح ہونے کی ویڈیو جاری ہوا کریں گی۔ جب تک ریاست اور مسلح افواج ان دیوبندی تکفیری دہشتگردوں کے خلاف بے رحم ایکشن نہیں لیتی، جب تک حکومت وقت انجمن سپاہ صحابہ، پنجابی طالبان، لشکر جھنگوی اور جند ﷲ کے کارکنوں کو چن چن کر جہنم واصل نہیں کرتی، ان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے خلاف کاروائی نہیں کرتی جو ان کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد تنظیموں کو چندہ اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں، اعلی عدلیہ کے ان ججز کو فارغ نہیں کرتی جو ان دہشتگردوں کو ضمانتوں پر رہا کرتے ہیں اور ان کو با عزت بری کرتے ہیں، اس وقت تک امن کے قیام کی کوئی امید نہیں۔
یہ بات اب واضح ہے کہ جو شخص، فرد، گروہ، سیاسی جماعت یا ادارہ ان تکفیری دیوبندی وحشی درندوں سے کسی بھی قسم کی نرمی، مذاکرات یا بات چیت کا حامی ہے وہ اس ملک کا، اس قوم کا، انسانیت اور اسلام کا دشمن ہے اور اس کا بھی وہی حشر اور انجام ہونا چاہیئے جو ان دہشتگردوں کا مقدر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، مسلح افواج اور انٹیلیجینس ادارے اس ناسور کے خلاف فوری حرکت میں آئیں، سانحہ مشرقی پاکستان جیسی دوسری شکست کی اب کوئی گنجائش نہیں۔
نوٹ: اس کالم کے لکھتے وقت ان دہشتگردوں کا اسکول پر قبضہ اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آپریشن بھی جاری ہے، 18 سے زائد دھماکوں کی آوازیں آ چکی ہیں اور آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ کے بیان کے مطابق 5 دہشتگرد اب تک مارے جا چکے ہیں۔بظاہر لگتا ہے کہ شہادتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔دوسری طرف کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد گروہ تحریک طالبان کے ترجمان عمر لعنتی الخراسانی نے اس دہشتگرد حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے
آج ایک بار پھر پاکستان بلکہ انسانی معاشرہ بھیڑیوں کے حملوں کا شکار ہو گیا اور ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۱۳۰ ننھے معصوم بچے پاکستانی طالبان کے درندگی کا شکار ہو گئے ہیں۔ مذہب کے لبادے میں کھیلے گئے ماضی قریب کے بہت سے خونی کھیلوں کی طرح اس خوفناک اور خونی واقعے نے ایک بار پھر ہمیں پاکستانی ہونے پر شرمسار کر دیا۔ یقین کریں پاکستانی ریاست سے زیادہ خائن، بے حس اور بکاؤ مال میں نے نہیں دیکھا۔
کہاں ہے اندر اور باہر سے سکیورٹی کے نام پر اربوں روپے کھانے والے ریاستی ادارے جن کا کام صرف شہیروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں جیسی ہوتی ہے۔ ریاست کیوں معصوم شہریوں کو بھیڑیوں کے رحم کرم پر چھوڑتی ہے؟ ماؤں کی محبت کیا ہوتی ہے اُن ماؤں سے پوچھ لیں جن کے لخت جگر آج اس قیامت صغریٰ میں درندگی کا شکار ہوئے ہیں۔
ایک سوال ریاست کے شہ سواروں سے بھی ہے کہ ضرب عضب کے نام سے جاری آرمی آپریشن میں دہشت گردوں کا ایک بھی لیڈر ابھی تک کیوں نہیں مارا گیا؟
دہشت گردوں کے لیڈرز کیوں اور کیسے ریاست کی تمام تر دفاعی صلاحیتوں کے باوجود نظروں سے اوجھل ہو کر اپنے کارکنوں کو جنت اور حوروں کی کے پاس بھیجنے کے لیے معصوم شہریوں سے کھیلنے کا جب چاہے اور جہاں چاہے موقع پا لیتے ہیں؟۔
کیا ریاست کی دفاعی صلاحیتں صرف اسلام آباد کے ریڈ زون اور وی آئی پیز کے دفاتر اور گھروں میں پہرہ دینے تک محدود ہو گئ ہیں؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے؟
Lagta hai Prime minister saheb bhi mujrim hain.
Anyway my thoughts and prayers are with the families of innocent victims.
Es me kiya shak he ke ye kaam kis ka he ,, GOvt aur Army ko sab pta he phir bhi na jany kin maslehaton ka shikaar hyn ye log,,, apni apni kursiyan bachany ke chakar me kahin ye pooray pakistan ko Aag aur khoon ke khel me na jhonk dyn ,,,, Awaam aik he es sary muamly me aur ab ,, GOVT ko bhi chahiye ke in GHaddaron aur Islam dushman anasir sy sakhti sy nimty ,balky in sb ko YA inky BAAP ,,AMERICA ,,ISRAEL,,,ponchay ,,ya JAHANUM WASIL kry,,ta,ake AWAAAM to sukh ka sans lyn ,, aur haan en ke HAMDARDON ko bhi ,,,,