سوات میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ
محمد ذہین خان وادی سوات کے تحصیل کبل کے علاقے ڈھیرئی میں طالبان مخالف ویلج ڈیفنس کونسل یا امن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔سوات میں امن لشکروں پر حالیہ حملوں میں اضافے کی وجہ سے ذہین خان جیسے لوگوں کےلیے گھر سے باہر قدم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ وہ آج کل زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں جبکہ کچھ عرصہ سے انھوں نے اپنی سرگرمیاں بھی اپنے حجرے تک ہی محدود کردی ہے۔
سیاسی پس منطر رکھنے والے ذہین خان کا کہنا ہے کہ سوات میں شدت پسند امن لشکروں پر حملے ایک منصوبہ بندی کے تحت کر رہے ہیں تاکہ قوم اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جاسکیں۔
’ ہم طالبان کو ان کے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دینگے ، ہم نے پہلے بھی ملک و قوم اور مٹی کے خاطر جان کی قربانی دی اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے لیکن شدت پسندوں کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع نہیں دیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ذہین خان کا کہنا تھا کہ امن لشکروں کے رہنما فوج اور پولیس کی کارکردگی سے مطمئین ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہدف بناکر قتل کے واقعات کو روکنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ذہین خان کا ایک بھتیجا اور چند رشتہ دار شدت پسندوں کے حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سنہ 2009 کے آپریشن کے دوران ڈھرئی گاؤں کے40 کے قریب شدت پسند مارے گئے اور ان کے مکانات کو بھی مسمار کیا گیا۔ ان کے مطابق طالبان ان ہلاکتوں اور مکانات کے تباہ ہونے کےلیے امن کمیٹیوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں گذشتہ چند ماہ سے طالبان مخالف امن کمیٹیوں کے رہنماؤں پر جاری شدت پسندوں کے حملوں کے باعث اب تک 18 سربراہاں یا ممبران امن کمیٹی ہلاک ہو چکے ہیں۔ان واقعات سے وادی میں ایک مرتبہ پھر سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شاید علاقے میں طالبان اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوات میں طالبان مخالف امن لشکروں پر حملوں کا سلسلہ سنہ 2009 میں شروع ہوا جب فوج کی جانب سے علاقے میں ایک موثر آپریشن کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرکے ان کو علاقے سے بے دخل کیا گیا ۔ تاہم رواں برس ٹارکٹک کلنگ میں سب سے زیادہ تیزی دیکھی جارہی ہے جس سے وادی میں پھر سے ایک کشیدگی کی فضا دکھائی دیتی ہے۔
سوات میں زیادہ تر طالبان مخالف امن کمیٹیاں تحصیل کبل کے علاقے میں قائم ہے۔ یہ تحصیل پہلے طالبان کے گڑھ کے طورپر مشہور تھا جبکہ بیشتر حملے بھی اسی تحصیل یا مینگورہ کے اردگرد واقع علاقوں میں ہو چکے ہیں۔
ان واقعات کے بعد مینگورہ اور آس پاس کے علاقوں میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں جہاں بازاروں اور گلیوں میں دن رات فوج کے اہلکارگشت کرتے نظر آتے ہیں۔
امن کمیٹیوں کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس نے کچھ عرصہ سے مجموعی طورہر سکیورٹی میں نرمی کردی تھی اور حکومت اور امن کمیٹیوں کے درمیان رابطوں میں بھی کمی ہوئی تھی جس سے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
سوات کے سینیئر صحافی غلام فاروق المعروف سپین دادا کا کہنا ہے کہ وادی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے بیشتر بااثر افراد علاقہ چھوڑ کر دیگر شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ان حملوں کے باعث علاقے میں خوف کا یہ عالم ہے کہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ان کے مطابق ’ دوائیاں فروخت کرنے والے دوکانوں پر جائے تو وہاں نیند کی گولیاں نہیں ملتی ، دوکاندار کہتے کہ سٹاک ختم ہوچکا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقے میں کس حد تک کشیدگی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔‘
پولیس نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ صوبے میں مجموعی طور پر تشدد کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ہدف بناکر قتل کے واقعات بڑھے ہیں اور اس میں سوات سرفہرست بتایا جاتا ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن کے ڈی آئی جی عبد اللہ خان کا کہنا ہے کہ پولیس نےایک سال کے عرصہ کے دوران کوئی 14 کے قریب ٹارگٹ کلرز گرفتار کیے ہیں جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والے ملزمان سے بعض اہم معلومات ملیں ہیں جن پر تیزی سے کام جاری ہے اور بہت جلد ان واقعات پر قابو پالیا جائےگا۔
ان کے مطابق پکڑے جانے والے ٹارگٹ کلرز سے دھماکہ خیز مواد، اسلحہ اور نقشے بھی برامد ہوئے ہیں جس سے پولیس کو مفید معلومات ملی ہے۔
خیال رہے کہ پہلے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے امن کمیٹیوں کے رہنماؤں اور رضاکاروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ تاہم چند دن قبل مینگورہ شہر میں شدت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے پیپلزپارٹی کے مقامی رہنما فضل حیات چٹان امن لشکر کے پہلے ایسے رہنما تھے جنھیں قومی پرچم میں لپیٹ کر سپردخاک کیا گیا جبکہ ان کو فوج کی جانب سے باقاعدہ سلامی بھی پیش کی گئی تھی۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141129_target_killing_in_swat_rk