معتدل دیوبندی مزاج اور شدت پسندی – کاشف نصیر

wagah-border

ہوسکتا تها کہ ہم میں سے بهی کوئی اس شام سیاحت کی غرض سے واہگہ بارڈ پر ہوتا، بے آبرو ہوکر مارا جاتا اور جسم کے چهتهرے فضاوں میں بکهر جاتے۔ اگر جسم کے یہ بکهرے چهتهڑے شناخت کے قابل رہتے تو گهر والے رو پیٹ کر منوں مٹی تلے دبا آتے۔ احسان اللہ احسان کہتا ہے کہ حملے اس نے کروائے ہیں اور اس ظالم شخص کا نام سنتے ہی سوشل میڈیا پر سرگرم فیس بکی جہادیوں نے تاویلات گهڑنا شروع کردی ہیں۔ ان میں سے کئی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، دین کا علم نہ ہونے کے برابر اور عمل صفر بٹا صفر لیکن  شریعت اور جہاد کی باتیں ایسے کرتے ہیں جیسے شیخ السلام ہوں۔ انکا اسلام اسلام نہیں، انکا جہاد جہاد نہیں اور انکی دیوبندیت دیوبندیت نہیں۔ یہ صرف قاتل ہیں، سفاک قاتل۔ اللہ، اللہ، اتنے سفاک تو داعش والے بهی نہیں جنہیں شیخ حامد العلی، شیخ مقدسی اور شیخ ابوقتادہ  بهی خارجی قرار دیتے ہیں۔

deoband

اگر خارجیت سے بھی بڑا کوئی فتوا لگ سکتا ہے تو وہ  احسان اللہ احسان اور اسکے ہم نواوں پر ضرور لگنا چاہئے اور یہی وقت ہے کہ علماء کھل کر ان دہشگردوں کے خلاف فتوے دیں اور انہی کسی طرح دیوبندیت کا چہرا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔۔ پچھلے چند مہینوں میں دیوبند مکتب فکر کے اکابر اور جید علمائے کرام سے ملاقاتوں کے نتیجے میں مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں موجود کسی بھی دوسرے مذہبی مکتب فکر کے مقابلے میں علمائے دیوبند کی آراء اور طرزعمل سب سے زیادہ معتدل اور ترقی پسند ہے لیکن بدقسمتی سے انکی سوچ، نظریہ اور طرز عمل نیچے کی سطح پر ٹھیک انداز میں نہیں پہنچ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قریبا سال پہلے مولانا فضل الرحمان صاحب نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تها کہ یہ عجیب بات ہے کہ اوپر کی سطح پر مولانا سلیم اللہ خان، حفیظ جالندهری، مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر و دیگر کچه اور بات کررہے ہوتے ہیں اور نیچے طلبہ اور عوام کے درمیان کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح چند روز قبل ہمارے ایک دیرینہ دوست سے نجی ملاقات میں شیخ الحدیث مولانا فضل محمد کے صاحبزادے نے برجستہ کہا کہ اگر مفتی نظام الدین شامزئی صاحب پاکستانی طالبان کی حرکتیں دیکھ لیتے تو ان سے متعلق اپنا فتوا بدل لیتے۔ بنوری ٹاون کے دارلفتاء کے نگران مولانا سلمان صاحب نے جامعہ کی ویب سائٹ میں آن لائن فتواوے کا سلسلہ شروع کیا ہے، کچه روز قبل انہوں نے بھی عجیب بات کہی کہ اکابرین دین پاکستان میں قتال فی سبیل اللہ کے قائل نہیں، اکابرین سے ہٹ کر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ ہی اصول کی بنیاد پر غلط ہے چہ جائے کہ خود کش حملے اور فساد فی الرض کو درست قرار دیا جائے۔ جلوت اور خلوت میں اکابرین دین پاکستان میں قتال اور قتال فی سبیل اللہ کے نام پر کھلی دہشتگردی پر شاکی و پریشان نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف کچھ نام نہاد جہادی جنکی اپنی زندگیاں شریعت کے برعکس چل رہی ہوتی ہیں دیوبندیت کا لبادہ اوڑھ  کر سوشل میڈیا پر دہشتگردی کی مضموم کاروائیوں پر تاویلات تلاش کرتے پهرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال اوریا مقبول جان ایسی ہے جو پورا مہینہ مفتی اعظم بن کر جس نظام کے خلاف فتوے دیتے ہیں، نیا مہینہ شروع ہوتے ہی اسی نظام سے تنخواہ وصول کرنے قطار میں لگ جاتے ہیں۔ بنوری ٹاون کے ایک معروف استاد سے موصوف گهنٹوں اختلاف کرتے رہے یہاں تک کہ جمہوریت کو کفر قرار دینے سے دستبردار نہ ہوئے مگر جاتے جاتے مولانا کو اپنے بیٹے سے ملوایا اور عرض کی مولانا اسکے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے لئے دعا کریں، مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا، ضرور یہی تو میری کامیابی ہے.

ahsanullah ahsan

احسان اللہ احسان کا گروپ اور اسکے لئے تاویلات گهڑنے والے جہلا اپنی جہالت سے ناصرف شریعت، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کی پیٹھ میں چهرا گهونپ رہے ہیں بلکہ دیوبند مکتب فکر کو جسکی شناخت اعتدال پسندی رہی ہے، اسے بهی بدنام کرنے میں کوئی کثر روا نہیں رکھ رہے ہیں. دیوبند کی شناخت تو شیخ الہند محمود الحسن ہیں، اشرف علی تهانوی ہیں، حسین احمد مدنی ہیں، علی میاں ہیں، انور شاہ کاشمیری ہیں، عطااللہ شاہ بخاری ہیں، شبیر احمد عثمانی ہیں، شفیع عثمانی ہیں اور مفتی محمود ہیں۔ وہ جن کی فکری اور علمی مرتبے کی پزیرائی مسلمہ ہے، وہ جو ہندوں کے ساته مشترکہ قومیت کی بات کرتے ہیں، وہ جو جمہوریت پر یقین رکهتے ہیں، وہ جو تکفیر کے معاملے میں سب سے زیادہ معتدل ہیں، وہ جو واقعہ کربلا پر مظلومین کا دم بھرتے ہیں اور وہ جو سب کو جوڑ کر رکهنے والے ہیں۔ شیخ الہند نے ابوالکلام آزاد کو امام الہند کے لئے تجویز کیا، آج کے دو ٹکے کے یہ فسادی اس وقت ہوتے تو شاید شیخ الہند پر خودکش حملے کررہے ہوتے. شیخ الہند محمود حسن اور حکیم الامت اشرف علی تهانوی نے ندوا التعلماء جیسا ادارہ قائم کیا جسکا مقصد ناصرف علی گڑه اور دالعلوم میں فاصلہ کم کرنا تها بلکہ تمام مکاتب فکر کو جوڑنا بهی تها، یوں اس منصوبے میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ علماء سب کو شامل کیا گیا اور اسکے نصاب اور قوائد کی تیاری کا کام مولانا شبلی نعمانی کو دیا گیا، آج کے یہ فسادی اس دور میں ہوتے تو شبلی نعمانی اور حکیم الامت پر خودکش حملے کررہے ہوتے، مجلس احرار کے سربراہ عطااللہ شاہ بخاری کی مجلس میں شیعہ علماء بھی کثرت سے آیا جایا کرتے تهے اور یقیینی طور پر اس بنیاد پر وہ بهی خود کش حملے کے مستحق ہوتے، حسین احمد مدنی جمہوریت اور ہندوں کے ساته تعاون کے بہت بڑے حامی اور وطن پرست تهے، یوں انہوں بهی خودکش حملے کا نشانہ بنایا جاتا۔

45

احسان اللہ احسان کے گروپ، جنداللہ اور لشکر جھنگوی مسلکی اعتبار سے دیوبندی ہوسکتے ہیں لیکن انکا تعلق دیوبند کی فکر، طرز عمل اور طرز استدلال سے ہرگز نہیں ہے۔ کل بهی دیوبند سب سے معتدل مکتبہ ہائے فکر تها اور آج بهی ہے، کل بهی ہر دینی و ملی محاز پر دیوبند سب سے آگے تها اور آج بهی ہے، کل بهی اکابرین دیوبند کی فکر، علم اور دانش کی دهوم تهی اور آج بهی ہے، کل بهی دیوبند کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر جمع ہوتے اور آج بهی ہوتے ہیں۔ دیوبند نے ہمیشہ جمہوریت، اعتدال پسندی، وطن پرستی اور جہد عمل کو فروغ دیا، دیوبند کی صفوں میں چھپنے والے ان فسادیوں اور انکے فساد پر تاویلات گھڑنے، جمہوریت اور وطن پرستی کو کفر بنانے اور اعتدال پسندی پر طعنہ مارنے والوں کا حاجی امداد اللہ مکی اور رشید احمد گنگوہی کے چمن علم و فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے، قصہ مختصر واہگہ بارڈر حملہ دیوبندیت کی زد ہے. نام نہاد دیوبندی احسان اللہ احسان کہتا ہے کہ حملے اس نے کروائے ہیں اور اس ظالم شخص کا نام سنتے ہی سوشل میڈیا پر سرگرم فیس بکی جہادیوں نے تاویلات گهڑنا شروع کردی ہیں۔  اللہ، اللہ اتنے سفاک تو داعش والے بهی نہیں جنہیں جنہیں شیخ جولانی، شیخ مقدسی اور شیخ ابوقتادہ  بهی خارجی قرار دیتے ہیں۔

Source: http://kashifnasir.com/2014/11/05/deoband/

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -