منور حسن کا پاکستانی عوام و مسلح افواج کے خلاف قتال کا اعلان عام – خرم زکی

 

10250191_10203585946709058_7232741488047266988_n

JI qital

واضح ہو گیا کہ جماعت اسلامی نہ ہی انتخابی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی جمہوریت سے ان کا کوئی لینا دینا ہے بلکہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یہ ملک میں داعش اور انہی جیسی تکفیری خارجی تنظیموں کی آمد کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ منور حسن اپنے اس بیان میں عوام کو کھلے عام دہشتگردی اور قتل و غارتگری پر اکسا رہے ہیں جبکہ یہی جماعت کچھ دنوں پہلے عمران خان اور طاہر القادری کو جمہوریت اور جمہوری اقدار پر طویل درس دیتی نظر آتی تھی۔

جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے آرٹیکل میں عرض کیا تھا کہ پاکستان میں تکفیری خارجی دہشتگرد جن کا تعلق بلا کسی استثنا کے مسلک دیوبند سے ہے اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں اور القاعدہ، داعش، جند ﷲ، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی کی شکل میں ان کے مسلح دہشتگرد گروہوں نے پہلے ہی ریاست پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے اور ایک طویل عرصے سے ان تکفیری گروہوں کے دہشتگرد پاکستانی مسلح افواج، انٹیلیجینس اداروں، عام شہریوں، شیعہ مسلمانوں، سنی بریلوی مسلک، صوفیوں، مسیحی برادری اور احمدی کمیونٹی کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن جو بات اب کھل کر واضح ہوتی جا رہی ہے وہ یہ کہ اس گھناؤنے عمل میں ان دہشتگرد گروہوں کو مین اسٹریم سیاسی مذہبی جماعتوں کی بھی درپردہ اور کھلی سپورٹ حاصل ہے۔ جماعت اسلامی منور حسن کے دور امارت میں کھل کر اس تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کو قبول کر چکی ہے اور سراج الحق بھی دہشتگردی اور قتل و غارت گری کے اسی ایجینڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کی بنیاد منور حسن نے رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعیت علماء اسلام جو اپنے معتدل ہونے کا دعوہ کرتی ہے اس کے ارکان بھی انہی دہشتگرد گروہوں کو اور ان کے تکفیری نظریہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

پاکستانی عوام اور مسلح افواج کے خلاف قتال کا جو اعلان آج منور حسن نے لاہور میں جماعت اسلامی کے جلسہ عام میں کیا ہے وہ پاکستان کے تمام معتدل مسلمانوں اور روشن فکر افراد کی آنکھیں کھول دینے کے لیئے کافی ہے۔ یہ نوبت اس لیئے آئی ہے کیوں کہ ایک عرصے سے اس تکفیری فتنے کو معاشرہ قبول و برداشت کرتا آ رہا ہے اور ریاستی ادارے، مسلح افواج اور انٹیلیجینس ایجینسیز ان دہشتگرد گروپوں اور ان کے انتہا پسند نظریات کی آبیاری کرتی رہی ہیں۔ اگر آج ہم سب نے قتال کے اس اعلان عام کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی شام و عراق کی طرح اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔

خود مسلح افواج کی قیادت کے لیئے یہ ایک کڑا وقت ہے۔ جہاں ایک طرف ملکی سلامتی اور استحکام ان دہشتگرد گروہوں اور ان کی حامی مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان کی نرسریز یعنی مدارس کے خلاف ایک سخت اور جامع ملٹری آپریشن کا تقاضہ کر رہی ہے وہیں دوسری طرف خود ریاستی اداروں میں موجود بعض افراد اور گروہ انہی انتہا پسند گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور ان کو آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اس صورتحال پر جلد قابو نہ پایا گیا اور عام عوام اور محب وطن پاکستانیوں کو طاقتور نہ بنایا گیا تو خدشہ ہے کہ جلد یا بدیر یہ صورتحال نا قابل اعلاج ہو جائے گی اور پھر واپسی جلد ممکن نہ ہو سکے گی۔

اس بات میں بہر حال اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ اپنے اس بیان کے ذریعہ منور حسن نے داعش کے تکفیری خوارج اور ان کے ملعون خلیفہ ابو بکر (البغدادی) کو پاکستان پر حملے کی کھلی دعوت دی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پچھلے 60 سالوں میں انتخابات اور جمہوری نظام میں پہ در پہ شکست، اقتدار سے دوری اور عوام سے مسترد ہونے کے بعد جماعت کی قیادت داعش کی طرح قتل عام اور دہشتگردی سے حکومت پر قبضہ کر لینے کو ہی آخری حربہ سمجھنے لگی ہے

Fowad Ch on JI

Comments

comments

Latest Comments
  1. najmi
    -