کیا صحیح نظریات کے لئے مغربی تھذیب سے سیکھنا ضروری ہے؟ – مبارک حیدر

Bn0-zdCCIAAz53a.png medium

میری راۓ میں صحیح نظریات صرف وہ ہیں جو ارتقا اور بقا کو بنیادی مقصد مانتے ہیں – اس سے سوال پیدا ہوگا کہ کس کا ارتقا اور کس کی بقا ؟ جس کا جواب یہ ہے کہ ساری انسانی آبادیوں کا ارتقا اور پوری بنی نوع انسانی کی بقا – لیکن انسان کا ارتقا کیا ہے اور اس کی بقا کیسے ہو؟

انسان کا ارتقا اس کے علم اور اسکی دانش میں ہے – دانش حقیقتوں کو گہرائی سےجاننے کا عمل ہے – یعنی زندگی اور کائنات کو جاننے کا عمل – حیات کی کم ذہین شکلوں یعنی حیوانات نے اپنے گرد و پیش کے ساتھ ڈھلنا سیکھا ، یہی ان کا ارتقا تھا اور یہی ان کے بقا کی کوشش تھی – لیکن اچانک آنے والی آفات جو حیوان کی ذھانت سے بالاتر تھیں (مثلا شہاب ثاقب کی بارش) نے ثابت کیا کہ محض فطرت کےساتھ ڈھلنا اور اسکی سختیوں کو سہنا کافی نہیں ، بلکہ اس پر قابو پانا ضروری ہے – انسان کی ذہانت بڑھی تو اس نے اپنے گرد و پیش کے ساتھ ڈھلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو اپنے مطابق ڈھالنا سیکھا – حیوان کی حالت اندھے خوف کی حالت تھی ، یعنی اطاعت اور قناعت کی – لیکن انسان نے خوف کو علم کے ماتحت لانے کی کوشش شروع کی

ہزاروں برس تک انسان نے اپنی دنیا اور کائنات کو بدلا لیکن بہت آہستہ اور بہت کم بدلا – اسنے ایمان کی ایک حالت میں رہنے کی بجاۓ نئے نئے ایمان تخلیق کئے لیکن ایمان سے آگے بڑھ کر اپنی دانش پر مکمل انحصار کرنا اسکے لئے آسان نہ تھا – کیونکہ اسکے علم اور ایجاد کی صلاحیت بہت کم تھی جو آہستہ آہستہ بڑھی – موسموں ، بیماریوں ، سیلابوں اورقحط کے ساتھ ساتھ اسے بدامنی ، سینہ زوری اور جنگوں کا سامنا رہا – لیکن ارتقا اور بقا کی خواہش زندہ رہی

پچھلی چار صدیوں میں انساان نے اپنی دانش کے بل پر ان مسائل کو تیزی سے حل کیا ہے – معاشروں کے درمیان جنگیں ابھی تک ایک سخت چیلنج بنی ہوئی ہیں لیکن جدید معاشروں نے اپنے قومی دائروں کے اندر انسانی زندگی کو بہت بہتر کیا ہے – تیزی سے سکڑتی ہوئی دنیا اور پھیلتے ہوئے رابطے امید دلاتے ہیں کہ صحیح نظریات کی بڑھتی ہوئی قوت سے جدید دنیا تصادم اور جنگ کے کلچر کو کمزور کر کے سب کی شمولیت اور پر امن بقا کا کلچر پیدا کر سکے گی

صحیح نظریات کے لئے مغربی تھذیب سے سیکھنا کیوں ضروری ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سب تہذیبیں انسان کی ہیں اور انسان کے لئے ہیں – اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جدید ایجادات سب کے لئے ضروری ہیں ، تو جدید علوم کیوں نہیں؟ انسانوں کو گروہی نفرت میں تقسیم کرنے کے سارے بہانے اور سارے فلسفے آج کی دنیا میں انسان کے دشمن ہیں – لہذہ علم و دانش کی موجودہ تھذیب چین ، بھارت ، روس اور امریکہ میں مشترک ہے – دوسری وجہ یہ کہ یورپ نئے سماجی اور آفاقی علوم کی تحریک کا رہنما ہے – اسکے مفکروں اور سائنس دانوں نے مسلسل سوچا اور لکھا ہے – روس ، چین ، بھارت اور خود امریکہ نے یورپ سے سیکھا ہے – اس علمی تحریک نے دنیا اور انسانی زندگی کو آسودگی اور تخلیق کا تحفہ دیا ہے – یہ سب مفکر اور سائنسدان انسانی نسل کی مشترکہ ملکیت ہیں – ہم ان سے کیوں نہ سیکھیں ؟ کیا ہمارے پاس سات ارب کی اس انسانی دنیا کو سنوارنے کے لئے کوئی بہترعلم و دانش موجود ہے ؟ مثلا انسانی حقوق کے موجودہ تصورات جو چند مسلم ممالک کو چھوڑ کر ساری دنیا کو پسند ہیں ، جن کی تحریک یورپ اور امریکہ سے نکلی ہے ، کیا یہ تصورات سکھانے والا یورپ سے بہتر کوئی اور موجود ہے ؟ سچ یہ ہے کہ حقیقی عالم سے نفرت کرنا اور جاہل ریاکار کے ہاتھ چومنا ہماری بہت سی شکستوں کا سبب بنا ہوا ہے

موجودہ مرحلہ پرسائنس ہماری دانش کی بلند ترین شکل ہے – لیکن ابھی اسکا آغاز ہوا ہے – صحیح نظریہ یہ ہے کہ دانش کے موجودہ مرحلہ سے آگے بڑھنے میں ساری قومیں شامل ہوں یعنی مسلم اقوام بھی انسانی علم و دانش کو گالی دینے اور اسے کفری سازش سمجھنے کی بجاۓ اس کو آگے بڑھائیں – دنیا کی اکثریت کو امید ہے کہ انسانی دانش کے اگلے مراحل اس سے بھی عظیم کامرانیوں کو جنم دیں گے – ہم جہالت ، محرومی اور سینہ زوری کو روک کر مکالمہ کر سکیں گے – دنیاآسمانی اور زمینی آفات کا مقابلہ کرنے اور وسائل کو بڑھانے کے بہتر رستے نکال سکے گی – یعنی اگلے جہاں کی نعمتوں کا نقشہ اسی جہاں میں اترے گا – انسان کے پاس اس کا حق بھی ہے اور اس کی صلاحیت بھی

Comments

comments