تکفیری فاشزم، پاک و ہند کے کمیونسٹ اور ثقافت – عامر حسینی
عبداللہ ملک جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور پھر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک رکن تھے ،انھوں نے اپنے “حج بیت اللّہ ” کی ایک روداد ” حدیث دل – ایک مسلم کمیونسٹ کا روزنامچہ حج ” کے عنوان سے لکھی تھی عبداللہ ملک کی یہ کتاب میرے لیے دلچسپی کا باعث اس لیے بنی کہ عبداللہ ملک نے پنجاب کی سیاسی تحریکوں کا احوال رقم کرتے ہوئے جب پنجاب کی مذھبی تحریکوں پر اپنا تجزیہ لکھا تو وہ مجھے جدلیاتی تاریخی مادیت پرستی سے زیادہ ،ان کے اپنے خاندان کے مذھبی پس منظر سے ان پر پڑںے والے اثرات سے زیادہ قریب لگا اور وہ خاص طور پر تحریک خلافت ، مجلس احرار کی اینٹی قادیانی اور اینٹی شیعہ اور وہابیت نواز تحریکوں کا سائنسی تجزیہ کرنے میں ناکام نظر آئے میرا ان کی پنجاب کے نوآبادیاتی دور کی سیاسی – سماجی زندگی کے بارے میں یہ کمزور اور کسی حد تک ان کے اپنے مذھبی پس منظر کے دباؤ میں لکھا جانے والا خیال آج پیدا نہیں ہوا تھا
جب کہ عبدل نیشا پوری ، فرحت تاج ، رضا رومی ، اعجاز حیدر نجم سیٹھی وغیرہ کے درمیان اور ان کے ساتھ ساتھ بھائی علی ارقم ، سید تقی اور چند ایک نوجوانوں کے درمیان ” مذھبی فاشزم اور اس کے دارالعلوم دیوبند سے روابط اور اس تناظر میں مجلس احرار بارے تکفیری فاشزم وغیرہ کے دعوؤں ” کی بحث شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ شاہ اسماعیل ، سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کے بارے میں تو میں پہلے ہی بہت کلئیر تھا اس لیے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں ایل یو بی پاک کی جانب سے یا عبدل نیشا پوری کی طرف سے یا خالد نورانی کی جانب سے دیوبندی تکفیریت بارے موقف سے اپنے موقف کو مطابق کیا ہے ایک مسلم کیمونسٹ کا روزنامچہ حج عبداللہ ملک کی ایک ایسی کتاب ہے جس نے میرے خیال کی تائید کردی ہے اور اب مجھے یہ بات بھی سمجھ آنے لگی ہے کہ ہماری کئی ایک کمیونسٹوں ، لبرلز کے اندر وہابیت اور دیوبندی ازم کی تکفیریت اور کلچر دشمنی کے بارے میں دوستی اور جھکاؤ کیوں پایا جاتا ہے
مجھے اب یہ بھی یاد آرہا ہے کہ دیوبندیوں کے ایک اور معروف پنجابی عالم مولانا نفیس الحسینی ، اور پاکستان شریعت کونسل کے صدر علامہ زاہد الراشدی اور جامعہ اشرفیہ کے عالم مرحوم عبید اللہ انور ، ضیاء الحق کے رشتہ دار اور سابق مہتم جامعہ اشرفیہ مولانا ادریس کاندھلوی کیوں عبداللہ ملک سمیت کئی ایک وہابی ،دیوبندی پس منظر کے حامل کمیونسٹوں سے اپنی یاد اللہ کا فخریہ تذکرہ کیا کرتے تھے اور مولانا نفیس الحسینی مرحوم نے روزنامہ پاکستان لاہور میں دو اقساط پر مبنی ایک مضمون اپنی میاںوالی جیل میں نظر بندی کے عرصہ بارے لکھتے ہوئے سبط حسن مرحوم کو قرآن پڑھانے بمعہ تفسیر کا زکر کرتے ہوئے یہ دعوی کیوں کیا تھا کہ ان کے اور مرحوم سبط حسن کے تاریخ مسلم بارے ایک جیسے نظریات تھے
عبداللہ ملک نے وہابی تصور توحید سے اپنی شیفتگی کا زکر اس کتاب کے شروع میں لکھے اپنے سوانحی نوٹ میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا خاندان کٹّر وہابی یعنی اہلحدیث تھا اور انھیں آغاز کار سے وہابی عالم مولانا داؤد غزنوی ،دیوبندی عالم مولانا احمد علی اور مولانا غلام مرشد سے عقیدت و تعلق تھا اور وہ کہتے ہیں کہ ان سے وابستگی کی وجہ سے وہ ہمیشہ شرک سے دور رہے اور توحید سے ان کو خاصا شغف رہا وہ اس سوانحی نوٹ کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند میں شرک و فجور کی جو یلغار اور ابن سعود کی مملکت کے خلاف جو مہم 126ء سے 1931ء تک چلی اس کو بھی ان دونوں خانوادوں نے ہی ملکر روکا تھا سچ یہ ہے کہ مولانا احمد علی کی خدمات غزنوی خانوادے سے کہیں زیادہ ہیں ، مولانا احمد علی عقیدتا جنفی تھے اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن بریلویوں کے نزدیک دیوبندی وہابی ہی تصور ہوتے تھے ،
چناچہ ہر وہ مکتب فکر جو سلطان ابن سعود کے قبّے گرانے کی مہم کی حمائت کرتا تھا اس کو یہاں کے کچھ سیاسی اور مذھبی علماء وہابی کا لقب تیکر معتوب ٹھہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے ،چنانچہ مجھے یاد ہے کہ 1930ء سے لیکر 1943ء تک اس ضمن میں باقاعدہ مناظرے ہوا کرتے تھے اور مناظروں کا موضوع مذھبی ہوا کرتا تھا ، اس مہم میں مولانا احمد علی لاہوری نے سولہ سولہ اور بارہ بارہ صفحات کے درجنوں پمفلٹ رقمکئے اور معمولی قیمت پر عوام تک پہنچائے اور لاہور کی فضا کو بدلنے میں اہم رول ادا کیا مقابلے پر بریلوی مولوی دیدار علی اور ان کا گروپ تھا اور ان کا واحد مرکز وزیر خان کی مسجد ہوا کرتا تھا ،اس زمانے میں مولانا احمد علی لاہوری نے تعلیم یافتہ لوگوں کی تربیت کے لیے جوکہ عام طور پر ملازمت پیشہ ہوتے تھے کے لیے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اس درس نے لوگوں کا ایک خاصا بڑا حلقہ پیدا کیا اسی طرح اسی سوانحی نوٹ میں انھوں نے ایک جگہ لکھا جب 1926ء میں سلطان ابن سعود کے خلاف ہندوستان میں مہم چلی تھی کہ اس نے قبے گرادئے تو اس بنا پر مسلمانوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے تھے –
ایک طرف سلطان ابن سعود کا حامی گروہ تھا جس کی قیادت مولانا ابوالکلام کررہے تھے ، اس گروہ میں تمام لوگ وہی تھے جو بعد میں ” احرار ” کے نام سے موسوم ہوئے دوسری طرف مولانا شوکت علی اور ان کی خلافت کمیٹی تھی ، ہمارا خاندان چونکہ غزنوی خاندان کا معتقد تھا بلکہ ان کے سلطان سے قریبی مراسم تھے ،سلطان ابن سعود اس خاندان اور ان کے زریعے اہل حدیثوں کی تھوڑی بہت مالی امداد کیا کرتے تھے اس لیے ہماری ہمدردیاں سلطان ابن سعود کے ساتھ تھیں عبداللہ ملک اس کتاب میں ص 167 اور 168 پر مزید آل سعود کے بارے میں اپنےخیالات کا اظہار کرتے ہیں ویسے ان دونوں حکومتوں کے طرز تعمیر سے ان کے مسلک بھی نمایاں ہوتے ہیں ، کم از کم مجھے محسوس ہوتے ہیں ،اولا سعودی حکومت حرم کی وسعت و کشادگی کو ترجیح دیتی ہے عثمانیوں میں شخصیت پرستی تھی ، یہ شخصیت پرستی یک گونہ شرک کی حدوں کو چھونے لگتی ہے اور وہ رسول خدا کو خدا کا درجہ دینے کی طرف مائل لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ ملک نے یہ تحریر مدینہ میں بیٹھ کر لکھی اور پہلے انھوں نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وہ ایک تہذیبی مسلمان ہیں اور اپنے تہذیبی ورثے اور روایات کا احترام اور ان سے پیار کرتے ہیں ،
اور پھر انھوں نے ایک لمبا لیکچر اس بات کا دیا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں سے انھوں نے لوگوں کی مذھبی تہذیت اور ثقافت کا احترام کرنا سیکھا ، سوہن سنگھ جوش کا ان کی شادی میں شرکت کرنا اور کھانا نہ کھانے کا زکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سوہن سنگھ جوش کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ان گے خلاف انگریز سامراج کو ان کے بارے میں عام سکھوں کو بھڑکانے کا موقعہ نہیں ملے گا لکین یہی عبداللہ ملک اسی تحریر میں ایک طرف تو پنجاب اور لاہور سمیت برصغیر کے مجموعی کلچر کو شرک و فجور سے تعبیر کرکے اور ابن سعود کی جانب قبے گرانے کے عمل کے خلاف داؤد غزنوی اور احمد علی لاہوری کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف وہ دیوبندی اور اہل حدیث کی وہابیانہ کوششوں کے ساتھ کلچر مخالف مہم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے لوگوں کی مذمت کرتے ہیں ان کو عثمانی دور کا کلچر اور آرٹ مدینہ میں جس کے آثار ان کے سفر حج کے موقعہ پر موجود تھے شخصیت پرستی اور شرک کا عکس لگتے ہيں اور وہ آل سعود کی توسیع حرم کے نام پر حجاز کے صدیوں پرانے کلچر کو ملیا میٹ کردینے کی توصیف و تائید کرتے نظر آتے ہيں عبداللہ ملک نے اپنی اس تحریر میں کم از کم احرار کی وہابیت کی توثیق یہ کہہ کر کردی کہ آل سعود کی جانب سے حجاز میں قدیم مذھبی تاريحی ثقافتی آثار کو گرائے جانے کے حق میں مہم چلانے والے سب کے سب وہ تھے جو بعد میں احرار کہلائے عبداللہ ملک نے ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ کیسے 1926ء میں یہ تحریک صرف پاک و ہند میں ہی نہیں چلی تھی بلکہ اس میں مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ کے مسلم ملک کے لوگ بھی شامل تھے
اور ایک وفد ہندوستان سے حجاز گیا ، جس میں مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، سلیمان ندوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی بھی شامل تھے ، مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ” ہمدرد ” میں اس حوالے سے ایک طویل مضمون ميں یہ انکشاف کیا تھا کہ کیسے اس وفد میں شامل کئی ایک دیوبندی مولوی بھی ” احراریوں ” کی طرح ابن سعود سے ملاقات کے بعد ابن سعود کے حامی ہوگئے تھے اور اس مضمون میں مولانا محمد علی جوہر نے ابن سعود کے تصورتوحید پر سخت تنقید کی تھی علامّہ شبیر احمد عثمانی کے خطبات جو مدون ہوکر سامنے آئے ان کی دوسری جلد میں عثمانی ابن سعود اور وہابی مولویوں سے اپنی ملاقات کا احوال لکھا ہے اور ابن سعود کی تعریفیں کی ہیں عبداللہ ملک اس کتاب میں ابن سعود اور ہندوستان کے اہل حدیث کے درمیان تعلق میں مالی امداد کا تذکرہ کرتے ہیں اور وہ حقائق کے برعکس یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ان دنوں ابن سعود کو انگريز غیر مستحکم دیکھنا چاہتے تھے
اور اس نے ہندوستانی وہابی دیوبندیوں کے ابن سعود کے ساتھ اشتراک کو انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد بتاکر جواز دینے کی کوشش کی ہے یہ وہ عذر لنگ ہیں جن پر عبداللہ ملک ہندوستان میں وہابی تحریک کی کلچر دشمنی اور ابن سعود کی تباہ کن سوچ اور تحریک کا جواز تلاش کرتے ہيں جسے عبداللہ ملک ” شرک و فجور ” قرار دیتے ہیں ، اس کے بارے ميں ایک اور ترقی پسند محمود فاروقی جوکہ معروف رجعت پسند شمس الرحمان فاروقی کے بھتیجے ہیں اور داستان گوئی میں شہرت تامہ رکھتے ہیں ہندوستان کے معروف تھیٹرکے آدمی حبیب تنویر کی یاد داشتوں کے دیباچے میں لکھتے ہيں جینے کا کبھی ختم نہ ہونے والا ولولہ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت تھا –
خوش باشی کا یہی خواشگوار احساس تھا ، شادمانی کی تلاش اور زندگی میں خوشیاں پیدا کرلینے کی ان کی یہی صلاحیت تھی جس کے سہارے وہ آگے بڑھتے رہے ، ایک ندرت اوراحساس طمانیت کے ساتھ ، ان کا یہ لامختتم جوش ان کے بچپن کے مخصوص حالات کی دین تھا ، – ان کے والد پٹھان مہاجروں کی اس پہلی نسل میں سے تھے جو ہجرت کرکے پشاور سے آئی تھی – وہ رواں ادرو میں کبھی بات نہ کرسکے اور اس کے لیے عمر بھر اپنی بیوی اور سسرالی رشتہ داروں کے مذاق کا نشانہ بنتے رہے – ان کے والد ایک متقی ، پرہیز کآر اور راسخ مسلمان تھے ،اس لیے انھوں نے کم عمری سے ہی حبیب تنویر کو پابندی سے نماز پڑھنے کی عادت ڈلوائی اور شرک جیسی بدعتوں سے دور رکھا،
لیکن حبیب تنویر کے ڈھیر سارے ننھیالی رشتہ دار نہ صرف رائے پور اور نواح میں رہتے تھے بلکہ کئی ایک تو چھتیس گڑھ ، برار اور مرکوی علاقہ جات کے جنگلات تک میں رہائش پذیر تھے ، جنھوں نے باپ کے سخت گیر اور وہابی عقائد کے باوجود ان کے دل میں گانے کے لیے لگاؤ پیدا کیا ، اور اس کی ابتدائی ٹریننگ انھیں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ میلاد کی محفلوں میں شرکت کے سبب ملی -خالہ ، خالوؤں ، ماموں ممانیوں ، ممیرے خلیرے بھائیوں اور بہنوں کی ایک لمبی قطار ہے جن کو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے کیونکہ ان کے دل پر اردو شاعری کی محبت کی سان انھوں نے ہی رکھی تھی اور انھیں عمر سے پہلے ہی شاعر بناڈالا تھا –
ان کی ماں اور دوسری عورتوں کا ایک ایسا مذھبی سنسار بھی ہے جو مسرتوں اور تقریبوں سے معمور ہے ، جن میں دعوتیں ہین ، گیت ہیں اور میلاد کی محفلیں ہیں ، کچھ ایسی ہی مذھبی زندگی مجھے بھی اپنی نانی کی وجہ سے یاد ہیں جس میں طرح طرح کے کھانے بنانا ، تقسیم کرانا ، خیرات کرنا اور ایسی مذھبی رسوم منانا بھی شامل ہیں جن کا مسجد سے دور دور تک کچھ واسطہ نہیں ، حتی کہ راسخ مذھبی نکتہ نظر سے جن کا قرآن سے بھی کچھ واسطہ نہیں ہے – یہ ہندوستانی مسلمانوں کی گہری مذہبیت کی ہی کارفرمائی تھی کہ 1857ء تک اور اس کے بعد بھی ، یہآں کے مسلمانوں کی رسومات کا اپنا کلینڈر ہوتا تھا – ہ کلینڈر اکثر موسموں کے مطابق طے کیا جاتا تھا اور مقامی واقعات ، مقامی صوفی ، سنت اور مقامی رسم و رواج اس کے محرک ہوتے تھے ایک سوانح نوٹ عبداللہ ملک نے اپنے تہذیبی مسلمان ہونے اور اپنے تہذیبی ورثے اور اقدار پر مفخر ہونے کے دعوے کے ساتھ لکھا اور اس میں صرف اپنے وہابی ورثے کو ہی جگہ دی جبکہ دوسرا یادداشت تنویر حبیب نے رقم کی اور انھوں نے ہندوستان کے مسلم تہذیبی ورثے کی اس جان کا زکر کیا جسے ” شرک و فجور ” کہہ کر عبداللہ ملک نے اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے داؤد غزنوی اور احمد علی لاہور کی تعریف کی ، عثمانیوں کو لتاڑا اور ابن سعود کی تعریف کرڈالی
عبداللہ ملک نے دارالعلوم دیوبند سمیت دیوبندی اور اہلحدیث کے ہآں جنم لینے والی وہابیت کی تزئین وآرائش کا کام کیا اور احراریوں ، خلافتییوں میں تکفیری فاشزم کے ابتدائی جراثیم کا کر تک نہ کیا ، وہ احمد علی اور داؤد غزنوی کو مولانا اور بریلوی عالم دیدار علی کے مولوی اور بریلوی گروہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ویسے جہاں انھوں نے یہ کہا ہے کہ احمد علی لاہوری کے مناظراتی سولہ سولہ صفحات کے پمفلٹوں نے لاہور کی فضا کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اس سے یہ انداہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزنوی اور احمد علی کس فضاء کے خلاف کمربستہ تھے یہ وہ فضا تھی جس کے بارے میں ایک اور معروف کمیونسٹ شاعر اور رہنماء سردار جعفری اپنی کتاب ” کبیر ” میں رطب اللسان ہے اور وہ کبیر کی بھگتی اور تصوف کو برصغیر پاک و ہند کی ترقی پسندانہ تہذیبی روح قرار دیتا ہے اور کبیر بانی کے دیباچے کے آخر میں لکھتا ہے ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے –
اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت صوفی کے دل سے پیدا ہوئی تھی ، آج دنیا آزاد ہورہی ہے ، سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا دیا ہے ، صنعتوں نے اس کے دست و بازو کی طاقت میں اضافہ کردیا ہے ، انسان ستاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے ، پھر بھی حقیر ہے ، مصیبت زدہ ہے ، دردمند ہے ، وہ رںگوں میں ٹہ ہوا ہے ، قوموں میں تقسیم ہے ، اس کے درمیان مذھب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں ، فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں ، طبقاتی کشمکش کیتواریں کھنچی ہوئی ہیں ، بادشاہوں اور حکمرانوں کی جگہ بیوروکریسی نے لے لی ہے ،دلوں کے اندھیرے ہیں یہ کبیر کی ، رومی کی ، غرض کہ تمام سنتوں صوفیوں کی تعلیمات کی نئی تفسیر ہے جو ایک نئی انسانیت کی بشارت لئے ہوئے ہے
سردار جعفری نے یہ تحریر اگست 1965 ء میں لکھی تھی اور عبداللہ ملک نے حج 70ء کی دھائی میں کیا تھا اور وہ اپنی اس تحریر میں جب غزنوی ، احمد علی ، احراریوں کو سیاسی اور سماجی اعتبار سے ترقی پسند قرار دیتے ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس ترقی پسندی میں ان کی کلچر مخالف اور تصوف مخالف سرگرمیوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں جبکہ علی سردار جعفری ، صفدر میر ، سبط حسن ، دادا امیر حیدر ، فیروز الدین منصور ، سجاد ظہیر ،حبیب تنویر ، فیض احمد فیض ، کامریڈ پی سی جوشی کبیر ، رومی ، اور سنتوں ، صوفیوں کی تحریکوں سے بننے والے کلچر کو ترقی پسندانہ اور انسانیت کے لیے بشارت قرار دیتے ہیں یہ وہ فرق ہے جسے علی ارقم اور کئی ترقی پسند دوستوں نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ںظر انداز کردیا ، ویسے اگر عبداللہ ملک کی روشن خیالی اور سیاسی ترقی پسندی کی تعریف کو اگر قبول کرلیا جائے تو پھر طالبان کی جانب سے بامیان کے مسجموں کی تباہی ، مزارات پر حملے ، عاشور و میلاد اور موسیقی کے اجتماعات پر حملوں اور ان کی آئیڈیالوجیکل توجیحات پیش کرنے والوں بھی سیاسیو سماجی اعتبار سے ترقی پسند کہنا پڑے گا ویسے عبداللہ ملک سویت یونین اور روسی انقلابی رہنماؤں کے گن گاتے ہیں اور سویت یونین میں نئے انسان کی پیدائش کی خبر دیتے ہیں
جبکہ لینن اور اس کے بعد جانشینوں نے تو سویت روس کی ثقافتی تاریخ کو ختم نہیں کیا تھا جبکہ خود لینن کی حنوط شدہ لاش ریڈاسکوائر کے میوزیم میں رکھوادی تھی اور اس کے مجسمے جگہ نصب تھے اور روس کی کسی بھی تاریخ کے دور کو ںہ تو کتابوں سے غائب کیا اور نہ ہی اس کے ثقافتی آثار کو تباہ کیا تھا اور جس شخصیت پرستی کو عبداللہ ملک نے ترک عثمانیوں کے دور کے حجاز میں پائے جانے والے آرٹ سے منسوب کرکے مذمت کی وہ تو خود سویت یونین میں اشتراکی آرٹ اور فن تعمیر کی جان تھی میں نے یہ ديکھا ہے کہ جو وہابیت کے اثر ميں ہوتے ہیں ان کے جمالیاتی ثقافت سے نفرت کے آثار بہت نمایاں ںظر آتے ہيں چاہے وہ عبداللہ ملک جیسے کمیونسٹ کیوں نہ ہوں اس کتاب میں عبداللہ ملک نے گاندھی کی عظمت کے بارے میں بھی کچھ باتیں کی ہیں ، ان کو میں اپنے کسی اور مضمون میں موضوع بنانے کے لیے چھوڑے جارہا ہوں ، جو مجھے پرویز ہود بھائی ، ارون دھتی رآئے اور ان کی کے گاندھی بارے لکھے ایک مقالہ بارے بہت جلد لکھنا ہے حال ہی میں دارالعلوم دیوبند میں حدیث پڑھانے والے ایک عالم جوکہ اعظم گڑھ سے ہیں نے میرا ایک آرٹیکل دیوبندی وہابی تکفیریت بارے پڑھنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا اور اس نے کہا کہ میں دیوبندی وہابی تکفیریت کی اصطلاح غلط استعمال کررہا ہوں اور اس نے شبیر احمد عثمانی ، سلیمان ندوی کی جانب سے ابن سعود کی قبے گرائے جانے کی مہم کے خلاف بننے والی کمیٹی کا حصّہ بننے اور سفر حجاز مين ابن سعود سے اس امر کی مخالفت کرنے کا زکر کیا ،
میں نے جب اس سے پوچھا اگر دیوبندی ازم کے اندر تکفیریت اور وہابیت کا نشان نہیں ہے تو پھر آج کے طالبان ازم ، داعش ازم کے مزارات گرانے اور تصوف کے خلاف اعلان جنگ کرنے کو کس صف میں رکھا جائے گا اور سلفی ازم سے دیوبند کے تعلق کو کہاں رکھیں گے اور کیا احمد علی لاہوری ، احراریوں کو اس صف سے خارج کیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب اس عالم کے پاس نہیں ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند سمیت جتنی بھی کلرجی اور مذھبی پیشوائیت ہے اس نے ہندوستان کے مشترکہ کلچر کے خلاف اصلاح پسندی کے نام سے جو اعلان جنگ کیا اس کی کوکھ سے تکفیری مذھبی فاشزم کا جنم ہوا اور آج ہمیں جس دھشت گردی اور بربریت کا سامنا ہے اس کی فکری ، ںظریاتی جڑیں اسی تکفیری فاشزم کے اندر پیوست ہیں
Source:
http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/11/blog-post_15.html