عبدالمجید عابد: غیرجانبداری کے پردے میں چھپا دیوبندی

amd

دیوبندی دھشت گردوں اور نام نہاد اعتدال پسند دیوبندیوں کے باہمی تعلقات اور رشتوں کا پول جوں جوں کھلتا جاتا ہے، ویسے ویسے دیوبندی مختلف لبادے اوڑھ کر حیلوں اور بہانوں سے اہل سنت جن کو عرف عام میں سنی بریلوی یا صوفی کہا جاتا ہے کو بدنام کرنے اور ان کو دیوبندی دھشت گردوں کا ہم پلّہ ٹھہرانے کی کوشیں کی جارہی ہیں اور یہ کام کئی ایک دیوبندی خود کو غیرجانبدار تجزیہ نگار ظاہر کرکے کرنے کی کوشش کررہے ہیں

ایسے ہی ایک نام نہاد غیرجانبدار کالم نگار عبدالمجید جوکہ اندر سے متعصب دیوبندی ہی ہیں کا ایک آرٹیکل انگریزی روزنامہ ” دی نیشن ” میں شایع ہوا ہے ، جس میں اس متعصب دیوبندی نے اہل سنت کے خلاف اپنے خبث باطن مظاہرہ کیا اور اپنی تصوف دشمنی کو بھی باہر لے آیا ہے

db

http://nation.com.pk/columns/10-Nov-2014/fighting-fire-with-fire

انگریزی روزنامہ دی نیشن میں اپنے مضمون میں عبد المجید دیوبندی نے ایک طرف تو دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی مںظم دھشت گردی کے ساتھ ساتھ ناجائز طور پر اہل سنت سواد اعظم کو بھی دھشت گرد ٹھہرانے کی کوشش کی ہے اور ایک ممتاز قادری کی مثال کو سامنے رکھ کر سب اہل سنت کو دیوبندی دھشت گردوں کے برابر ٹھہرانے مذموم کوشش کی ہے جبکہ یقینی بات ہے کہ اسے پتہ ہوگا کہ یہ دیوبندی دھشت گرد ہیں جو ابتک 70 ہزار پاکستانیوں کو شہید کرچکے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا اندرونی خطرہ بن چکے ہیں اور ان تکفیری دھشت گردوں نے پاکستان سے باہر عراق ، شام ، صومالیہ ، الجزائر میں بھی ہزاروں سنی صوفی مسلمانوں کو شہید کیا ہے اور اس کے بعد بھی سواد اعظم اہلسنت بریلوی کو دیوبندی وہابی دھشت گردوں کے برابر ٹھہرانا سوآئے تعصب اور بدباطنی کے کچھ نہیں ہے

عبدالمجید عابد نے اپنے اس مضمون میں سنّی اتحاد کونسل پر ایک مرتبہ پھر وہ گھناؤنا الزام لگایا ہے جو دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردوں نے اہل سنت اور دوسرے مخالف مذھبی برادریوں کو قتل کرنے کے لیے ایک ہتھیار بنارکھا ہےاس نے کہا ہے کہ سنّی اتحاد کونسل نے امریکی حکومت سے پیسے لیے اور ان کی بنا پر طالبان کے خلاف مظاہرے کئے اور پھر اہل سنت کی تصوف سے وابستگی اور صوفیانہ اقدار کے پرچار کو نائن الیون کے بعد کی روش اور اسے امریکی ایجنڈا سے تعبیر کرنے کی کوشش کی اور چودھری شجاعت کی صدارت میں بننے والی ایک صوفی کونسل کا حوالہ دیکر اپنے خیال کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی

جبکہ عبدالمجید عابد کو یاد کرنا چاہئیے تھا کہ جن دنوں چوہدری شجاعت کی صدارت ميں صوفی کونسل بنی اور امریکیوں نے تصوف پروجیکٹ دیا تو ان دنوں سنّی اتحاد کونسل کے بانی صاحبزادہ فضل کریم والد صاحبزادہ حامد رضا پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے، علامہ شاہ احمد نورانی جوکہ سواد اعظم اہل سنت کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ تھے پہلے دفاع افغانستان کونسل میں تھے اور پھر وہ متحدہ مجلس عمل کے صدر بنے تھے اور اس کی صدارت کے دوران ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا اور ان کی زندگی میں ملّا فضل الرحمان کو مشرف کے ایل ایف او پر دستخط کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی اور ان دنوں ایک بھی جید سنّی بریلوی عالم ایسا نہیں تھا جس نے مشرف کی حمائت کی ہو اور عبدالمجید عابد میں اگر صحافتی دیانت موجود ہوتی تو وہ یہ بتاتے کہ جب شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد دیوبندی فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر بنکر ایل ایف او پر دسخط کر بیٹھا اور مشرف کی حکومت میں مزے لوٹنے کے بعد 2008ء میں دیوبندی دھشت گردوں کے مسلم لیگ نواز کے ساتھ یارانے بڑھ گئے اور داتا دربار سمیت پورے ملک میں اور پنجاب مين اہل سنت کے مزارات پر حملے بڑھ گئے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت کئی ایک جید علماء شہید کردئے گئے اور شہباز شریف کے دور ميں عید میلادالنبی کے جلوس ، امام بری کے عرس کے دوران خودکش بم دھماکے ہوئے ،پنجاب کا وزیرقانون رانا ثناءاللہ کو بنادیا گیا اور وفاقی مذھبی امور کے وزیر حامد سعید کاظمی اور روئت ہلال کمیٹی کے چئیرمین مفتی منیب الرحمان کے خلاف دیوبندی لابی نے مہم شروع کی اور نوآز و شہباز نے اس پر خاموشی اختیار کرلی تو صاحبزادہ فضل کریم نے اپنے راستے مسلم لیگ نواز سے الگ کئے

اہل سنت بریلوی نے نہ تو افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کی حمائت کی اور نہ ہی عراق پر حملے کی اور انھوں نے امریکی سامراجیت کی مخالفت جاری رکھی
ان سارے حقائق کو جانتے بوجھتے چھپانا کہاں کی دیانت ہے، یہ سراسر بد دیانتی اور تعصب ہے جس کا مظاہرہ عبدالمجید عابد نے کیا ہے

عبدالماجد عابد نے اپنے اس کالم میں تصوف کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ تصوف نے ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ اور طاقت سے مفاہمت کی تاریخی طور پر غلط ہے اور اس حوالے سے س نے ڈاکٹر مبارک علی کا نام لیکر اپنے مفروضے کو ٹھیک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے – پہلی بات تو یہ ہے کہ چشتی صوفیائے کرام کے بارے میں یہ بات انتہائی گمراہ کن ہے کہ انھوں نے حکمرانوں سے مفاہمت کی اور ان کے ساتھ بناکر رکھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چشتی سلسلے کے صوفیاء نے تو ہمیشہ اپنے آپ کو دربار اور اقتدار سے الگ رکھا اور تاریخ مين فیروز تغلق اور خواجہ ںظام الدین اولیاء کے درمیان ہونے والے تنازعے کا زکر بہت تفصیل سے ملتا ہے اور پھر مسلمان صوفیاء کی وجہ سے ہی تو ہند و پاک کا وہ ہند اسلامی تہذیبی کلچر تشکیل پایا جس نے بقائے باہمی اور مذھبی ہم آہنگی کو فروغ دیا اور اس کی بنیاد ہی رواداری پر پڑی تھی اور صوفیائے کرام کی تحریک اور ان کے اثرات کا ٹھیک ٹھیک تاریخ کی روشنی میں تعین کرنا مقصود تھا تو عبدالمجید عابد کو اس انتہائی معتبر اور حقیقی تحقیق سے مدد لینی چاہئیے تھی جو ہندوستان میں خلیق انجم نے ” چشتی صوفیاء اور سلاطین دھلی ” کے عنوان سے کی ہے اور اس موضوع پر اینی میری شمیل ، ڈاکٹر تارا چند وغیرہ نے جو لکھا اس پر بھی بات کرنی چاہئیے تھی

یہ جو ہائی چرچ اور لو چرچ کی تقسیم کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ شاید اہل سنت بریلوی کے ہاں علمی روائت موجود نہين ہے تو صرف امام احمد رضا خاں بریلوی کے فتاوی جات کی 14 جلدوں پر ایک نظر ڈالنا کافی ہوگی ، ہآں یہ ضرور ہے کہ اہل سنت بریلوی نے علم شریعت کو فساد پھیلانے اور خارجی آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنا علم آل سعود کے پاس گروی رکھا اور نہ ہی اپنے علم کو سی آئی فنڈڈ نام نہاد جہاد کے سپرد نہیں کیا

اصل میں اہل سنت بریلوی سے دیوبندی کیمپ اور اس کے لبرل نما معذرت خواہوں کو تکلیف یہ ہے کہ وہ ان کے تکفیری فتنے کے خلاف کھڑے کیوں ہوگئے ہیں اور ان کی جانب سے پاکستان کو دیوبندی وہابی ریاست میں بدلنے کی کوششوں میں روکاوٹ کیوں ڈالی جارہی ہے اہل سںت بریلوی سواداعظم کے اندر سیاسی بیداری اور شعور کی لہر اور ان کی جانب سے پاکستان کو دھشت گردی سے پاک کرنے کے لیے جو سعی نظر آرہی ہے اور اس سے دیوبندی سیاست بے نقاب ہورہی ہے یہ بات دیوبندی سیاست کے لیے بہت خطرناک ہے ، اس لیے کبھی تو تصوف کو امریکی ایجنڈا قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی سنّی بریلوی علمآء کو زبردستی امریکہ سے نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے

اہل سنت کو عبدالمجید عابد جیسے دیوبندی متعصبین کی اچھی طرح شناخت کرلینی چاہئیے جوکہ چاہتے ہیں کہ سواد اعظم دیوبندی تخریبی سیاست کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیں – تصوف اور رواداری سنّی ازم کے بنیادی ستون ہیں اور یہ اگر سنّی ازم سے نکال دئے جائیں تو سنّی ازم کی عمارت دھڑام سے نیچے آگرے گی اور اس کے ملبے پر پھر وہابیت کی عمارت ہی استوار ہوسکے گی جوکہ دیوبندی ازم کے علمبرداروں کی دیرینہ خواہش ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Zahra Yufi
    -
  3. Kashif Khan
    -
    • Kashif Khan
      -
  4. Ijaz Butt
    -